آپ کا صفحہ: سدا آباد رہے...

September 15, 2019

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

’’شکریہ ڈاکٹر صاحب!‘‘

’’سنڈے میگزین‘‘ میرے ہاتھوں میں ہے اور بھئی، کیا خوب ہے۔ ’’حج بیت اللہ‘‘ سے متعلقہ تحریر بہت ہی معلوماتی ہے۔ ڈاکٹر نور محمّد اعوان کا انٹرویو بھی معیاری اور اہمیت کا حامل ہے۔ رئوف ظفر کی کوئی بھی تحریر، انٹرویو ہو، اُن کی محنت و لیاقت واضح جھلکتی ہے اور ’’عبداللہIII‘‘ کا آغاز بھی خُوب ہی ہوا۔ پچھلے ناولز تو نہیں پڑھ سکے، پر یہ بڑے ذوق و شوق سے پڑھنا شروع کر دیا ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر غلام علی نےہیپا ٹائٹس کو قابلِ علاج مرض ثابت کیا، وگرنہ یہاں تو بخار تک کو لاعلاج ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب۔ ’’عالمی افق‘‘ اور منوّر مرزا کا تو چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مگر اس ساتھ کے طفیل بہت کچھ سیکھنے، سمجھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ درحقیقت ہماری امنگوں کا ترجمان صفحہ ہے۔ اسے میگزین کے ماتھے کا جھومر کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔(ڈاکٹر محمّد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)

ج:آپ کے ’’شکریہ ڈاکٹر صاحب‘‘ نے تو ’’شکریہ راحیل شریف‘‘ کی یاد تازہ کر دی۔

سدا آباد رہے

میگزین کا مطالعہ جاری و ساری ہے۔ ہر صفحہ، ہر تحریر معلوماتی، پُرمغز ہوتی ہے۔ تبھی تو کئی نئے قارئین بھی خطوط، ای میلز کے ذریعے مسلسل اپنی آراء اور پسندیدگی کا اظہارکررہےہیں۔ ’’عالمی افق‘‘ میں ایران، امریکا تنازعے پر منور مرزا کا تجزیہ بہت اچھا تھا۔ حضرت الیاس علیہ السلام کی حیاتِ مبارکہ کا ذکرِ خیر پڑھ کر معلومات میں سیر حاصل ہوا۔ ’’عبداللہ‘‘ تیسری بار شروع ہوگیا۔ زبردست، بےحد شکریہ۔ انٹرویو، سنڈے اسپیشل بھی معلوماتی لگے۔ اسٹائل سے ہماری کچھ خاص نہیں بنتی۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس سے خاصی رہنمائی ملی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں کھانے کی تراکیب بس ایویں ہی تھیں۔ موسم ِبرسات کی احتیاطی تدابیر اچھی لگیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات بہت ہی سبق آموز تھے۔ اور ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘، ’’نئی کتابیں‘‘ بھی اچھے سلسلے ہیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی محفل ہمیشہ کی طرح زبردست رہی۔ اللہ کرے، یہ بزم سدا شاد و آباد رہے۔ (محمد عثمان، شاہ پور چاکر)

کام یابیوں، ناکامیوں پر…

آسمان پر بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی ہے۔ گرما گرم چائے پی کر کاغذ، قلم سنبھالا ہے۔ بھئی واہ جناب! آپ نے ’’عبداللہIII‘‘ شروع کرکے تو قارئین کے دل ہی جیت لیے ہیں۔ ہاشم ندیم کو لفظوں سے کھیلنا خُوب آتا ہے۔ باقی میگزین حسب ِروایت جان دار و شان دار رہا۔ وزیرِاعظم کے دورۂ امریکا کے حوالے سے فاروق اقدس اور منور مرزا کے مضامین بہترین تھے۔ میرے خیال میں تو موجودہ حکومت کا ایک سال کچھ ایسا بُرا بھی نہیں رہا۔ ویسے اس ایک سال کی کام یابیوں، ناکامیوں پر بھی ایک رپورٹ مرتب ہونی چاہیے۔ کیا خیال ہے؟ (سمیع عادلوف، جھڈو، میرپورخاص)

