جوہری دہشت گردی اسرائیل اور بھارت کو استشنیٰ

June 16, 2021

کسی ترقی پذیر،مغرب کی ہربات پر ہاں میں ہاں نہ ملانے والے یا اسلامی ملک سے جوہری پلانٹ اور جوہری سائنس دان سے لے کر یورینیم تک (خواہ وہ خام شکل ہی میں کیوں نہ ہو)،حتی کہ پُر امن مقاصد کے لیے جوہری ٹیکنالوجی استعمال میں لانے کی چھوٹی سی خبر آنے پر بھی مغرب میں واویلا مچ جاتا ہے،لیکن دو ممالک ایسے جنہیں دنیا نے شایداس ضمن میں ہر طرح کا استثنا دے رکھا ہے ۔ یہ اسرائیل اوربھارت ہیں۔ان دونوں ممالک کی جانب سے اس ضمن میں ماضی میں جو بھی خبریں آتی رہیںان پر دنیا کےکسی ’’طاقت ور‘‘ نے کان نہیں دھرا۔ حال ہی میں ان ہی دونوں ممالک کی جانب سےجوہری معامالات کے بارے دو بہت دھماکا خیز خبریں یکے بعد دیگرے سامنے آئیں،لیکن ان میں سے کسی ایک ملک پر بھی لعن طعن کی گئی،اس کے خلاف قرارداد منظور ہوئی ، پابندیاں عاید کی گئیں اور نہ جنگ مسلط کی گئی۔

پہلے رواں برس چھ مئی اور پھر چار جون کو بھارت سے عام لوگوں کے قبضے سے کافی مقدار میں یورینیم برآمد ہونے کی خبریں آئیں،پھر اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے حال ہی میں سبک دوش ہونے والے سربراہ،یوسی کوہن نے چند یوم قبل ایران کے جوہری منصوبے کے راز چوری کرنے کا بڑے فخر سے اقرار کیااوریہ تک بتایا کہ اسرائیل نے ایک زیرِ زمین ایرانی جوہری پلانٹ کو تباہ کیا تھا ۔ اس نے نطنزکے جوہری پلانٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انٹرویو کرنے والی صحافی سےواضح طورپرکہاکہ وہ اس سائٹ کواچھی طرح پہچانتاہے اوروہ اُنہیں اس ہال تک لے بھی جا سکتاہے جہاںگھومنے والے سینٹری فیوجز نصب ہیں۔ پھر اُس نے کہاکہ جو گھوما کرتے تھے،اب وہ ہال ویسا نہیں ہے جیسا پہلے لگتا تھا۔

یوسی کوہن نے اسرائیل کے ٹی وی چینل12پر ایک دستاویزی پروگرام میں صحافی ایلانا ڈایان سے گفتگو کی جوگزشتہ جمعرات کی رات نشرکی گئی۔اسرائیل نے ایرانی جوہری منصوبےکے رازکس طرح چوری کیے؟اس بارے میں اس نے تہلکہ خیز انکشاف کیا۔اس کا کہنا تھا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کی نئی اور حساس معلومات حاصل کرنے کے لیے ہم نے ایک آپریشن کیا جس کی نگرانی میں نے خود کی تھی۔یادرہے کہ یوسی کوہن پانچ برس سے زیادہ عرصے تک موسادکا سربراہ رہ چکا ہے۔

مذکورہ انٹرویو میں اس نے اسرائیل کی جانب سے ایران کے خلاف کیے گئے آپریشنز سے پردہ اٹھاتے ہوئے ایران کی جوہری دستاویزات کی چوری کے متعلق تفصیلات بتائیں۔اس کا کہنا تھا کہ 2018 میں ایران سے لاکھوں دستاویزات چوری کرکے اسرائیل بھیج دی گئی تھیں۔اس کے علاوہ اُس نے ایران کے ایک جوہری پلانٹ کی تباہی اور اس کے ایک جوہری سائنس داں کے قتل میں اسرائیل کا ہاتھ ہونے کا عندیہ بھی دیا۔

اسرائیل کے سابق وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے2015کے اواخر میں کوہن کو موساد کا سربراہ بنایا تھا۔اس نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پورےکیریئرکےدوران اُس کے پاس سیکڑوں پاسپورٹ رہے ۔کوہن کا کہنا تھا کہ اسے اس آپریشن کی منصوبہ بندی کرنے میں دو سال لگے۔ صحافی ایلانا ڈایا ن نے کہا کہ اس میں ایرانی سرزمین پرموساد کے بیس ایجنٹ شامل تھے جن میں سے کوئی بھی اسرائیلی شہری نہیں تھا۔

