الزائمر.... شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے

September 15, 2019

دُنیا بَھر میں ہر سال بین الاقوامی تنظیم، ’’الزائمرڈیزیز انٹرنیشنل‘‘ کے زیرِاہتمام 21ستمبر کو ’’الزائمر کا عالمی یوم‘‘منایا جاتا ہے، جس کا مقصد اس عارضے سے متعلق معلومات عام کرنا ہیں۔ امسال جس تھیم کا انتخاب کیا گیا ، وہ ہے "Raising Awareness and challenging stigma" ۔اس مرض کی تشخیص سب سے پہلے1960ء میں ایک جرمن ماہرِ اعصابیات، ڈاکٹر الوئیس الزائمر نے کی،تو مرض کا نام بھی اُن ہی سے موسوم کردیا گیا۔یہ ایک عام بیماری ہے، جو عموماً 65 برس سے زائد عُمر کے افراد میں پائی جاتی ہے۔اس عارضے میں دماغ رفتہ رفتہ مضمحل ہوتا چلا جاتا ہے، حتیٰ کہ مریض کی یادداشت متاثر ہو جاتی ہے۔پاکستان میں60سال سے زائد عُمر کے10فی صد افراد الزئمر کا شکار ہیں۔

انسانی زندگی مختلف اَدوار پر مشتمل ہے۔ پیدایش کے بعد جوانی اور بڑھاپا فطری مراحل ہیں اور یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ بڑھاپا انسان میں ضعف، کم زوری، بیماری اور محتاجی لاتا ہے۔ بڑھاپے کے امراض ہی میں سے ایک مرض الزائمر بھی ہے،جودراصل دماغ کے اُس حصّے کو متاثر کرتاہے، جس کا تعلق یادداشت اور زبان کے استعمال سے ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرفِ عام میں اس مرض کو یادداشت کی کم زوری بھی کہا جاتا ہے۔ہمارے معاشرے میں چوں کہ عام طور پر حافظے یعنی یاداشت کی کم زوری کو بڑھاپے کی علامت سمجھا جاتا ہے،تو زیادہ تر افراد اسے عُمر کا تقاضا سمجھ کر علامات پر توّجہ نہیں دیتے، حالاں کہ طبّی تحقیق سے ثابت ہوچُکا ہے کہ یہ ایک باقاعدہ مرض ہے،جس میں دماغ کے خلیے عام صحت مند افراد کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتے ہیں،نتیجتاًمریض رفتہ رفتہ اپنی ذہنی صلاحیتوں سے محروم ہوکر جلد یا بدیر موت کا شکار بھی ہوسکتا ہے، لہٰذا 60سال سے زائد عُمر کے افراداگر غیر معمولی افعال یا کیفیات کا مظاہرہ کریں، جو پہلے اُن کی شخصیت کا حصّہ نہ ہوں، جیسےمعمولاتِ زندگی، مزاج اور رویّے میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں رونما ہونا، چند گھنٹوں یا منٹوں پہلے انجام دیا کام یااپنے قریبی رشتے داروں کے نام بھول جانا، اُنہیں پہچاننے میں دقّت پیش آنا وغیرہ، تو ان علامات کو نظر انداز کرنے کی بجائے فوری معالج سے رجوع کیا جائے۔

