مٹھی بھر مٹی

September 04, 2019

عائشہ یاسین

اماں بی! اک تو مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اتنے چھوٹے سے گھر میں یہ پودے کیوں لگا رکھے ہیں ......ناجانے آپ اس مٹی میں کیا کھوجتی رہتی ہیں ۔ اپنی بہو کی آواز پر لمحہ بھر کو چونکی اور نگاہ اٹھتے ہی پہلی نظر قائداعظم کے مزار پر پڑی جو کہ چوتھی منزل کی بالکونی سے دکھائی دے رہا تھا جہاں روشنی کے قمقمے اب بھی جگمگارہے تھے۔میرے جھریوں والے ہاتھوں میں اب بھی مٹی تھی اور یہ دیکھ کر میری بہو نے حقارت سے مجھ پر نظر ڈالی اور میرے پوتے کو نہلانے لے گئی۔

’’اماں جی ہم کہاں جارہے ہیں ’’نو سال کی زینب نے جب اپنی اماں کو سامان لپیٹتے دیکھا تو پوچھا‘‘ آپ کو معلوم نہیں بیٹا! پاکستان جارہے ہیں ہم اپنے پاکستان.....‘‘

اماں جی گو کہ بہت پریشان معلوم ہورہی تھیں، مگر پھر بھی ان کی آنکھیں ہیرے کی مانند چمک رہی تھی.... کہ کہیں سے بھولا بھاگتا ہوا آیا۔ اماں ! بس ایک ہی گھڑی لینا وہاں تو اپنا سب کچھ موجود ہوگا نا..!

یہ ہمارا چھوٹا سا گھر تھا جہاں آم کے درخت کے سائے میں ہم تیرہ افراد رہتے تھے۔ اماں ،ابا، دادا، دادی، چاچا ،چاچی اور ان کے بچے اور ہم پانچ بہن بھائی اب ہم اپنے نئے ملک اور گھر جارہے تھے۔سامان میں ،میںنے اپنی مٹی کی گڑیا بھی ڈال لی ۔رات کو ہی ریڈیو پر اعلان ہوا تھا اور لوگ پاکستان کا رُخ کررہے تھے ۔میں چھوٹی تھی ،اسی لیے مجھے اتنی سمجھ نہیں تھی ۔ہاں ! ابا ،دادا اور محلے کے لوگوں کو ہاتھ میں ریڈیو تھامے اور کچھ سنتے اور جشن مناتے دیکھا تھا ۔ہم اپنے گھر کو خیر باد کہہ کر ریلوے اسٹیشن کی طرف نکل پڑے۔ گھر سے اسٹیشن تک کا سفر بڑا دشوار گزار تھا۔ ہم چھوٹے سے گائوں سے تعلق رکھتے تھے۔ جب گائوں سے نکلے تو باہر عجیب عالم پایا۔ لوگوں کا جم غفیر ہجرت کو نکل پڑا تھا۔ ابھی کچھ دور ہی چلے تو پتہ لگا کہ ہندوئوں نے ہمارے گائوں پر حملہ کردیا ہے اور مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔

’’یہ قتل کیا ہوتا ہے اماں‘‘ میں نے پوچھا....تو آنکھ بند کرکے سوجا بیٹا! بس دعا کر ہمیں ٹرین مل جائے۔ اندھیرا ہونے ولاتھا۔ بیل گاڑی کا شور دماغ کو دبوچ رہا تھا کہ کچھ فاصلے پر لوگ ڈنڈے اور بھالے پکڑے نظر آئے۔ ’’یااللہ! یہ کیا غضب ہورہا ہے!‘‘نور الدین چاچا یہ کہتے ہوئے اترےاور کچھ ہی دیر بعد چاچانور ان ظالم ہندوئوں کے ہتھے چڑھ

گئے ۔ بیل گاڑی میں موجود سب لوگ سہم گئے۔ چاچا نے کوچوان کو نا رکنے کا اشارہ کیا اور بیل گاڑی تیز رفتاری سے آگے بڑھتی چلے گئی۔ میری آنکھوں کے سامنے ان ہندوئوں نےچاچا کو مار ڈالا۔