ج:آپ کی سوچ جہاں سے شروع ہوتی ہے، ہمارے عمل کا وہاں سے آغاز ہوتا ہے۔ حکومت کی ایک سالہ کارکردگی پر مبنی رپورٹ یقیناً اب تک آپ نے ملاحظہ کر لی ہو گی۔

یقین ہی نہیں آرہا

اُف! اتنی بڑی بڑی غزالی آنکھیں، ’’واقعی آئینہ، آئینہ رو میں گم‘‘ ہی نظر آیا۔ اُس پر آپ کی افسانوی تحریر، بھئی سماں ہی باندھ دیا۔ اور پھر ؎ کیا شوخ ہے رنگ اس حنا کا ۔ دونوں شماروں کے سرورق سیدھے دل میں اُترگئے۔ زیارتِ حرمین شریفین کی تیاری اور حج بیت اللہ پر محمود میاں نجمی کی تحریر معلومات سے بھرپور تھی۔ ڈاکٹر نور محمّد کی سچّی، کھری باتیں بھی دل کو لگیں۔ ’’خواتین کو سائبان چاہیے‘‘ کافی معلوماتی فیچر تھا۔ ’’صف اوّل کی اداکارہ بننے کی خواہش ہے‘‘ رمشا خان سے بات چیت عُمدہ رہی۔ اُن کی اپنی ذات پر بھروسا کرنے والی بات بہت اچھی لگی ۔ ہائے ہائے ’’عبداللہIII‘‘ ہاشم ندیم کے کیا کہنے۔ تین اقساط پڑھ لیں، مگر ابھی تک یقین ہی نہیں آرہا کہ ناول شروع ہوچُکا ہے۔ لگ رہا ہے، کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ ویسے سچ کہوں تو ’’عبداللہ‘‘ نے ایک بار پھر سنڈے میگزین کو چار چاند لگا دیئے ہیں اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی کھٹی میٹھی چٹھیوں کی بھی کیا ہی بات ہے۔ (عبدالجبار رومی انصاری، بورے والا)

ج: خواب اور حقیقت کی شناخت کا ایک بہت آسان سا نسخہ پیشِ خدمت ہے۔ ’’ایک زور دار چپیڑ…‘‘ ضروری نہیں اپنے، کسی کے بھی گال پر رکھ کے دیکھ لیں، سو فی صد یقین نہ آگیا، تو کہیے گا۔

کمر کے ساتھ دل بھی

بس آج تو آپ کی یاد آئی اور آتی ہی چلی گئی۔ پتا نہیں کیوں ایسا لگ رہا ہے، اِک مدّت ہوگئی آپ کو مخاطب کیے۔ ویسےکیسی گزر رہی ہے ’’نئےپاکستان‘‘ میں؟ اِدھر تو یہ حال ہے کہ زندگی کی مصروفیات اور ذمّے داریاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ اب پتا نہیں وقت کا پہیہ کب، کہاں جاکر ٹھہرتا ہے۔ ہوش رُبا منہگائی نے تو کمر کے ساتھ ساتھ دل بھی توڑ کے رکھ دیا ہے۔ اب جائیں تو جائیں کہاں؟ بنیادی ضروریات کی تکمیل ہی اِک مسئلہ لاینحل بن گیا ہے۔ اس قدر بے رحمی سے ٹیکس لگائے جارہے ہیں۔ بندہ پوچھے، صرف ٹیکس لگانے ہی کے معاملے میں مغرب کو فالو کرنا ہے، سہولتیں تو ٹکے کی نہیں دے رہے۔ جو ٹیکس دیتے ہیں، پھر وہ سہولتیں بھی تو مانگتے ہیں۔ خیر، میگزین ماشاء اللہ کم صفحات میں بھی بھرپور معلومات فراہم کررہا ہے۔ مستقل صفحات بھی وقتاً فوقتاً دیکھنے کو مل رہے ہیں اور آپ کی بزم تو ہمیشہ کی طرح پُرمزاح، دل نشیں باتوں کے ساتھ کھٹے میٹھے چٹکلوں سے بھی خوب باغ و بہار بنی ہوئی ہے۔ جب کہ ہیلتھ اینڈ فٹنس، پیارا گھر اور ناقابل فراموش کے صفحات بھی بھرپور دل چسپی کے حامل ہیں۔ (نرجس مختار، خیرپورمیرس)