الزائمر جو ڈیمینشیا (نسیان) ہی کی ایک قسم ہے، دُنیا بَھرمیں ایک بڑھتا ہوا عارضہ ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دُنیا میں یادداشت میں کمی (ڈیمینشیا/الزائمر) کے مریضوں کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ ہے اور خدشہ ہے کہ 2050ء تک اس تعداد میں تین گنا اضافہ ہوجائے گا۔ پاکستان میں الزائمر کے پھیلاؤ کی شرح کیا ہے؟اس حوالے سے باقاعدہ طور پر کوئی ایسا سروے نہیں کیا گیا، جو مریضوں کی درست تعداد ظاہر کرسکے، تاہم فی الوقت جو اعداد وشمار دستیاب ہیں، اُن کے مطابق تقریباً پانچ سے سات لاکھ افرادالزائمر کا شکار ہیں۔ اورآبادی کے اعتبار سے مریضوں کی یہ تعداد زیادہ ہی ہے۔الزائمر کی ابتدائی علامات میں شخصیت میں تبدیلی، یادداشت میں کمی،سونے میں دشواری،ڈیپریشن، اینزائٹی،مزاج کا چڑچڑاپن،گفتگو میں دشواری ، موزوں الفاظ کے انتظار میں سوچنا، ماحول سے بے زاری یا لاتعلقی، ماضی کے واقعات یاد رہنا، لیکن تازہ ترین بھول جانااور روزمرّہ امور انجام دینے میں مشکلات پیش آنا وغیرہ شامل ہیں۔ جب علامات کی شدّت میں اضافہ ہوتا ہے، تومریض اپنی صفائی ستھرائی سے غفلت برتے ہیں،انہیںیہ تک یاد نہیں رہتا کہ انہوں نےکب کھانا کھایا یا پانی پیا۔ اپنے بچّوں اور قریبی عزیزواقارب کے نام اور چہرے یاد نہیں رہتے،اکثر چلتے چلتےراستہ بھول جاتے ہیں، حتیٰ کہ گھر کا پتا تک یاد نہیں رہتا۔ گویا اُن کی کیفیت ایک چھوٹے بچّے کی سی ہو جاتی ہے، جسے کسی بات کا علم نہیں ہوتا۔ یقیناً ایسے مریضوں کی نگہداشت،دیکھ بھال اہلِ خانہ اور قریبی رشتے داروں کے لیے ایک بہت بڑی ذمّے داری ہے۔

