وہ بابو جی کا فیصلہ تھا یا....؟

September 15, 2019

یہ واقعہ میری ایک بہت عزیز سہیلی کی بیٹی صوفیہ کے ساتھ پیش آیا۔صوفیہ صابر و شاکر طبیعت کی ایک خوش شکل لڑکی تھی۔ گریجویشن کے بعد فوراً اس کا رشتہ آگیا۔ وہ کاروباری کھاتے پیتے لوگ تھے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم تھا، تین لڑکوں کی شادیاں ہوچُکی تھیں اور چھوٹے لڑکے عمران کے لیے لڑکی کی تلاش جاری تھی۔ صوفیہ کو انہوں نے اُس کی سہیلی کے ولیمے میں دیکھاتھا۔ صوفیہ کا اَتا پتا معلوم کر کے وہ عمران کا رشتہ لے کر آگئے۔ ان کے ساتھ عمران کے والد بھی تھے۔ عمران اور اس کے والد دونوں اچھی شخصیات کے مالک تھے، جب کہ والدہ معمولی شکل و صورت کی تھیں، مگر کم گوئی کی وجہ سے بردبار لگتی تھیں۔ انہوں نے اپنے کاروبار اور بچّوں کے بارے میں تفصیل سے سب کچھ بتا کر صوفیہ کے گھر والوں کو اچھی طرح چھان بین کے لیے کہا۔ جب اُن سے متعلق پوچھ گچھ کی گئی، تو پتا چلا کہ وہ محلّے میں کسی سے میل جول نہیں رکھتے۔تینوں بہوئیں مل جُل کر رہتی ہیں، باپ کا گھر میں بہت رُعب و دبدبہ ہے، لڑکے باپ کے آگے بولنے کی ہمّت نہیں رکھتے۔ کاروبار اچھاہے اور گھر میں ہر اعتبار سے خوش حالی ہے۔چوں کہ گھر میں باپ کا حکم چلنا، ہمارے گھرانوں میں اچھی بات سمجھی جاتی ہے، لہٰذا اس بات کو نظرانداز کر کے رشتہ قبول کر لیا گیا۔ عمران پڑھا لکھا تھا اور کسی فرم میں ملازمت کرتا تھا۔ وہاں سے اس کے چال چلن کی اچھی رپورٹ ملنے پر صوفیہ کی بات طے ہونے میں دیر نہیں لگی۔ دُھوم دھام سے صوفیہ کی رُخصتی کر دی گئی، مگر شادی کے ایک ہفتے بعد جب صوفیہ کے گھر والے اُسے لینے گئے تو انہوں نے رُکھائی کا برتائو کرتے ہوئے جتادیا کہ انہیں نہ توبہوؤں کا زیادہ میکے آنا جانا پسندہے، نہ ہی میکے والوں کی آمدورفت۔ یہ بات اگر ساس کہتی تو اسے روایتی سلوک سمجھا جاتا، لیکن بات عمران کے والد نے سب کے سامنے کہی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے تینوں شادی شدہ بیٹے اسی وجہ سے کام یاب ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں ۔کچھ ہی عرصے میں صوفیہ کو پتا چل گیا کہ شوہر نامدار تو باپ کی اجازت کے بغیر پتّا تک نہیں توڑسکتے۔