ج: آپ کو لکھنا چاہیے تھا دل کے ساتھ کمر بھی۔ کہ مُلکِ عزیز میں دل ٹوٹنا کون سی عجب بات ہے، اور آپ کے، ہمارے دِلوں کی اوقات بھی کیا ہے۔ اس نئےپاکستان اور تبدیلی سرکار نے تو عوام کا جو حال کردیا ہے، جلد ہی ایک دوسرے کے سر توڑنے کی نوبت آجائے گی۔ جس سے بات کرو، کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے، خصوصاً کراچی شہر میں گندگی، غلاظت، تعفّن، مکھیوں، مچھروں کی یلغار نے تو عمومی طور پر لوگوں کے مزاج تک پراگندہ کردیئے ہیں۔

ساڈی واری آن دیو…

تازہ شمارے کے’’قصص الانبیاء‘‘سلسلے میں حضرت الیاسؑ سےمتعلق بھرپورمعلومات سےمزیّن، محمود میاں نجمی کا مضمون بہترین تھا۔ ناول بینی کا کوئی شوق نہیں (ہاں رضیہ بٹ کے تقریباً تمام ناول بشمول انیلہ، نائلہ، صاعقہ، پیاسا، نورین وغیرہ، زمانہ ٔ طالب علمی میں ضرور پڑھے) اس لیے’’عبداللہ III‘‘ پر کوئی تبصرہ نہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی واقعی قابلِ قدر اور لائقِ تحسین کارکردگی کا مظہر ادارہ ہے۔ ڈاکٹر شکیل نے ذیابطیس سے متعلق بیش بہا معلومات بہم پہنچائیں، ویل ڈن! سینٹر اسپیریڈ پر اُف اللہ، کیا روشنی ڈالوں، تراہ کڈھ چھڈیا جے۔ ویسے دل کڈھ کے لےگئی مٹیار۔ پیاراگھر کےدونوں ہاف بروقت اور بہترین تھے۔ رباب ہاشم کی باتیں سلجھی ہوئی، ناقابلِ فراموش کی دونوں کہانیاں سبق آموز لگیں۔ پیغامات بھی پڑھے، کچھ بہترین، کچھ بہتر، کچھ ایویں ای سے۔ خطوط تمام ہی پڑھنے کے لائق تھے۔ حسن شیرازی کے خط کے جواب میں ’’اناللہ و انا علیہ راجعون‘‘ لکھا گیا، حالاں کہ یہ ’’الیہ‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ آئندہ ایسی غلطی سے اجتناب برتا جائے، تاکید ہے۔ اگلے شمارے میں نجمی میاں کے قلم کے توسّط سے حضرت دائود ؑ کا قصّہ نظرنواز ہوا۔ علامہ شجاع الدّین سے گفتگو انتہائی پُرمغز اور بھرپور تھی۔ مظفّر فاروقی کے چاند پر اوّلین قدمِ انسانی والے مضمون کی وجۂ اشاعت سمجھ نہیں آئی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ بہترین، ایس مغنی حیدر کا علامہ اقبال کی بذلہ سنجی سے متعلق مضمون شان دار تھا۔ کبھی شمارہ 30صفحات کا کڑیل، تنومند ہوتا تھا، اب تو20 صفحات کا ’’مُنحنی‘‘ سا رہ گیا اور یہ سب ’’تبدیلی‘‘ کا شاخسانہ ہے۔ ویسے مجھے تو یہ تبدیلی نہیں، بدلہ لگتا ہے۔ اعزازی چٹھی پر پھرسلیم راجہ کا راج، کاش راجہ صاحب میرے ہم شہر، ہم ذات ہونے کے ساتھ ’’ہم منصب‘‘ بھی ہوتے۔ عرض ہے، ’’راجہ جی! جان دیو، ساڈی واری وی آن دیو۔ جگ وچ ہور وی بُہتیرے کم نیں، اوہناں وَل وی دھیان دیو، آپ تُسیں’’رَجّے‘‘ بیٹھے او، ہوراں نوں وی رجان دیو، تسیں تاں آپے ہی پردھان بنے ہوئے او، کدی دوجیاں نوں وی نین پردھان دیو۔ کیہہ سمجھے!! (ڈاکٹر اطہر رانا ، طارق آباد، فیصل آباد)

