جی سیون ممالک کا اجلاس

June 16, 2021

گروپ آف سیون یا جی سیون کا حالیہ تین روزہ اجلاس برطانیہ کے حسین سیاحتی مقام کورن وال میں منعقد ہوا۔ اجلاس کے ایجنڈے میں اہم نکات کرّۂ ارض کے قدرتی ماحول کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے جامع پالیسی وضع کرنا، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور کارپوریشنز سے زائد ٹیکس وصول کرنا، کووڈ19- جیسی وبائی بیماریوں کا تدارک کرنا، صحت عامہ شعبہ کو مزید بہتر بنانا، عالمی معیشت اور تجارت میں سُدھار لانا شامل تھے۔

اس کے علاوہ امریکہ سمیت بعض دیگر ممالک نے بھی اس کانفرنس میں ایک الگ ایشو پر کام کرنے کے لئے عالمی ادارۂ صحت سے کہا ہے کہ کورونا وائرس سال 2019ء میں ووہان چین کی تجربہ گاہ سے پھیلا یا پھر کہاں سے پھیلا، اس کی دوبارہ تحقیق کرکے رپورٹ پیش کرے۔ حالیہ اجلاس کے لئے برطانیہ نے خصوصی حفاظتی انتظامات کا بندوبست کیا تھا۔ رائل آرمی کے خصوصی کمانڈوز تمام علاقے کی نگرانی کر رہے تھے۔

اس کے علاوہ سیٹلائٹ سے مخصوص مقام پر نظر رکھی گئی تھی، مزیدیہ کہ بحریہ کے کروز جہاز میں جو ساحل کے ساتھ لنگرانداز تھا اس میں دو سو کمانڈوز کو رکھا گیا تھا ،تا کہ بوقت ضرورت انہیں بھی کال کیا جا سکے۔ اس قدر سیکورٹی کے انتظامات کی وجہ یہ تھی کہ 2015ء میں جرمنی میں ہونے والے جی سیون کے اجلاس کے دوران اچانک ایک بڑے احتجاجی گروپ نے زوردار نعرے لگاتے ہوئے اس عمارت کو گھیر لیا تھا جہاں اجلاس جاری تھا اور اہم ممالک کے سربراہ اور دیگر شخصیات موجود تھیں۔ بمشکل تمام ہجوم کو عمارت سے دُور کیا گیا جو ہاتھوں میں پلے کارڈ اُٹھائے ہوئے تھے جن پر جرج تھا،کہ ہمیں وعدے نہیں عمل چاہئے۔

اس واقعہ کے بعد گروپ سیون سمیت ورلڈ اکنامک فورم کے منتظمین بھی احتیاطی تدابیر کرنے لگے ہیں۔ درحقیقت عوام کو اصل غصّہ ورلڈ اکنامکس فورم پر ہے، مگر وہ اپنا اجلاس سوئٹزرلینڈ کے برفانی تفریحی مقام ڈیوس میں منعقد کرتے ہیں یہاں صرف ہیلی کاپٹر سے جایا جا سکتا ہے۔ عوام اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ڈبلیو ای ایف محض دُنیا کے امیر ترین شخصیات کا تفریحی کلب ہے جنہوں نے عوام کو مطمئن کرنے کے لئے اپنے تفریحی پروگرام اور آپس کی ملاقاتوں کو اجلاس کا نام دے رکھا ہے۔مگر جی سیون کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔

اس گروپ میں فی الحال دُنیا کے سات بڑے صنعتی ترقّی یافتہ ممالک رُکن ہیں۔جن میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، جاپان، اٹلی اورکینیڈا شامل ہیں۔ 2014ء تک یہ گروپ۔8کہلاتا تھا مگر روس کے یوکرین کے صوبہ کریما پر قبضہ کے بعد روس کو گروپ نے احتجاج کے طور پر اپنے سے الگ کر دیا تھا، تب سے یہ گروپ سیون ہی کہلاتا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گروپ میں تجویز پیش کی تھی کہ گروپ سیون میں مزید چند اہم ممالک کو شامل کر لیا جائے اور وہ ممالک بھی گروپ کے رُکن بننا چاہتے ہیں جیسے آسٹریلیا، بھارت، جنوبی کوریا اور برازیل وغیرہ۔

اگر مذکورہ چاروں ممالک گروپ سیون میں شامل ہو جاتے ہیں تو پھر یہ گروپ الیون کہلائے گا اس کے علاوہ چین کو بھی گروپ میں شامل کرنے کی تجویز ہے اگر چین بھی شامل ہوگیا تب یہ گروپ۔12کہلائے گا۔ اگر روس کو بھی واپس رُکن بنا لیا جاتا ہے تو یہ شمار بڑھ جائے گا۔گروپ سیون کے اغراض و مقاصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ زیادہ بہتر ہے کہ گروپ میں رُکن ممالک کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور چین کو اس میں ضرور شامل کیا جانا چاہئے۔