سُسر کا نام جلال الدّین تھا اور نام ہی کی نسبت سےوہ اپنے گھر میں جلال الدّین بادشاہ بنےرہتے ۔ گھر کی خواتین حتیٰ کہ بیوی سے بھی زیادہ بات نہیں کرتے تھے، صرف بیٹوں کو احکامات صادر کرکے ان پر سختی سے عمل درآمد کرواتے۔ کھانا ان کے بتائے ہوئے مینیو پر مقررہ وقت پہ پکتا اور جب تک سُسر دسترخوان سے نہیں اُٹھتے، کسی بچّے کی مجال نہیں تھی کہ وہ ان سے پہلے اُٹھ جائے۔صوفیہ کو آہستہ آہستہ اس قیدخانے میں رہنے کی عادت ہوگئی۔ اس نے اپنے گھر والوں سے رابطے کے لیے شوہر سے اجازت مانگی، مگر اس کا جواب یہی تھا کہ ’’یہ گھر بابو جی کا ہے۔ ہمیں اس گھر میں رہنا ہے تو ان کا ہر حکم ماننا ہوگا۔ ہم بھائیوں میں سے کوئی ان کے احکامات سے انکار کی ہمّت نہیں کرسکتا۔ بھائیوں کی بیویوں نے بھی بہت ہاتھ پائوں مارے، لیکن بالآخر ہتھیار ڈال دیے۔ تم بھی ان کی طرح اپنے گھر والوں کو جلد بھول جائو گی۔‘‘اس جواب نے صوفیہ کو خاصا مایوس کیا، مگر وہ خاموش رہی۔ شادی کے ایک سال بعد صوفیہ کو اللہ نے بیٹے سے نوازا۔ والدین اس کے بچّے کو دیکھنے اسپتال آئے، تو جلال الدّین وہاں بھی ناگ بنابیٹھارہا۔اس کے باوجود صوفیہ کے گھر والوں نے ساتھ لے جانے کی بات کی تو جواب ملا کہ’’آپ لوگوں کو بیٹی سے اتنا پیار ہے تو اسے گھر لے جائیں اور جب تک چاہیں، پاس رکھیں، مگر ہمارا پوتا کہیں نہیں جائے گا۔‘‘ اس جواب کے بعد کچھ کہنے کی گنجایش ہی نہیں رہی تھی۔ صوفیہ کو اسپتال سے سُسرال آنا پڑا اور پھر وہ بچّے میں اتنی مگن ہوگئی کہ کسی سے کوئی شکایت کرتی اور نہ فرمائش۔ یوں چار سال گزر گئے۔ اس کی ازدواجی زندگی معمولات کے دائرے میں چل رہی تھی کہ قدرت نے اس کے لیے ایک آزمائشی پرچہ اور بھیج دیا۔ہوا یوں کہ جلال الدّین اپنے مال کی خریداری کے لیے لاہور جا رہا تھاکہ رحیم یار خان کے قریب اس کی گاڑی کو حادثہ پیش آگیا۔ اُسے بروقت اسپتال پہنچا کر بیٹوں کو مطلّع کردیا گیا۔ وہاں سے اُس کے بیٹے، موصوف کو کراچی لے آئے اور ہڈیوں کے مقامی اسپتال میں داخل کروادیا، جہاں اس کی متاثرہ ٹانگ کا آپریشن ہوا، لیکن ٹانگ پوری طرح جُڑ نہ پائی اور اسپتال والوں نے چھے مہینے بعد دوبارہ آپریشن کی ہدایت دے کر گھر بھیج دیا۔ اس سارے عرصے میں جلال الدّین کا غصّہ اور چڑچڑاپن گھر کے سارے افراد کے لیے مصیبت بن گیا۔ اسپتال کا عملہ بھی ان کی تنک مزاجی اور حجّت بازیوں سے عاجز آ چُکا تھا، البتہ ایک عاصمہ نامی نرس ان کو خدا جانے کیسے ہینڈل کرلیا کرتی۔ جب انہیں اسپتال سے ڈسچارج کیا گیا، تو انہوں نے اپنے طور پر ایک قدم عاصمہ کی رضامندی سے یہ اُٹھایا کہ اسے چار ماہ کی چُھٹی دلوا کر اپنی نرسنگ کے لیے رکھ لیا۔ اُسے اس کی تن خواہ سے دُگنا معاوضہ مل رہا تھا،وہ کیوں نہ راضی ہوتی۔

