اسلام میں کسبِ حلال کی اہمیت اور اُس کی برکتیں

September 13, 2019

اسلام میں جہاں محنت کی عظمت اورکسبِ حلال کی اہمیت بیان کی گئی ہے،وہاں حرام مال اور ناجائز آمدنی سے حاصل ہونے والے رزق اور مال و جائیداد کو انسان کی تباہی ،اس کی نیکیوں کی بربادی اور اس کے تباہ کن اثرات کو بھی پوری وضاحت سے بیان کیا گیا ہے،چناں چہ کسب ِ حلال کو ایک عظیم نیکی ،باعثِ اجرو ثواب عمل قرار دیا گیااور دوسری جانب ناجائز اور حرام مال کو وبال اور گناہ کا بنیادی سبب قرار دیا گیا۔جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ بندۂ مومن کی زندگی میں کسبِ حلال کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔قرآن و سنت کی تعلیمات اس سلسلے میں ہماری بھرپور رہنمائی کرتی نظر آتی ہیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اے لوگو،زمین میں جو کچھ حلال پاکیزہ چیزیں ہیں، وہ کھاؤ اورشیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ یقین جانو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، وہ تو تمہیں یہ حکم دے گا کہ تم بدی اور بے حیائی کے کام کرو اور اللہ کے ذمے وہ باتیں لگاؤ، جن کا تمہیں علم نہیں ہے۔(سورۃ البقرہ)

کسب حلال اور رزق طیب کی بے شمار برکات ہیں۔ جب لقمۂ حلال انسان کے پیٹ میں جاتاہے توا س سے خیر کے امور صادر ہوتے ہیں،بھلائیاں پھیلتی ہیں،وہ نیکیوں کی اشاعت کا سبب بنتاہے۔ اس کے برعکس حرام غذا انسانی جسم کو معطل کردیتی ہے۔نور ایمانی بجھ جاتاہے،دل کی دنیا ویران وبنجر ہوجاتی ہے۔شیطان اس کے قلب پر قابض ہوجاتاہے۔ پھرایسا شخص گویا معاشرے کے لیے موذی جانور بن جاتاہے۔ جس منہ کو حرام کی لت لگی ہو، اس سے بھلا امور خیر کیسے اور کیوں کر انجام پاسکتے ہیں؟ حلال وحرام کایہ کھلا فرق اس حد تک اثر انداز ہوتاہے کہ طیب وپاکیزہ کمائی کھانے والا عند اللہ مقبول ومستجاب بن جاتاہے، جب کہ حرام کو جزو بدن بنانے والا ،اللہ تعالیٰ کے ہاں مردود ٹھہرتا ہے۔ اسی بات کوکئی احادیث مبارکہ میں وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ آیت ’’یا ایّھا النّاس کُلوا ‘‘اللہ کے حبیب علیہ السلام کے روبرو تلاوت کی۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓکھڑے ہوئے اورفرمایا :یا رسول اللہﷺ، میرے لیے اللہ تعالیٰ سے مستجاب الدعوات بننے کی دعا فرمادیں۔آپ علیہ السلام نے فرمایا : اے سعد،اپنا کھانا پاکیزہ اورحلال رکھو۔ تم مستجاب الدعوات بن جا ؤگے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمدﷺ کی جان ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جو آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتاہے تو چالیس دن تک اس کی عبادات قبول نہیں کی جاتیں۔ایک حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ جس بندے کی نشو ونما حرام اور سود کے مال سے ہوئی ہو ،جہنم کی آگ اس کے زیادہ لائق ہے۔(ابن کثیر) ایک دوسری حدیث مبارکہ میں،جو حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے ، نبی کریم ﷺ نے مال حرام کی قباحت کو اس انداز میں ذکر فرمایا:بے شک، اللہ تعالیٰ پاک ہےاور پاکیزہ مال ہی قبول فرماتا ہے اور اللہ رب العالمین اپنے مومن بندوں کو بھی اسی چیز کا حکم دیتا ہے ،جس کا حکم اپنے پیغمبروں کو دیا۔ پھر آپ علیہ السلام نے قرآن مجید کی یہ آیات تلاوت فرمائیں: (ترجمہ)اے رسولو،پاکیزہ اورحلال چیزیں کھاؤ اورنیک عمل کرو۔اے اہل ایمان،جو رزق ہم نے تمہیں دیاہے،اس میں سے پاکیزہ اشیاء کھاؤ۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے شخص کا تذکرہ فرمایا جو لمبے سفر میں پراگندہ حال اورغبار آلود ہوتاہے اور وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاکر دعامانگتے ہوئے کہہ رہاہو،اے میرے رب،اے میرے رب،جب کہ حقیقت حال یہ ہو کہ اس کا کھانا، پینا اور اوڑھنا سب حرام ہے اورحرام کی غذا اسے مل رہی ہو،سو اس حالت میں اس کی دعائیں کیسے قبول ہوسکتی ہیں؟ (مشکوٰۃ)