ج: آپ نے تو راجہ جی کے لیے پوری نظم ہی لکھ ماری۔ چاند پر اوّلین قدم والا مضمون واقعے کے 50سال پورے ہونے کی مناسبت سے شایع کیاگیا اور رہی بات غلطی کی نشان دہی کی تو وہ پروف کی غلطی ہے، تحریر کی ہرگز نہیں۔ بہر حال ،آئندہ مزید احتیاط برتی جائےگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

ذہنی کوفت میں مبتلا

پہلی مرتبہ آپ سے مخاطب ہوں، امید ہے کہ جواب ضرور عنایت فرمائیں گی۔ رواں ہفتے کے شمارے میں محمود میاں نجمی کا مضمون، جو حضرت الیاس علیہ السلام سے متعلق تھا، کافی معلوماتی تھا۔ رعنا فاروقی کا صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ بھی کافی دل چسپ ہوتا ہے، مگر اس دفعہ اس میں جو دوسری کہانی ’’وہ اسرار نہ کُھل سکے‘‘ ادھوری شایع ہوئی، اس نے بہت بے مزہ کیا۔ براہِ مہربانی ان باتوں کا خاص خیال رکھا کریں تاکہ قارئین ذہنی کوفت میں مبتلا نہ ہوں۔ ویسے مجموعی طور پر میگزین میں اچھے اور معیاری مضامین شامل ہوتے ہیں۔ (سید عبدالقدوس، نارتھ ناظم آباد، کراچی)

ج: آپ کو کیا لگتا ہے، ہمیں یہاں قارئین کو دانستہ ذہنی کوفت میں مبتلا کرنے کے لیےتعینات کیا گیا ہے۔ ارے بھئی، سنڈے میگزین کی تاریخ میں غالباً پہلی بار ایسا ہوا اور وہ بھی صرف کراچی اسٹیشن پر۔ جوں ہی ہمیں اس تیکنیکی غلطی کا علم ہوا، فوراً سے پیش تر دیگر اسٹیشنز پر درست کروالی گئی، جب کہ کراچی اسٹیشن پر بھی اگلے ہی شمارے میں نہ صرف واقعے کابقیہ حصّہ شایع کیا گیا بلکہ قارئین سے تہہ دل سے معذرت بھی کی گئی۔

مستقل سلسلے، مستقل کردیں

اُمید ہے، اسٹاف سمیت بخیریت ہوں گی۔ سب سے پہلے نیا ناول ’’عبداللہIII‘‘ شروع کرنے کا بہت بہت شکریہ اور پھر ہمیں بھی اپنی محفل میں جگہ عنایت کرنے پر آپ کی مہربانی۔ حسبِ سابق ’’سرچشمٔہ ہدایت‘‘ بہترین رہا۔ ’’پیارا گھر‘‘ کی چٹنیوں اور حکیم راحت نسیم کی ’’گرج برس ساون گھر آئیو‘‘ نے مطالعے کا لُطف دوبالا کردیا۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کی کمی شدّت سے محسوس ہو رہی ہے۔ پلیز مستقل سلسلے تو مستقل کردیں۔ (حمیرہ، حمیرا گل، کوئٹہ)

ج:ان دنوں جن حالات میں میگزین شایع ہورہا ہے، جو، جتنا اور جیسا پڑھنے کو مل رہا ہے، اُسے غنیمت جانیے۔ اور مل بیٹھ کے ’’تبدیلی‘‘ کی سال گرہ کا جشن منایئے۔