عاصمہ صُبح سویرے نرسں کا سفید لباس پہن کر جلال الدّین کی وسیع و عریض کوٹھی میں داخل ہوتی، مگر وہاں آکر لباس تبدیل کر کے گھریلو کپڑوں میں جلال الدّین کی خدمت گزاری میں لگ جاتی۔ گھر والے بھی خوش تھے کہ اب جلال الدّین کا درشت رویّہ برداشت نہیں کرنا پڑے گا۔جلال الدّین اسپتال سے گھر تک، باہر کے تمام تر امور کی دیکھ بھال اپنے بیٹوں سے کروا رہا تھا، جب کہ عمران کو زیادہ تر اپنے ساتھ ہی رکھتا۔ا ب اس گھر کا نقشہ کچھ یوں تھا کہ عاصمہ رات ساڑھے گیارہ بجے تک جلال الدّین کے نازنخرے اُٹھانے کے لیے وہاں رہتی۔ درمیان میں اگر عاصمہ کو آرام کرنا ہوتا، تو اس کے لیےاُسے عمران کا کمرا استعمال کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ یوں وہ اپنا کام نمٹا کرعمران کا کمرا استعمال کرنے لگی۔ دوپہر کے وقت جب جلال الدّین کے آرام کا وقت ہوتا ،تو عاصمہ آرام سے پیر پھیلا کر صوفیہ کے بیڈ پر سو جاتی اور صوفیہ کو مجبوراً بچّے سمیت اپنی ساس کے کمرے میں پناہ لینی پڑتی۔صوفیہ نے شوہر سے احتجاج کیا، تو وہاں سے یہ جواب ملا کہ ’’بابو جی کا گھر ہے، وہ جسے، جہاں چاہیں رکھیں۔‘‘صوفیہ نے بھی ہتھیار ڈال دیئے۔ اس کی الماری میں عاصمہ نے اپنے کپڑے رکھنے شروع کردیئے۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا، مگر جب جلال الدّین نے عمران کی یہ ڈیوٹی لگائی کہ وہ رات کو عاصمہ کو گھر بھی چھوڑ کر آیا کرے، تو صوفیہ کے صبر کا دامن ہاتھ سے چُھوٹنے لگا۔ عمران رات کو کھانے کے بعد کچھ وقت بچّے اور صوفیہ کے ساتھ گزارتا اور پھر اپنے والد کی خدمت میں حاضری دیتا اور جب وہ اجازت دیتے تو وہ عاصمہ کو اس کے گھر چھوڑنے چلا جاتا۔عمران کے اسکوٹر اسٹارٹ کرنے کی آواز کبھی گیارہ اور کبھی بارہ بجے آتی، تو صوفیہ کو خبر ہو جاتی کہ شوہر صاحب عاصمہ کواس کے گھر چھوڑنے جا رہے ہیں، واپسی کبھی دو بجے ہوتی اور کبھی تین بجے۔ ان کے بقول راستہ لمبا تھا، آتے جاتے دیر ہو جاتی ہے۔ صوفیہ اُس وقت تک انگاروں پر لوٹتی تھی۔ اس نے ساس سے کہا کہ وہ جلال الدّین کو سمجھائیں،توساس کا جواب تھا، ’’بیٹا !میں اس شخص کے ہاتھوں بہت کچھ سہہ چُکی ہوں۔ ان کے کسی معاملے میں دخل دے کر اپنی بے عزّتی کروانا نہیں چاہتی۔ ویسے بھی نرس کی چُھٹیاں ختم ہونے والی ہیں۔ یہ وہیل چیئر پر آ گئے ہیں، تو شاید یہ سلسلہ خودبخود رُک جائے، جہاں اتنا صبر کیا ہے کچھ ہفتے اور کر لو۔‘‘

