کراچی جو ایک بہشت نظیر شہر تھا

September 12, 2019

محمد اظہارا لحق

ایک بہشت نظیر شہر تھا، جسے ہم نے اجاڑدیا،اپنے تعصبات کے ذریعے،اپنی باہمی لڑائیوں سے اور افسوس یہ ہے کہ اس اجڑنے کا افسوس بھی نہیں،کچھ عرصہ بعد اب کے کراچی جانا ہوا تو ہوائی اڈے سے لے کر پسندیدہ سروسز میس تک، چالیس پچاس منٹ کے سفر میں کیا کچھ یاد نہ آیا،ستر کے عشرے کا آغاز تھا،جب وہاں تعیناتی ہوئی۔ زندگی اپنی ساری دلچسپیوں اور خوبصورتیوں کے ساتھ کراچی کے ہر کوچہ و بازار میں جلوہ فگن تھی۔

ایمپریس مارکیٹ کے سامنے گلیوں میں، بوہری بازار کے پیچھے پارسی اور مسیحی برادریوں کی اکثریت تھی، عورتیں سائیکلیں چلاتی تھیں ، ان برادریوں کی تقریباً ساری خواتین ملازمت پیشہ تھیں ، چڑیا گھر ،گاندھی گارڈن کے سامنے سرکاری ہوٹل میں قیام تھا۔ وہاں سے پیدل صدر تک جانا معمول کی سیر تھی۔ سکیورٹی کوئی ایشو نہ تھا، رات کے ایک بجے بہت آرام سے جیکب آباد لائنز بندو خان کی دکان میں جاکر کباب اور پراٹھے کھاتے تھے۔ ناظم آباد میں آغا کا جوس پیتے تھے۔ ریگل کی ایک دکان میں ٹھنڈے دودھ کی بوتلیں ہوا کرتی تھیں، جو اکثر و بیشتر چڑھانا ہم دوستوں کا معمول تھا۔ ایمپریس مارکیٹ سے ریگل کی طرف آتے ہوئے بائیں طرف فرزند قلفی والا پڑتا تھا، برنس روڈ پر جاکر دھاگے والے کباب ،بھنا ہوا قیمہ اور تل والے نان کھائے بغیر چین نہ آتا تھا۔ شباب تھا ،جسم میں سکت تھی، گاؤں کی زندگی کے اثرات صحت پر ابھی بھی موجود تھے۔ معدے مضبوط تھے، سب کچھ کھا جاتے تھے،اور ڈکار تک نہ لیتے تھے۔

اس وقت دبئی اور بنکاک کو کوئی نہیں جانتا تھا، دنیا بھر کی ائیر لائنوں کے جہاز کراچی اترتے تھے مشرق بعید سے آئے ہوئے جہا ز،کراچی رک کر مغرب کی طرف جاتے تھے۔ اور یورپ کی طرف سے آئے ہوئے جہاز کراچی سے ہی مشرق بعید کی سواریاں ؛لیتے تھے۔ کراچی کیا تھا؟ امن و امان کا گہوارہ ،محبت کا صدر مقام، ایک ایسا شہر تھا، جہاں رہنے کو بسنے کو دل کرتا تھا، پھر وہ وقت بھی آیا جب گلیوں میں رکاوٹیں تن گئیں، گیٹ بن گئے ،ہر کوچہ ایک قلعہ تھا۔نوجوانوں کے ہاتھوں میں ریوالور دے دیے گئے۔ تعلیمی ،معاشی اور تہذیبی اعتبارسے کراچی سالہا سال پیچھے چلا گیا۔اب کراچی شہر نہیں ،لسانی ،نسلی اور مسلکی گروہوں کا ٹھکانہ بن گیا۔ شہر وہ ہوتا ہے جس کے مکینوں میں ہم آہنگی ہو، جس کا نظم و نسق سب مل کرچلائیں ، جس سے جذباتی وابستگی ہو،اب اگر یہاں رہ کر، یہاں پیدا ہو کر، یہاں پل بڑھ کر بھی آپ نے امروہہ سے باہر نکلنا ہے نہ مردان سے،تو شہر میں کیسے ہم آہنگی پیدا ہوسکتی ہے۔

کراچی کے سب علاقوں میں سب لوگ مل کررہتےتھے۔ اب حالات یہ ہیں کہ فلاں علاقہ پٹھانوں کا، فلاں بلوچوں کا،فلاں پنجابیوں کا، یہ تو پیوند ہیں جو اس شہر کو لگے ہوئے ہیں۔ ستر کی دہائی کا کراچی اس لیے قابل رشک تھا کہ بہت سی آبادیاں جو بعد میں ابھریں ، تب نہیں تھیں ، شہرمیں پانی،بجلی، اور گیس کے وسائل آبادی کے لیے ناکافی تھے۔ ہم ہر کتاب میں لکھتے ہیں اور پڑھتے ہیں کہ شہر ایک مخصوص حد سے زیادہ نہیں بڑھنا چاہیے، پھر اس کے بعد نئےشہر بسا لینے چاہیے ۔موجودہ کراچی میں سے جو شہر کم اور عفریت زیادہ ہے،کم از کم چار پانچ شہر بن سکتے تھے۔

کراچی اب اپنے رہنے والوں کے لیے اذیت کا ساماں ہے، بے پناہ ٹریفک اور، ہر طرف گندگی کے ڈھیر، دکان نما ورکشاپیں ، پورے شہر میں پھیلی ہیں ۔ میٹرو پول ہوٹل اور فریر ہال کا علاقہ سیر کے لیے مثالی ہواکرتا تھا۔ زیب النسا سٹریٹ کراچی کا پر رونق اور باعزت حصہ تھا، اس میں ریستوران تھے، اور کافی شاپس ،کتابوں کی دکانیں ، تھیں ،ہم شہروں ،عمارتوں، اور شاہراہوں کے نام تبدیل کردیتے ہیں اور پھر انہیں اس طرح خراب کردیتے ہیں کہ اصل نام کے ساتھ ہر اصل چیز چلی جاتی ہے۔ پرانی یادگاروں کو اس وقت منہدم کرتے ہیں جب ان کی جگہ نئی یادگاریں اسی معیار اور اسی شان و شوکت کی بنانے کا ارادہ ہو، اور سکت بھی۔سجاد باقر رضوی یاد آرہے ہیں

جس کے لیے ایک عمر کنویں جھانکتے گزری

وہ ماہِ کراچی مہ کنعاں کی طرح تھا

کراچی کا چاند کنعان کے کنویں میں ڈوب چلا ہے، اسے پھر سے ابھارنا ہے، روشن کرنا ہے، کراچی اندھیرا ہو تو پورے ملک میں ظلمت کا دور دورہ ہوگا۔