’’ہم کہاں جارہے ہیں اماں‘‘ میں نے پوچھا۔ پاکستان اماں بولی۔اسٹیشن کا منظر دیکھ کر دل حلق کو آگیا، افراتفری کا عالم تھا ، نہ جانے کہاں کہاں سے لوگ آکرٹرین کے انتظار میں بیٹھے ہوئےتھے، کوئی زخمی پڑا تھا کوئی بوڑھا اپنی سانسیں سنبھال رہا تھا تو کوئی عورت اپنے پلو سے لپٹے بیمار بچے کو حسرت سے دیکھ رہی تھی، اتنے شور اور ہنگامے میں بھی سب کے زبانوں پر بس ایک ہی بات تھی،’’ پاکستان‘‘۔

قائداعظم کا پاکستان، جناح کا پاکستان۔ لال ٹین کی روشنی میں مٹی پہ سوکھی ٹہنی سے اڑی ترچھی لکیریں بناتے ہوئے ایک مٹھی مٹی لے کر سونگھا تو اماں جی کی آواز کانوں میں پڑی ۔اب دیکھ اس مٹی میں وہ بو نہی رہی جو ہمیں اپنا پکارتی تھی، ہمیں بلاتی تھی اب تو یہاں سے جانا ہی ہوگا۔

بڑے انتظار کے بعد ٹرین کی سیٹی نے جگادیا ، صرف اندھیرا ہی دکھا، یہ نہیں معلوم کہ ہم کیسے آئے، کس ڈبے میں گھس پائے۔ بس یہ یاد ہے کہ ٹرین نہ جانے کتنے گھنٹوں شور مچاتی چلتی گئی۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ اور ٹرین کی آواز سےجب آنکھ کھلی تو میرے اردگرد لوگ لٹے پٹے زخمی پڑے تھے، کوئی آخری سانس گن رہا تھا تو کوئی لاش کے پاس بٹھا ماتم کررہا تھا۔ کھڑکی سے جھانک کر باہر دیکھا تو کتنی بستیوں اور گائوں سے اب بھی دھواں اٹھ رہا تھا، نہ جانے کتنے لوگوں کی ذبح شدہ لاشیں ٹرین کے انتظار میں اب بھی پاکستان جانے کی خواہاں تھیں ، مگر ہماری ٹرین بنا کہیں رکے چلتی چلے گئی چھک چھک چھک چھک........

اماں نے مجھے اُٹھایا....زینب اُٹھو!آگیا ہمارا پاکستان۔ اُترو جلدی اُترو۔اب سب ٹھیک ہوجائے گا....ابا نے اماں کو سمجھایا۔دادا جی نے آخری بار آنکھیں اٹھاتے ہوئے پوچھا....کیا آگیا جناح کا پاکستان!.... اور آنکھیں موند لیں۔ ہم سب ٹرین سے اُترے اور ابا نے اُترتے ہی سجدہ شکر اداکیا اور مٹی کو چوما....اماں جی نے مٹھی بھر مٹی ہاتھ میں بھر کر مجھے دیتے ہوئے کہا....دیکھ زینب کسی سوندھی مہک ہے، کتنے پیار اور خلوص کی خوش بو آتی ہے....کتنی پاک ہے یہ مٹی....ہمارے پاکستان کی مٹی، دیکھ زینب آگیا ہمارا پاکستان اماں جی کے آنسو بند توڑ کے بہہ نکلے اور مٹی میں جذب ہوگئے۔

اماں جی آپ اب بھی یہیں کھڑی ہیں۔ اب تو سورج بھی طلوع ہوگیا ہے....میرے پوتے وارث کی آواز پر میں نے چونک کر ماضی کو پیچھے چھوڑ کر نظر اٹھا کر دیکھا تو سورج طلوع ہوچکا تھا۔ جب میں نے مٹھی بھر مٹی کو سونگھا تو آج بھی بڑی سوندھی اور وفا کی خوشبو آرہی تھی۔ آج بھی شہیدوں کے لہو کی مہک تھی۔ آج بھی مہک رہی تھی جذبہ ایمانی سے مٹھی بھر مٹی....