مگر…یہ صبر طویل ہوتا گیا اور عاصمہ کی بے تکلفی بڑھتی ہی چلی گئی کہ جلال الدّین نے اسے اسپتال کی نوکری چھڑوا کر اپنی دیکھ بھال ہی کے لیے رکھ لیا۔ یہ دھماکے دار خبر سب کے اعصاب پر بجلی بن کر گری۔ جلال الدّین نے اپنے کمرے میں سب کو بلوا کر اپنی ٹانگوں کی کم زوری اور معذوری کا تفصیلی بیان سُناتے ہوئے کہا،’’ڈاکٹر کہتے ہیں کہ آپریشن کے بعد مَیں مستقل طور پر معذور بھی ہوسکتا ہوں، عاصمہ اچھی نرس ہے۔ میری بہتر دیکھ بھال کر سکتی ہے، لہٰذا اب یہ سال بَھر یہیں رہے گی۔ آپ لوگوں میں سے جس کسی کو اعتراض ہے، وہ اپنے علیحٰدہ رہنے کا بندوبست کر سکتا ہے۔‘‘صوفیہ نے ہمّت کر کے کہہ دیا کہ،’’بابوجی! اس کی رہایش کا کہیں اور بندوبست کردیں،کیوں کہ میرے اور بچّے کے ساتھ یہ ایک کمرے میں کیسے رہ سکتی ہے؟‘‘جواب ملا، ’’دِن ہی کی تو بات ہے، رات کو وہ اپنے گھر چلی جاتی ہے۔ اگر تم ڈسٹرب ہوتی ہو، تو اپنے والدین کے گھر چلی جاؤ، جب میں چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تو خود تمہیں لینے آ جائوں گا۔ ہاں، عمران کو مَیں نہیں بھیج سکتا۔ وہ میرے اندر باہر کے سب کام سنبھالے ہوئے ہے ۔وہ میرے ساتھ ہی رہے گا۔‘‘ ان کی آواز میں شدید غصّہ اور دھمکی تھی۔ صوفیہ نے اپنی مدد کے لیے اپنے شوہر کی طرف دیکھا، تو اس نے نظریں چُراتے ہوئے کہا، ’’بابوجی درست کہہ رہے ہیں، مَیں سارا دِن آفس میں گزارتا ہوں، اس دوران عاصمہ اگر میرے کمرے میں رہے گی، توکون سی قیات آجائے گی۔ بابوجی ٹھیک ہو جائیں، تو سارے مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے۔ اگر تم یہ وقت میکے میں گزارنا چاہتی ہو، تو میری طرف سے خوشی خوشی اجازت ہے۔ یہ عرصہ تم وہاں گزار سکتی ہو۔‘‘صوفیہ نے مدد کے لیے ساس اور گھر کے دیگر افراد کی طرف دیکھا، لیکن سب نے نگاہیں چُرالیں۔ اس کے دل پر گہرا زخم لگا، کیوں کہ وہ سب کے دُکھ درد میں شامل ہوتی تھی، مگر وہاں کوئی ایک لفظ اس کے حق میں بولنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس نے کہا، ’’مجھے اپنے والد صاحب سے بات کرنے دیں، پھر آپ کو جواب دوں گی۔‘‘ جواب ملا،’’ فیصلہ ابھی اور کسی سے مشورے کے بغیر ہوگا، ہوسکتا ہے کہ آپریشن کے بعد کئی روز تک عاصمہ اپنے گھر نہ جائے۔ اسے تمہارے ہی کمرے میں رہنا پڑجائے تو مَیں یہ معاملہ ابھی نمٹا کر سُکون سے آپریشن کے لیے جانا چاہتا ہوں۔‘‘ صوفیہ یہ سُن کر غصّے میں اپنے کمرے میں چلی گئی اور ضروری سامان کی پیکنگ کرنے لگی۔ اس کا خیال تھا کہ شوہر اُسے سمجھانے آئے گا اور اس مسئلے کا کوئی حل نکال لے گا۔ کچھ دیر بعد عمران آیا، اسے سامان سوٹ کیس میں رکھتے دیکھ کر کہنے لگا، ’’تم نے یہ اچھا فیصلہ کیا ہے۔ مَیں خود اس صورتِ حال سے پریشان ہوں۔ اس دوران مَیں اپنے لیے کوئی کرائے کا گھر ڈھونڈتا ہوں، مجھے تو بابو جی کے تیور اچھے نظر نہیں آ رہے، کہیں وہ اس سے بیاہ رچا کر ہم سب ہی کو گھر سے بے دخل نہ کر دیں۔ ہمیں اس سے پہلے اپنا الگ بندوبست کرنا ہوگا۔ مَیں صُبح دفتر جاتے ہوئے تمہیں تمہارے میکے ڈراپ کر دوں گا، انہیں بھی سمجھا دوں گا کہ چند ماہ کی بات ہے ان شاء اللہ میں یہ معاملہ بہتر انداز میں نمٹا لوں گا۔‘‘