موساد کے سربراہ نے یہ پورا آپریشن تل ابیب میں ایک کمانڈ سینٹر میں بیٹھ کر دیکھا۔ ایجنٹ ایک گودام میں گھسے اور اُنہیں تیس تجوریاں توڑنی پڑیں۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق کوہن نے کہا کہ جب اسکرین پر دستاویزات کی تصاویر آئیں تو یہ ہم سب کے لیے بہت پرجوش لمحہ تھا ۔تمام بیس ایجنٹ اس کارروائی میں سلامت رہے اور اب بھی خیریت سے ہیں، تاہم کچھ کو ایران سے نکالنا پڑاتھا۔

کسی سنسنی خیز ناول کی طرح کوہن نے بتایا کہ کیسے ایجنٹوں نے تجوریاں توڑیں، ٹنوں کے حساب سے ایرانی جوہری دستاویزات چرائیں اور پیچھا کرنے والے سیکیورٹی اہل کاروں سے بچتے ہوئے انہیں ملک سے باہر پہنچادیا۔اس کے علاوہ وہ یہ اعتراف کرنے کے قریب ترین پہنچا کہ اسرائیل نے ایک زیرِ زمین ایرانی جوہری پلانٹ کو تباہ کیا تھا۔

کوہن نے غالبا ان دستاویزات کی جانب اشارہ کیاہےجن کےبارے میں بن یامین نیتن یاہو نے 2018 میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا تھا ۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ ان دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور اسرائیل نے ایسا کرنے کی معلومات خفیہ طورپر حاصل کر لی ہیں ۔ تاہم ایران اس الزام کی تردیدکرتا ہے۔

حربی امور کے ماہرین کے مطابق یہ انٹرویو بہت نپا تُلاتھااوراسے پیش کرنے کا وقت بہت معنی خیز ہے ۔ ایسےانٹرویو عسکری حلقوں کی اجازت کے بغیر نشر نہیں ہوتے۔اس کے ذریعےاسرائیل کے دشمنوں کو یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ موساد دشمن کی سرحدوں کے اندر گہرائی تک گھس کر کام کرنے پر آمادہ ہے۔

یوسی کوہن نے اُن کارروائیوں میں بھی موساد کے ملوث ہونے کے بارے میں عندیہ دیاجن میں اسرائیل کا ہاتھ ہونے کا اب تک صرف شبہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے۔کوہن نے ایران میں نطنز کے جوہری پلانٹ کے بارے میں بات کی۔یادرہے کہ ایران نے کہا تھا کہ جولائی2020میں یورینیم کی افزودگی کے ایک پلانٹ میں سبوتاژ کی ایک کارروائی سے آگ لگی ہے۔رواں سال اپریل میںنئے ساز و سامان کی رونمائی کے ایک دن بعد ہی حکام نےبتایا تھا کہ اسے سبوتاژ کر دیا گیا ہے اور اسے شدید نقصان پہنچا ہے۔ایران نے اس معاملے پر اسرائیل کو’’جوہری دہشت گردی‘‘ کا مرتکب قرار دیا تھا۔

یوسی کوہن نے ایران کے ایک چوٹی کے جوہری سائنس داں محسن فخری زادہ کے بارے میں بھی بات کی جنہیں گزشتہ برس نومبرکے مہینے میں تہران کے باہر ایک سڑک پر قتل کر دیا گیا تھا اور ایران نے اس کا الزام اسرائیل پر عاید کیا تھا۔ موساد کے سابق سربراہ نے اس میں ملوث ہونے کی تصدیق یا تردیدتو نہیں کی مگر اُس کا کہنا تھا کہ مذکورہ سائنس داں کئی برس سے ہدف تھے اور اُن کی سائنسی معلومات سے موساد کو خدشات لاحق تھے۔ اس نے دھڑلّے سے یہ کہا کہ اگر کسی شخص میں اسرائیل کے شہریوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کی صلاحیت ہے تو اس شخص کا وجود مٹنا ضروری ہے۔تاہم اگر کوئی اپنا شعبہ تبدیل کرلے اور ہمیں مزید نقصان نہ پہنچانے پر تیار ہو تو اس کی جان بخشی جا سکتی ہے۔