حالیہ کانفرنس کے باقاعدہ افتتاح سے ایک دِن قبل امریکی صدر جوبائیڈن اور ان کی اہلیہ نے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اور ان کی اہلیہ کی معیت میں بکنگھم پیلس میں ملکہ ایلزبتھ سے ملاقات کی۔ امریکی صدر کا اپنے عہدے پر فائز ہونے کے بعد یہ پہلا دورہ تھا۔ بعدازاں امریکی صدر اور برطانوی وزیراعظم کے درمیان ایک گھنٹہ سے زائد غیررسمی ملاقات ہوئی جس میں دونوں جانب سے شکوہ شکایات کا تبادلہ بھی ہوا۔

حالیہ اجلاس میں گروپ سیون ممالک نے بطور مہمان آسٹریلیا، بھارت اور جنوبی کوریا کو بھی مدعو کیا ہے اور یہ ممالک شریک اجلاس ہیں۔اجلاس میں برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا کہ ایجنڈے کے اہم نکتے میں کووڈ19- کے مکمل خاتمے کے لئے تمام ممالک کی مدد کی جائے،خاص طور پر غریب ممالک کو زیادہ رقم ادا کی جائے، امریکا، برطانیہ، کینیڈا، اٹلی ، فرانس ، جرمنی، جاپان سمیت سب اراکین نے اس پر اتفاق کیا۔

اجلاس میں تجارت میں محصولات پر نظرثانی کا بھی مطالبہ کیا گیا جس میں تمام اراکین کا مؤقف تھا کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے ایکسپورٹ پر محصولات میں جو تبدیلیاں کی تھیں اس پر کئی ممالک کو تحفظات ہیں جن میں برطانیہ سرفہرست ہے۔ کرّۂ اَرض کے موسمی تغیّرات، گلوبل وارمنگ اور عالمی سطح پر خوراک کی کمی کے مسئلے پر زیادہ طویل مذاکرات ہوئے۔

اگر دیکھا جائے تو حالیہ گروپ سیون نے ایجنڈے پر ماحولیات کے مسئلے کو سرفہرست رکھا تھا۔ اس مسئلے پر خاصی بات چیت رہی اور یہ جائزہ لیا گیا کہ گزرے چالیس برسوں میں اس نازک مسئلے کے تدارک کے لئے جو بھی فیصلے ہوئے تھے ان پر کس حد تک عملی طور پر کام کیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ تاحال اتنی سنجیدگی سے قراردادوں پر عمل درآمد نہیں ہوا جس قدر مسئلہ نازک اور اہم ہے۔ اجلاس میں ہر بار یورپی یونین کے دو نمائندگان شریک ہوتے ہیں، اس بار بھی شریکِ اجلاس تھے جنہوں نے عالمی سطح پر خوراک میں کمی اور بیش تر ممالک میں بھوک اور قحط سے ہلاک ہونے والوں کے مسئلے پر اپنی گہری تشویش ظاہر کی۔

یورپی یونین کے نمائندوں نے اجلاس کو بتایا کہ حالیہ جائزوں کے مطابق روزانہ 15 سے 18 ہزار کم سن اور نوزائیدہ بچّے خوراک کی نایابی کی وجہ سے ہلاک ہو رہے جن کا زیادہ تر تعلق افریقہ سب صحارا ممالک سے ہے۔ حالیہ اجلاس میں بتایا جاتا ہے کہ ہر رُکن ملک نے پوری تیاری سے اجلاس میں شرکت کی اور ہر نکتہ پر سنجیدگی سے بات چیت کی گئی۔ گروپ سیون نے کووڈ19- سے عالمی سطح پر جو معاشی، معاشرتی اور سیاسی منفی اَثرات نمایاں ہوئے اس کا بھی بھرپور جائزہ لیا گیا۔ خصوصاً معاشی کسادبازاری پر گہری تشویش ظاہر کی گئی اور اس کے تدارک کے لئے تجاویز طلب کی گئیں۔

درحقیقت ستّر کی دہائی میں تیل کے بحران سے ہراساں ممالک نے محسوس کیا کہ ترقّی یافتہ ممالک کو ایک عالمی سطح کا فورم تشکیل دینا چاہئے جو اس طرح کے بحرانوں کا تدارک کر سکے اور ایک دُوسرے کی مدد کر سکے۔ اس ضمن میں امریکہ، فرانس نے زیادہ سرگرمی دکھائی۔ 1975ء میں گروپ کا قیام عمل میں آیا جس میں پہلے پانچ ترقّی یافتہ ممالک کو رُکن بنایا گیا پھر اس میں بتدریج اضافہ ہوا۔ اس گروپ کا ہر سال اجلاس منعقد ہوتا ہے۔ گروپ سیون کے ممالک ہر عالمی سیاست، معیشت، معاشرت اور سیکورٹی کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

گزشتہ پینتالیس برسوں میں دُنیا میں علاقائی جنگیں برپا ہوئیں، تنازعات اُبھرے، افغان وار ہوئی، ایران میں انقلاب آیا، سوویت یونین منتشر ہوگیا، چین نے نظریاتی و سیاسی طور پر نئی کروٹ بدلی، نائن الیون کا اندوہناک سانحہ ہوا، کہیں جمہوریت کو فتح اور کہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