بدقسمتی سے مرض لاحق ہونے کی تاحال کوئی حتمی وجوہ دریافت نہیں ہوسکیں، لیکن ماہرینِ دماغ و ذہنی امراض(نیورولوجسٹس)کےمطابق وٹامن بی 12کی کمی، ذیابطیس، فالج، نیند اور صحت مندانہ سرگرمیوں کی کمی کی وجہ سے یہ بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔علاوہ ازیں، وہ افراد، جو بچپن میں سَر یا دماغ کی چوٹ سے متاثر ہوئے ہوں،ان میں بھی اس عارضے کاشکار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔نیز، نوجوانوں میں بعض عادات مثلاً دیر سے سونا، جاگنا، متوازن غذا کا استعمال نہ کرنا اور جسمانی و ذہنی سرگرمیوں سے اجتناب بھی یادداشت کی کم زوری کی وجہ بن سکتی ہے۔ واضح رہے کہ بے خوابی کی شکایت، صُبح نیند سے بیدار ہوتے ہی سَردرد، دِن بَھر بوجھل رہنا، سوتے میں سانس پُھولنا، خرّاٹے لینا بھی حافظے کی کم زوری کی واضح علامات اور وجوہ ہوسکتی ہیں۔نیز، جو افراد نیند آور، اینٹی ڈیپریسنٹ اور سردرد کی ادویہ کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، تو انہیں بھی بھولنے کی شکایت لاحق ہوسکتی ہے۔ مشاہدے میں ہے کہ مستقل افسردگی و مایوسی، تنہائی اور ذہنی تناؤ کے شکار افراد کی قوّتِ یادداشت جلد متاثر ہوجاتی ہے۔اسی طرح بعض کیسز میں بُلند فشارِخون بھی وجہ بن سکتا ہے کہ مستقل خون کادباؤ بڑھے رہنے کے باعث دماغ کی رگوں میں خون جم جاتا ہے، جس کے باعث دماغ اپنے افعال درست طور پر انجام نہیں دے پاتا،نتیجتاً یادداشت کم زور ہوجاتی ہے۔ چوں کہ مرض کی علامات تیزی سے بڑھتی چلی جاتی ہیں،تو ابتدا ہی میں اس کی تشخیص بہت ضروری ہے۔ یہ مرض لاعلاج ضرور ہے، لیکن بروقت تشخیص اس کی پیچیدگیوں اوربڑھنے کی رفتار کو کم کرسکتی ہے۔ عام طور پر مرض کی تشخیص کے لیے مریض یا رشتے داروں سےضروری معلومات اور میڈیکل ہسٹری لی جاتی ہے، جب کہ چند ٹیسٹ بھی تجویز کیے جاتے ہیں۔رہی بات علاج کی تو ہمارے مُلک میں ایسی مؤثر ادویہ دستیاب ہیں، جن کا استعمال مریضوں کے لیے روزمرّہ زندگی کے معاملات آسان بنا دیتا ہے۔ تاہم، ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر کوئی دوا ہرگز استعمال نہ کی جائے۔ نیز، اس ضمن میں سماجی سرگرمیاں بھی مریض کی ذہنی صحت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں، جنہیں اپناکر وہ بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔علاوہ ازیں،الزائمر سے متاثرہ مریضوں کو درپیش نفسیاتی مسائل کا علاج ضرور کروایا جائے کہ اس کی بدولت بھی انہیں کارآمد زندگی گزارنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔اس وقت ڈیپریشن کا مرض بڑھتی ہوئی عُمر کے افراد میں سب سے بڑی نفسیاتی بیماری کے طور پرسامنے آیا ہے، جو آگے چل کر الزائمر کی وجہ بن جاتاہے، لہٰذا بہتر تو یہی ہے کہ اس مرض کا بھی جدید ادویہ اور ماحول کی تبدیلی کے ذریعے علاج کروالیا جائے،تاکہ متاثرہ افراد کو اہلِ خانہ اور معاشرے پر بوجھ بننے سے بچایا جا سکے۔نیز، مریضوں کو صُبح کے اوقات میں تازہ ہوا اور بدلتے موسموں سے لطف اندوز ہونے کے مواقع فراہم کرکے بھی ان کی ذہنی حالت میں سدھار لایاجاسکتاہے۔ یاد رکھیے،جو افراد زیادہ سوچ بچار، دماغ کا زیادہ استعمال کرتے ہیں اور باقاعدہ ورزش کو معمولات میں شامل رکھتے ہیں، ان میں اس بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر پائے جاتے ہیں۔علاوہ ازیں،مرض سے محفوظ رہنے کے لیے متوازن غذا استعمال کی جائے۔ اگر وزن زائد ہو ،تو معالج کی ہدایت پر اس میں کمی لائیں، فاسٹ فوڈز کی بجائےسبزیوں اور سلاد کا استعمال بڑھائیں۔ تمباکونوشی اور دیگر نشہ آور اشیاء سے اجتناب برتیں، دماغی نشوونما کے لیے معیاری کتب کا معالعہ کریں۔ اِن ڈور گیمز جیسے ڈرافٹ، کیرم بورڈ، ٹیبل ٹینس وغیرہ کھیلے جائیں اور ایسی سرگرمیاں اپنائی جائیں، جن سے دماغ متحرک رہے۔البتہ ویڈیوگیمز وغیرہ نہ کھیلیں کہ یہ دماغی کارکردگی متاثر کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

ہمارے یہاں زیادہ تر افراد درمیانے یا نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ عمومی طور پر ان سب کی طبّی سہولتوں تک آسان اور بروقت رسائی ممکن نہیں ہوپاتی، اس لیے علاج سے قبل آگاہی کی ضرورت و اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ الزائمر میں مبتلا افراد تو اس حوالے سے زیادہ مشکل صورتِ حال کا سامنا کرتے ہیں کہ ابتدائی علامات کو بڑھاپے کی نشانی سمجھ کر نہ تو بروقت مرض کی تشخیص کروائی جاتی ہے اور نہ ہی طبّی دیکھ بھال کی جانب توجّہ دی جاتی۔ لہٰذا سب سے پہلے اس امر پر توجّہ مرکوز کریں کہ جن افراد میں مذکورہ بالا علامات پائی جائیں،اُنہیں ان کے حال پر چھوڑنے کی بجائےفوری معالج سے رجوع کیا جائے۔

(مضمون نگار، لیاقت کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹیسڑی، کراچی میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر آف نیورولوجی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سینئر ممبر ہیں)