دوسری جانب ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد صدارتی انتخابات کی دوڑ سے باہر کیے جانے کے بعد آئے روز کوئی نیا ریاستی راز فاش کررہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ایران کے جوہری راز چوری کیے جانے اور سائبر اسپیس میں جاسوسی سے متعلق تہلکہ خیز انکشاف کے بعد ایک نیا انکشاف کیا ہے۔ان کاکہناہےکہ ایران میں جاسوسی کی روک تھام کے لیے قائم سرکاری انٹیلی جنس ادارے کا ایک سابق سینئر عہدےدار بھی اسرائیل کا جاسوس تھا۔

احمدی نژاد نے اعتراف کیا ہےکہ ایرانی انٹیلی جنس کےاداروں میں اسرائیل نے اپنے جاسوس بٹھا رکھے ہیں جو ایران کے حساس راز چوری کرکے اسرائیل کو پہنچاتے ہیں۔انہوں نے موساد کی تہران میں بڑی کاروائیاں کرنے اور حساس مراکز سے انتہائی اہم جوہری اور خلائی دستاویزات چوری کرنے میںکام یابی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ایران میں اعلی درجے کا سیکیورٹی گینگ موجودہے جسے جوہری سائنس دانوں کے قتل اور نطنز میں ہونے والے دھماکوں میں اپنے کردار کی وضاحت کرنی ہوگی۔

ایران کی وزارتِ دفاع کے ریسرچ اینڈ انوویشن آرگنائزیشن کے سربراہ محسن فخری زادہ کے بارے میں مغربی انٹیلی جنس اداروں کا خیال ہے کہ وہ ایران کے خفیہ جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کے روحِ رواں تھے اور کئی ممالک کے سفارت کار انہیں ’’ایران کے بم کا باپ‘‘ بھی کہتے تھے۔تاہم ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔

فخری زادہ ایران کے نام ور جوہری سائنس داںاور پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کے ایک سینئر افسر تھے۔مغرب کے عسکری ذرایع انہوں انتہائی بااثر اور ایران کے جوہری پروگرام کے اہم معاون سمجھتے تھے۔2015میں نیو یارک ٹائمز نے ان کا موازنہ جے رابرٹ اوپن ہائیمر سے کیا تھا۔ اوپن ہائیمر وہ ماہرِ طبیعیات تھے جنہوں نے امریکاکے مین ہیٹن پروجیکٹ کی منصوبہ بندی کی تھی جس کے ذریعے دوسری جنگِ عظیم کے دوران پہلے جوہری ہتھیار بنائے گئےتھے۔

فخری زادہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بہ حیثیت طبیعیات کے پروفیسر نہوں نے پروجیکٹ عماد کی سربراہی کی تھی۔یہ مبینہ طور پر وہی خفیہ پروگرام ہے جو 1989 میں ممکنہ طور پر جوہری بم بنانے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے مطابق یہ پروگرام 2003میں بند کر دیا گیا تھا۔ان کے قتل کے بارے میں تیس نومبر 2020 کو ایران نے کہا تھا کہ اس کے خیال میں انہیں اسرائیل اور ایک جلاوطن ایرانی گروہ نے مل کر ریموٹ کنٹرول ہتھیار کے ذریعے ہلاک کیا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ ریموٹ کنٹرول مشین گن کومصنوعی سیارے کے ذریعے کنٹرول کیا جا رہا تھا۔

محسن فخری زادہ 2012 کے بعد سے پہلے ایرانی جوہری سائنس داں تھے جن پر حملہ کیا گیا ہے۔اس سے پہلے جوہری سائنس داںمسعود علی محمدی کوبارہ جنوری 2010 کو تہران میں ایک ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا گیا تھا۔مغربی ذرائع کا کہنا ہے کہ مسعود علی محمدی نے فخری زادہ اور فریدون عباسی دوانی کے ساتھ کام کیا تھا۔اسی طرح ماجد شہریاری اُنتیس نومبر2010کو ایک کار بم دھماکے میں ہلاک اوران کی اہلیہ زخمی ہو گئی تھیں۔ اس حملے کے بارے میں ایرانی حکام کا کہنا تھا کہ یہ اس کے اٹامک پروگرام پر اسرائیلی یا امریکی اسپانسرڈ حملہ تھا۔

ایک اور ایرانی سائنس داں فریدون عباسی دوانی اور ان کی اہلیہ ٹھیک اسی روز ایک کار بم حملے میں زخمی ہو گئے تھے جس روز ماجد شہریاری بم حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔وہ امام حسین یونیورسٹی میں فزکس کے شعبے کے سربراہ اور ذاتی طور پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کے نشانے پرتھے کیوں کہ مغربی حکام کے مطابق وہ مشتبہ جوہری ہتھیاروں پر تحقیق میں ملوث تھے۔فارس نیوز ایجنسی کے مطابق عباسی دوانی کو فروری2011میں اٹامک انرجی آرگنائزیشن کا نائب صدر مقرر کیا گیا تھا،تاہم ایرنا کے مطابق انہیں اگست 2013 میں اس عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

داریوش رضائی کو 35 سال کی عمر میں 23 جولائی 2011 کو تہران میں مسلح حملہ آور نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔وہ یونیورسٹی میں لیکچرار تھے اور فزکس میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی۔ بعض ابتدائی رپورٹس کے مطابق وہ ایران کے جوہری پروگرام سے منسلک تھے۔ تاہم بعد میں نائب وزیر داخلہ سفرعلی براتلو نے کہا کہ ان کا اس پروگرام سے تعلق نہیں تھا۔

بتیس سالہ احمدی روشن نے کیمیکل انجنیئرنگ میں گریجویشن کی تھی۔ انہیں جنوری 2012 میں تہران میں بم کےحملے میں ہلاک کیا گیا تھا ۔ایران کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے مصطفیٰ احمدی روشن ایک جوہری سائنس داں تھے اورنطنزیورینیئم اینرچمنٹ فیسیلٹی میں ایک شعبےکے سپروائزرتھے۔ ایران نے اس حملے کا الزام اسرائیل اور امریکاپر لگایا تھا۔

رواں برس اپریل کے مہینے میں نطنز کی جوہری تنصیبات پرجو حملہ ہوا تھا ایران اس کا ذمے دار بھی اسرائیل کو ٹھہراتا ہے۔دوسری جانب اسرائیل کے ذرایع ابلاغ نے انٹیلی جنس کے ذرایع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھاکہ اسرائیل نے اس تنصیب پر سائبر حملہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ اس حملے سے ایک روز قبل ایرانی صدر حسن روحانی نے نطنزمیں قائم مرکزکے لیے نئے سینٹری فیوجز متعارف کرائے تھے اور اس حوالے سے ٹی وی پر خصوصی نشریات ہوئی تھیں۔گزشتہ برس جولائی کے مہینے میں تخریب کاری کی ایک کارروائی کے بعدایرانی حکام نے آگاہ کیاتھا کہ نطنز کے مرکزمیں آگ لگی تھی جس سے سینٹرل سینٹری فیوجز اسمبلی ور ک شاپ متاثر ہوئی ہے۔

اس واقعے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نتن یاہو نے کہاتھاکہ ایران، اس کی پراکسی قوتوں اور ایران کی ہتھیار جمع کرنے کی کوششوں کے خلاف یہ ایک بڑا مشن ہے۔واقعے کا حوالہ دیے بغیر اس کا کہنا تھا کہ حالات آج جیسے ہیں، ضروری نہیں کہ کل بھی ویسے ہی ہوں گے۔

صرف یہی خفیہ کارروائیاں نہیں ہیں جنہیں اسرائیلی سیکرٹ سروس’ ’موساد‘‘ سے منسوب کیا جاتاہے۔ اسرائیل کے انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز سے منسلک ریز زیمٹ کہتے ہیںکہ موساد زیادہ تر ایسی خفیہ کارروائیوں کی ذمے داری قبول نہیں کرتی کیوں کہ کوئی نہیں چاہتا کہ ایرانی کی ممکنہ جوابی کارروائیوں کو جواز ملے۔ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر موساد یا سی آئی اے یا دونوں مشترکہ طور پر یہ کرتے ہیں۔رچرڈ میہر یونیورسٹی کالج ڈبلن میں انٹرنیشنل سیکیورٹی کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نےجرنل آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز میں شایع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں ایسی کارروائیوں کی شناخت کی ہے جو کم از کم بیس برسوںسے جاری ہیں۔

صرف ایران ہی نہیں بلکہ چالیس برس پہلے عراق بھی اسرائیل کی کھلم کھلا جوہری دہشت گردی کا شکار ہواتھا جب اسرائیل نے پہلی مرتبہ ایک دوسری ریاست میں گھس کر اُس کے اوسیراق کےجوہری ری ایکٹر پر فضائی حملہ کیا اور اُسے مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا۔

یہ کارروائی آٹھ ایف 16 لڑاکا طیاروں کی مدد سےکی گئی تھی۔اگرچہ یہ حملہ سات جون1981کو ہوا تھا، لیکن اس کا اعلان آٹھ جون کو کیا گیا اور اعلان کے اگلے روز یعنی نو جون کو امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز سمیت دیگر ذرایع ابلاغ نے یہ خبر دی تھی کہ اسرائیلی طیاروں نے گزشتہ روز بغداد کے قریب جوہری ری ایکٹر پر بم باری کی اور اسے تباہ کر دیا۔

ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے کہا تھاکہ اگر وہ حملہ نہ کرتا تو عراق جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے قابل ہو جاتا۔حملے کے اگلے روز اسرائیلی وزیر اعظم مناخم بیگِن نے اس کارروائی کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم جتنے سائز کے بم کے اسرائیلی شہروں پر حملوں کو روکنے کے لیے عراق کے صدر صدام حسین پر حملہ ضروری تھا تاکہ اُس ’’برائی‘‘ کو روکا جا سکے۔

اب بھارت کی طرف آتے ہیں وہاں رواں برس چھ مئی کو ایٹم بم کی تیاری میں استعمال ہونے والے تاب کار عنصر ،یورینیم کی بھاری مقدار پکڑی گئی تھی۔ذرایع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق انسداد دہشت گردی کے اسکواڈ نے ممبی سے سات کلو گرام انتہائی تاب کار یورینیم کو قبضے میں لےکر دو افراد کو گرفتارکیا تھا۔اس کی مالیت اکیس کروڑ بھارتی روپے بتائی گئی تھی۔بھارتی میڈیا کے مطابق حکام کو اطلاع ملی تھی کہ کچھ لوگ یورینیم کی فروخت کے لیے خریدار ڈھونڈ رہے ہیں جس کے بعد ان کے لیے جال بچھایا گیا اور رنگے ہاتھوں گرفتار کرلیا گیا۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے معاملے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیاتھا۔ترجمان دفترخارجہ کا کہنا تھا کہ بڑی مقدار میں یورینیم ریاستی کنٹرول سے کیسے باہر دست یاب تھا ، اس خلا کی نشاندہی ہونی چاہیے جس کے باعث ایسا ہوا ، ایٹمی مواد کی سیکیورٹی تمام ممالک کی اولین ترجیح ہونی چاہیے ۔خیال رہے کہ بھارت میں اس قبل بھی کئی بار غیر متعلقہ افراد سے یورینیم برآمد کیا جاچکا تھا۔ بھارت میں اجتماعی و انفرادی طورپریورینیم کی چوری اور اسمگلنگ کے درجنوں واقعات ہوچکے ہیں،لیکن ان پر امریکا سمیت کئی ممالک اور جوہری دہشت گردی سے بچاؤ کے ادارے محض تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔

اس کے بعد چار جون کو بھارت میں یورینیم کی غیر قانونی فروخت کی کوشش کا ایک اور واقعہ سامنے آیا۔ بھارتی ذرایع ابلاغ کے مطابق اس وقعے میںبھارتی ریاست جھاڑکھنڈ میں پولیس نے کارروائی کرکے سات افراد کو گرفتار کیا تھا۔

ماہرین کے مطابق دہشت گردتاب کار مواد کو کسی بھی روایتی ہتھیار سے جوڑ کر دھماکاکرسکتے ہیں ، جسے ڈرٹی بم کا نام دیا گیا ہے۔ڈرٹی بم کےدھماکے کے نتیجے میں اگرچہ نقصان ایٹم بم جتنا نہیں ہوگا، تاہم بم پھٹنے کے مقام اور نزدیکی علاقوں میں تاب کاری اور طویل عرصے تک آلودگی کے امکانات ہوں گے۔