اپ ڈیٹ اسپیشل ایڈیشن

ہر لحاظ سے آسُودہ حال رہیں کہ دُعائیں زندگی بھر پیچھا کرتی اور خود کو مختلف مراحلِ زیست پر منواتی رہتی ہیں۔ تازہ شمارے کو ’’اَپ ڈیٹ اسپیشل‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہوگا، کیوں کہ یہ سُرخ سحابی سرورق والا شمارہ تین مواقع سے ’’اَپ ڈیٹ نمبر‘‘ ہوا، پہلا ’’حج بیت اللہ‘‘ کا موقع، دوسرا ’’حالاتِ حاضرہ‘‘ کا آئینہ اور تیسرا، عالمی یوم، برائےتحفظِ جگر۔ حجِ بیت اللہ کے حوالے سے تو محمود میاں نجمی نے خُوب وضاحت فرما دی۔ دوسری ’’اپ ڈیٹ‘‘ منور مرزا کا تجزیہ تھا کہ بریگزیٹ کا بارگراں، نومنتخب وزیرِاعظم کے کاندھوں پر ہے اور تیسری اَپ ڈیٹ پروفیسر غلام علی مندرہ والا کا ’’عالمی یومِ تحفظِ جگر‘‘ کے حوالے سے ہیپاٹائٹس جیسے اہم موضوع کو مفید مضمون کی شکل میں ڈھالنا تھا۔ شادی بیاہ اور عیدِقرباں کی نسبت سے چار ماڈلز کے ہاتھوں کو، چھے سات ممالک کے منہدی ڈیزائنز سےخوب گُل وگُلنار کیا گیا اورنرجس ملک نے ’’منہدیانہ اشعار‘‘پر مبنی رائٹ اپ بھی خود لکھا تو پھر بزم کو ہزار چاند تو لگنے ہی تھے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں دس عدد بہترین تبصرے اور پانچ عدد برقی چِٹھیوں میں سے ’’اُم حبیبہ نور‘‘ کے خط نے جیسے ہی ’’دبستانِ لکھنؤ‘‘ کَھڑکایا، تو ہم نے ’’کھڑی نیاز دی!‘‘ کہ کوئی تو مونس و ہم خیال اردو داں طبقہ، میدانِ عمل میں آیا۔ بخدا مراسلہ اور جوابی مراسلہ پڑھ کر لُطف آگیا۔ ام حبیبہ! ہم تو اُس دَور کے ہیں، جب ’’کِواڑ بھیڑے جاتے‘‘ ، ’’برتن بٹورے جاتے‘‘ اور ’’سودا کَنڈیا میں آتا‘‘۔ بلکہ ہم تو اُسی اُردو کو اُردو گردانتے ہیں، کیا کریں، مجبور ہیں۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں ڈاکٹر عزیز احسن کی تحقیق اور محمود میاں نجمی کی تصنیف للچا گئی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں رضیہ جوہر نے کارآمد باتیں بتائیں، تو فرحی نعیم کی تحریر کے عنوان نے چونکادیا۔ ہاشم ندیم، اپنےمقبول ناول’’عبداللہ‘‘میں اِک دربدر، خاک بسر کی داستان ہولے ہولے بیان کررہے ہیں۔ ظاہر ہے، بہت صبر آزما داستان ہے۔ اللہ کے بندے کا ’’پیرِکامل‘‘ یا ’’مولا صفات‘‘ ہوجانا کچھ سہل عمل نہیں انوار ِروحانیت کے ہالے سے کُندن ہو کر نکلنا پڑتا ہے۔ رمشاخان کی باتیں پسند آئیں۔ منور راجپوت نے ’’خواتین ہاسٹلز‘‘ پر بہترین قلم کُشائی کی۔ سنڈے میگزین تمام تو خیر کیا ہوگا، ہفتہ بھر ہی گاہے گاہے مطالعے میں رہتا ہے، لیکن مجلسِ ادارت کی محنت و ریاضت کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ (پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی، گلبرگ ٹاؤن، کراچی)

ج:غیر ضروری طوالت کا شکار (کہ آج پھر متعدد صفحات ایڈٹ کرنا پڑے) نہ ہوتا، تو آپ کا یہ خط اس ہفتے کی چِٹھی کی مسند پر براجمان ہوسکتا تھا۔ خدارا! ٹو دی پوائنٹ بات کرنے کی عادت ڈالیں، آپ ہی کا نہیں اوروں کا بھی بہت بھلا ہوگا۔