دیکھا جائے تو آج اکثروبیش تر زبانوں پر یہ شکوہ رہتاہے کہ ہم اتنی دعائیں مانگتے ہیں، پھر بھی ہماری حالت تبدیل نہیں ہوتی،حالاں کہ تھوڑے تدبر وتفکر سے کام لیا جائے تو ہمیں اپنے معاشرے اورماحول میں کسب حلال کی فکروسوچ ہی مفقود نظر آتی ہے ۔عمومی فضا یہ بن چکی ہے کہ خواہشات کو ضروریات کا درجہ دے دیا گیاہے، جب کہ انسانی خواہش تو بحربے کنار کی مانند ہے۔ دنیا میں ہر آرزو اورتمنا پوری ہوجائے یہ ناممکن ہے۔ مستزاد یہ کہ ان لامحدود تمناؤں کو پورا کرنے کے لیے ہمارے درمیان ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ایک ہی خاندان میں شوہر کی خواہشیں الگ ہیں ،بیوی کی الگ ۔اولاد کسی اور چیز کے حصول کی امیدیں لگائے بیٹھی ہے تو ماں باپ کسی دوسری فکر میں ہلکان ہوئے جارہے ہیں،مال جمع کیا جارہاہے اوراس میں یہ نہیں دیکھا جاتاکہ ذریعۂ آمدنی حلال ہے یا حرام، جائز ہے یا ناجائز، طیب ہے یاخبیث، حدودِ شرع کے اندرہے یا باہر۔یہ بالکل وہی صورت حال ہے ،جسے ہمارے پیارے نبی ﷺ نے چودہ سو برس قبل بیان فرمایا تھا۔آپ علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا، جس میں انسان اس بات کی طرف دھیان نہیں دے گا کہ وہ جو مال حاصل کررہاہے، حلال ہے یا حرام ؟ (مشکوٰۃ) جب انسان اکل حلال کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ صبروقناعت ،زہدوایثار اورجفاکشی کی جگہ حرص وہوس اور عیش کوشی کو اپنامطمح نظر بنالیتا ہے تو اللہ رب کریم کی طرف سے نازل ہونے والی برکت ختم ہوجاتی ہے۔ جس کے بعد کثرت بھی قلّت محسوس ہونے لگتی ہے۔ ایسے شخص کو قارون کاخزانہ بھی مل جائے تو وہ اسے کم تر جانتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جب اپنے ناپاک مال میں سے اللہ کے راستے میں خرچ کرتاہے تووہ اس سے قبول نہیں کیا جاتا۔اس کے علاوہ یہ حرام بینک بیلنس جب تک اس کی ملکیت میں پڑا رہتا ہے، اس کے لیے دوزخ کی راہ ہموار کرتا رہتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک حدیث مبارکہ میں اس حوالے سے یوں ارشاد فرمایا: بندہ مال حرام کما کر جب اس میں سے اللہ کے راستے میں کچھ خرچ کرتاہے تو وہ اس سے قبول نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح جب وہ مال حرام اپنی ذات پر خرچ کرتاہے تواس میں اس کے لیے برکت پیدا نہیں کی جاتی اور اگراس مال حرام کو ذخیرے کی نیت سے اپنے پاس محفوظ رکھتاہے تو وہ اس کے لیے جہنم کا زادِراہ بن جاتا ہے۔ یادرکھو،اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں،بلکہ اچھائی سے برائی کو مٹاتا ہے،کیوں کہ خبیث چیز خبیث کو نہیں ختم کرسکتی۔(مشکوٰۃ) مولانا احمد علی سہارنپوری ؒمذکورہ حدیث مبارکہ کے آخری جملے کی تشریح میں لکھتے ہیں : حرام مال سے صدقہ اورانفاق گناہ ہے اور یہ اس گناہ کو نہیں مٹاسکتا جو کسب حرام سے حاصل ہواہے۔(مشکوٰۃ)اکل حلال اﷲ تعالیٰ کی محبت اور اس کی جنت تک رسائی حاصل کرنے کا راستہ ہے ۔یہ دعاؤں کی قبولیت کا سبب ہے ۔اس سے عمر میں برکت اور مال میں بڑھوتری ہوتی ہے ۔یہ عمل دنیا کی سعادت اور آخرت میں جنت کا موجب ہے ۔باتوں میں شیرینی اور اعمال میں جاذبیت پیدا کرتا ہے ۔حلال کمائی سے نسل میں برکت ہوتی ہے۔ اپنی محنت کی کمائی انسانی شرافت اور رفعت کا باعث ہے۔مال حرام خواہ کم ہویا زیادہ اس سے پرہیز کرناچاہیے،کیوں کہ صرف اور صرف حلال اور پاکیزہ غذا سے معاشرہ سدھار کی طرف جاتاہے، دعائیں قبول ہوتی ہیں، برکات نصیب ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حرام کے لقمے سے محفوظ اورحلال کی قدرومنزلت نصیب فرمائے۔(آمین)