کمپیوٹر کی ایجاد نے دُنیا کو ترقّی کی نئی شاہراہ متعارف کرائی، علم، تحقیق، خلائی فتوحات اور ترقّی کا ایک نیا سلسلہ سامنے آیا۔ انسان نے ہر چند کہ بہت سی کوتاہیوں سمیت ترقّی اور خوشحالی کی نئی منزلیں طے کیں۔ ان تمام مراحل سے گزرتے ہوئے گروپ سیون اس جگہ پہنچا ہے اور اب نئے معرکوں کا سامنا کرنے کے حوالے سے پَر تول رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ آئندہ برس گروپ سیون، دس یا گیارہ میں بدل جائے۔

گروپ کے حالیہ اجلاس میں ایک بڑا مثبت فیصلہ یہ ہوا کہ دُنیا کے ترقّی پذیر ممالک میں ایک اَرب کوویڈ ویکسین ڈوزز فراہم کی جائیں کیونکہ بہت سے ممالک ایسے ہیں جن تک ویکسین نہیں پہنچی ہے۔ گروپ کے اس فیصلے سے غریب ممالک کو ویکسین دستیاب ہو جائے گی۔ گروپ سیون کے اس فیصلے کا ہر جگہ خیرمقدم کیا جا رہا ہے کیونکہ بھارت میں تاحال کورونا کی جو صورت حال ہے وہ تشویشناک ہے اگر یہ خوفناک وباء پھر اپنا پَھن پھیلانے لگی تو خدشہ ہے کہ دُنیا پھر لپیٹ میں آ سکتی ہے۔ کورونا کی وبائی بیماری کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ہر بار یہ بیماری نئی شکل میں سامنے آتی ہے۔

امریکی میڈیا میں گروپ سیون کے حالیہ اجلاس کے حوالے سے ایک بڑی خبر سامنے آ رہی ہے جس نے بہت ممالک کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ اس اہم ترین خبر کا ذکر گروپ کے حالیہ اجلاس کے پریس ریلیز میں نہیں ہے اور نہ وائٹ ہائوس کی طرف سے اس خبر کو تاحال جاری کیا گیا۔ امکان ہے کہ جلد یہ اہم خبر عام ہو جائے گی۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن اور دیگر مغربی ممالک نے ایک طویل المدت جامع منصوبہ ترتیب دیا ہے جس کو دس سے پندرہ برسوں میں بتدریج عملی طور پر آگے بڑھایا جاتا رہے گا جس پر اندازہ ہے امریکہ اور اس کے حلیف اس منصوبہ کو کامیاب بنانے کے لئے چالیس ٹریلین ڈالر تک کی خطیر رقم خرچ کرنے کے لئے کمربستہ ہیں۔

منصوبے میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ امریکہ اور اس کے مغربی حلیف چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تجارتی، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی کے شعبوں میں پیش رفت کو روکنے یا کم کرنے پر آمادہ ہو چکے ہیں ان کو خدشہ ہے کہ اگر چین کی اس سرعت سے پیش قدمی کا تدارک نہ کیا گیا تو مغرب کو عظیم خسارے سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔

مجوزہ منصوبے کے تحت مغربی ممالک ترقّی پذیر ممالک کی مدد کر کے ان کے مسائل حل کرنے کی کوششیں کریں، جدید ٹیکنالوجی فراہم کی جائے، ترقّی پذیر ممالک پر سے چین کے معاشی اور سیاسی اَثرات کو کم سے کم کر دیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ اس منصوبے میں بھارت کو سرفہرست رکھا گیا ہے، کیونکہ بھارت کچھ اہم شعبے میں ترقّی حاصل کر رہاہے، کچھ شعبے پیچھے ہیں۔

امریکہ اور دیگر مغربی ممالک دراصل بھارت کو چین کے مقابل کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ بہتر کارکردگی دکھا رہا ہے۔ اس کو مزید جدید بنانے اور دیگر ضروری جدید ٹیکنالوجی بھارت کو فراہم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں پر انفرا اسٹرکچر کو بھی ترقّی ی جائے گی۔ اس طرح دیگر ایشیائی اور مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک کو بھی ان کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد دی جائے گی۔ درحقیقت امریکہ اور یورپی ممالک چین سے عسکری میدان میں مسابقت کے بجائے تجارتی میدان میں مسابقت کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں کیونکہ چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ سرعت سے آگے بڑھ رہا ہے اور چین نے بھی اربوں ڈالر کی سرمایہ کر دی ہے اور مزید سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

امریکہ اور مغرب، چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا تدارک چاہتے ہیں جس کے لئے وہ چالیس کھرب ڈالر کی خطیر رقم مختص کر رہے ہیں اور ساتھ ہی دیگر ممالک کو مسابقت کے لئے ٹیکنالوجی بھی فراہم کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل چین کے مقابلے میں امریکہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے سینیٹ سے ایک بڑی رقم کی فراہمی کی منظوری کے لئے بل پیش کر چکے ہیں اور غالباً یہ بل منظور بھی کر لیا گیا ہے۔ تاہم چالیس ٹریلین منصوبہ کی حتمی شکل سامنے آنے کا انتظار ہے۔