خاموش قاری…؟

مَیں سنڈے میگزین کا ایک خاموش قاری ہوں، مگر اس کے ساتھ میرا تعلق بہت ہی پرانا ہے۔ ویسے آپ نے جس خوبی و عُمدگی سے میری ساکھ کا بھرم رکھا ہوا ہے، بس وہ آپ ہی کا طرئہ امتیاز ہے، ورنہ مَن آنم کہ مَن دانم ۔ (شری مُرلی چندجی، گوپی چند، شکارپور)

ج: ہائیں… آپ اورخاموش قاری…؟؟ ساکھ کا بھرم تو بے شک ہم نے رکھا ہوا ہے، مگر اب ہم اس ’’سفید جھوٹ‘‘ کا بھرم بھی رکھیں گے، ہم سے ہرگز یہ اُمید مت رکھیے گا۔

ایک بار پھر…؟

آپ نے اس سنڈےمیگزین میں ایک بار پھر سرورق کے پیچھے فریضہ ٔحج بیت اللہ سے متعلق مضمون چھاپ دیا۔ مَیں ہر اتوار محمود میاں نجمی کا مضمون خصوصی طور پر محفوظ کرتا ہوں۔ اب بتایئے، کیا کروں؟ (قاضی محبوب الٰہی، مصطفیٰ ٹاؤن، لاہور)

ج:بعض اوقات کچھ فیصلے انتہائی مجبوری کے عالم میں بھی کیے جاتے ہیں۔ آپ یوں کریں، ایک سادہ سفید کاغذ لیں اور ماڈل کی تصویر پر پیسٹ کردیں۔ اس طرح ایک طرف مضون ہوگا، تو دوسری جانب سادہ کاغذ، یوں آپ کو مضمون محفوظ رکھنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔

فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

ساون کے ہفتہ ٔ اوّل کا دیدہ زیب شمارہ، دل فریب سرِورق کے ساتھ پیشِ نظر و پہلو بہ جگر تھا۔ ماڈل کا کالا چشمہ، کالے پاپوش، کالی پینٹ، کالی کرسی اور اس پر مستزاد کالی زلفیں عقل سلیم پر، پردہ ڈالنے کو بضد تھیں۔ مگر جب نظر اس جلی سُرخی پہ پڑی ؎ ’’دھوپ میں استعارہ بادل کا …‘‘تو ظلمت کے بادل گویا چھٹ سے گئے۔ غم خوشی میں ڈھل گئے اور قلبِ سلیم جھوم اٹھا۔ ؎ بادل پہ چل کے آ، ساون میں ڈھل کے آ… عالمی اُفق میں منور مرزا نے لکھا ’’امریکی صدر جنگ کے حق میں نہیں‘‘ ہم بھی اس کی توثیق کرتے ہیں کہ کاروباری شخص جنگ جُو نہیں ہوتا اور آج کی تاریخ کا سبق یہی ہے کہ "Economy is weapon"۔ ’’سر چشمہ ہدایت‘‘ سےسلسلہ رشد و ہدایت جاری ہے… اِک ہم ہی نہیں معترف کہ دُنیا ساری ہے۔ ناول… آہا! واہ جی واہ! آ گیا وہ شاہ کار، جس کا انتظار تھا، جس کے لیے کیا مُنڈے کیا ناریاں، سبھی کا دل بے قرار تھا۔ مدیرہ صاحبہ! تھینکس اے لاٹ۔ ویلکم ’’عبداللہ (III)‘‘ قبل ازیں فلسفہ صحرائی پڑھ پڑھ کے ہم تو فالسہ ہوگئے تھے۔ اب ہاشم ندیم کے توسط سے کچھ رموز ِ تصوّف جان کر کوئی گیانی بن جاویں گے۔ رئوف ظفر نے علّامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے وی سی سے انٹرویو لیا اور آپ نے جو سُرخی جمائی ’’سند کسی سے کم نہیں۔‘‘ جناب تُسیں حق آکھیا، برحق آگیا کہ راقم بھی اس یونی ورسٹی سے سند یافتہ (بی اے، بی ایڈ، ایم ایڈ) ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈفٹنس‘‘ کے سلسلے میں قارئین کے لیےجو صحت افزاو ضامنِ تن درستی مضامین چھاپے جاتے ہیں، وہ دل ناداں و جانِ ناتواں کے لیے بادِ نسیم و شمیم کے صحت بخش جھونکوں کی مانند ہیں۔ ورق گردانی کرتے کرتے صفحات ِ بے نامی (اسٹائل) کی سرحد پر پہنچے تو فوراً ڈبل کلک کر دیا۔ کہ عقل سلیم نے ہمیں مدّت سے مَت دے دی ہے ’’نیک نامی اور بد نامی میں فرق بس اِک حرفی ہی ہے۔‘‘ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں فن کارہ رباب ہاشم نے انٹرویو ٹیکر کے منہ پہ یہ اَن کہی، کہی ’’شادی کی کوئی جلدی نہیں‘‘ تو بھئی، پنڈی بوائے اور سلو بھائی کے علاوہ اور کس کو شادی کی جلدی ہے؟ فی زمانۂ ناساز میں جو سونا 89ہزار فی تولہ، ڈالر 160روپے اور چینی (شیریں ترین) 80روپے فی کلو ہے، تو مِٹّھے چول کیسے پکیں گے، کیسے بجے گا بینڈ باجا، کہاں سے آئیں گے باراتی؟ اور ہاں، ہمارے سندیسے سنبھال رکھنے کا مدیرہ صاحبہ کا جو وعدہ ہے، وہ اس بار بھی ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ کے صفحے پر ایفا دیکھا۔ جذباتِ تشکّر لیے کُوچۂ ٔسُخن ’’آپ کا صفحہ‘‘ پہنچے، جہاں برقی، برادر چھکّن اور پروفیسر حمیدی جیسے نامور اُمرا ’’کورٹ آف دی کوئین‘‘ میں تشریف فرما تھے، تو مسندِ اعزازی پہ نادیہ ناز غوری براجمان۔ مبارک ہو! اور ہاں مبارک پہ یاد آیا۔ 15ستمبر بندے کا برتھ ڈے ہے اور وہ بھی خاص الخاص یعنی گولڈن جوبلی (50واں) تو چلو پھر ہو جائے ؎ جنگل میں منگل تیرے ہی دَم سے… سب نے یہ شور مچایا ہے۔…سال گرہ کا دن آیا ہے۔ (محمد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج: ویسے تو آپ وقتاً فوقتاً کرسی ٔ صدارت پر فائز ہوتے رہتے ہیں، لیکن آج خصوصی طور پر ہماری طرف سے یہ مسند بطور ’’برتھ ڈے پریذنٹ‘‘ قبول کیجیے۔

گوشہ برقی خُطوط

ج: جی، بات تو کئی موضوعات پر ہو سکتی تھی، لیکن چوں کہ اُن کاانٹرویو خاصا طویل ہوگیا تھا، تو کئی موضوعات پر دانستہ بھی گفتگو سے پرہیز کیا گیا۔

ج: یہ جو اتنے بہت سے لوگوں کا ہم نے دل چُھولیا، جیت لیا ہے، تو ہم تو بیٹھے بٹھائے ’’ہارٹ اسپیشلسٹ‘‘ بن گئے بھئی۔ ناول آپ کو پسند آرہا ہے یہ اچھی بات ہے۔ تعریف و توصیف ہاشم ندیم تک بھی پہنچ گئی ہے۔

ج:یہ غیر جانب دارانہ پالیسیز کون سی ہوتی ہیں۔ ہمیں تو ایک طویل عرصہ ہوگیا اس اخبار سے وابستہ ہوئے، ہم پر تو آج تک یہ راز نہ کُھلا اور نہ ہی ہمیں ایسی کسی پالیسی پر عمل درآمد کے آرڈرز ملے ہیں۔

قارئینِ کرام!

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazinejanggroup.com.pk