عمران نے اُسے اس کے والدین کے گھر چھوڑتے وقت اس کے والدین سے معافی مانگی کہ اپنے باپ کی تابع داری میں وہ بیوی کو اُس کے پورے حقوق نہ دے پایا، مگر وہ جلد ازالہ کر دے گا۔گھر والے اتنے طویل عرصے بعد بیٹی کو اپنے درمیان پا کر خوشی سے نہال ہورہے تھے۔ انہوں نے عمران کی بہت آئو بھگت کی اور اسی طرح بہت سے وعدے کر کے وہ چلا گیا۔ جب دو ہفتے بیت گئے، اس کا کوئی فون وغیرہ نہ آیا تو صوفیہ کے بھائی نے اُس کے دفتر فون کیا۔ پتا چلا، اس کے والد کا آپریشن ہے اور وہ دوماہ کی چُھٹی پر ہے۔ صوفیہ نے بھائی کو منع کر دیا کہ ابھی اُس سے رابطہ نہ کرے، کہیں بات بگڑ نہ جائے۔ عمران کوا پنے طور پر حالات ہینڈل کرنے دیں، ورنہ وہ ڈسٹرب ہو جائے گا۔

دو ماہ بعد عمران کا فون آیا۔ عمران نے خیریت پوچھنے کے بعد جو بات بتائی، اس نے تو صوفیہ کے ہوش اُڑا دیئے۔ عمران نے بتایا،’’بابوجی کا آپریشن ٹھیک نہیں ہوا اور اب اپنی خدمت کے لیے وہ عاصمہ کوہمیشہ کے لیے اس گھر میں رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اسے گھر کی بہو بنانے کا ارادہ کر چُکے ہیں اور قرعۂ فال میرے نام نکلا ہے، اس صُورت میں وہ تیسری منزل پر ایک دو کمرے بنوا کر ہمیں الگ کردیں گے۔ ان کی دوسری بہو عاصمہ تمہارے کمرے میں رہے گی۔ عاصمہ کے والدین نے یہ شرائط قبول کرلی ہیں۔ تمہاری اجازت ہو تو مَیں تمہیں بھی شادی میں مدعو کرلوں گا، ورنہ شادی کے ایک ماہ بعد مَیں اوپر والا حصّہ تعمیر کروا کر تمہیں لینے آجائوں گا۔ یہ سارے معاملات بابوجی نے اپنی مرضی سے طے کرکے شادی کی تاریخ مقرر کر دی ہے اور مَیں اس معاملے میں بےبس ہوں،تم میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو تو ابھی بتادو۔مَیں آج سے تعمیر کا کام شروع کروا دوں گا۔ شادی ڈیڑھ ماہ بعد ہے۔‘‘صوفیہ پر یہ خبر بجلی بن کر گری۔ اس کے بھائی نے خبر کی تصدیق کروائی،جو سچ تھی۔ تب ہی صوفیہ اور اس کے گھر والوں نے ان فراڈیوں اور سنگ دِلوں سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ کر کے عمران کو آگاہ کر دیا ۔ اس نے بڑی خوشی سے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے بے حد دُھوم دھام سے عاصمہ سے دوسری شادی رچالی۔ ان کے بابوجی بھی خوش تھے اور سارا گھر بھی اس خوشی میں نہال دکھائی دے رہا تھا۔ یہ بات ہمارے ایک جاننے والے نے بتائی جو اس شادی میں شریک تھا۔

اس واقعے کو طویل عرصہ بیت گیا، اب تو وہ دو یا شاید تین بچّوں کا باپ بھی ہے، جو تقریباً جوانی کی دہلیز پر ہیں۔ صوفیہ نے ملازمت کرکے اپنا وقت کاٹا اور بچّے کو بھی بہت اچھی تعلیم و تربیت دی۔ والدین اور اس کے بھائی بھی اس کا خاص خیال رکھتے ہیں، مگر اس واقعے کی سنگینی اور صدمہ آج بھی اس کے دِل سے کم نہیں ہوا۔

(مسز احمد، کراچی)

آپ ہی سے کچھ کہنا ہے
رعنا فاروقی

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے جوکسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہے تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور وآگہی میں اضافے کے ساتھ ان کے لیے زندگی کاسفر آسان کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے، نیز ،اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت پڑے تو آسانی ہوسکے۔ ہمیں اپنی کہانیاں اور آراء اس پتے پر بھیجیں ۔

انچارج صفحہ، ناقابلِ فراموش، جنگ سنڈے میگزین،روزنامہ جنگ، اخبار منزل ،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی