دوسروں کی مدد کریں

September 13, 2019

راشد ادریس

بھائی جان (جن کو گھر میں منا کہا جاتا ہے) مسلسل ہر ماہ اپنے جوتے گم کررہے تھے۔ تیسری بار جب وہ جوتوں کے بغیرا سکول سے گھر آئے تو امی بے حد پریشان ہوئیں اور انہوں نے بھائی جان سے پوچھا۔ انہوں نے جو وجہ بتائی وہ امی سے مشکل ہی سے ہضم ہوپائی۔ رات کو سب ابو کے سامنے موجود تھے۔ ’’ہاں منے میاں! بتاؤ آج جوتے کہاں گئے؟‘‘ ابو نے پوچھا۔’’ ابو! میں نے امی کو بتا تو دیا ہے۔‘‘ بھائی جان نے رونی صورت بنا کر جواب دیا۔

’’مگر اس پر اعتبار کرنا تو مشکل ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہا سکول سے واپسی پر تم مسجد میں نماز پڑھنے گئے اور واپسی پر جوتے اپنی جگہ پر نہیں تھے۔ ہر بار جوتوں کے گم ہونے کی تم یہی وجہ بتاتے ہو۔اس مسجد میں جہاں تم نماز پڑھتے ہو‘ میں بھی اکثر وہیں نماز پڑھتا ہوں ،مگر میرے تو کیا‘ کسی اور کے جوتے بھی وہاں گم نہیں ہوئے۔ منے میاں اصل بات بتاؤ۔ ہر بار ایک ہی بہانہ نہیں چلے گا۔’’جی ابو۔۔۔۔ ابو۔۔۔۔‘‘ بھائی جان ہکلائے۔ ابو نے اس کے بعد کچھ نہ کہا اور پھر ہم سب اپنے اپنے کمروں میں سونےکےلئے چلے گئے۔ دوسرے دن صبح ابو بھائی جان کے اسکول گئے اور پرنسپل صاحب سے مل کر انہیں ساری صورتحال بتائی۔ پرنسپل صاحب نے کلاس ٹیچر کو بھی اپنے کمرے میں بلایا اور انہیں بھی تمام صورت حال سے آگاہ کیا۔ کلاس ٹیچر نے اس بارے میں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ ابو مطمئن ہوکر وہاں سے دفتر چلے گئے۔ کلاس ٹیچر دوبارہ اپنی کلاس میں گئے تو انہوں نے خود بھائی جان کو اپنے پاس بلا کر بڑی آہستگی کے ساتھ جوتوں کے گم ہونے کے بارے میں پوچھا‘ مگر بھائی جان یہاں بھی بات گول کرگئے۔ اچانک انہیں ایک خیال آیا اور وہ مسکرا دیے اور جب انہوں نے تحقیق کی تو ساری صورت حال ان کے سامنے آ گئی کلاس ٹیچر نے فون پر ابو کو اصل حقیقت سے آگاہ کیا۔ ابو یہ سن کر بہت خوش ہوئے۔

رات کو کھانے کے بعد ابو کے کمرے میں بھائی جان کی حاضری تھی۔ ابو کے کمرے میں صرف انہیں ہی بلایا گیا تھا۔ جب وہ کمرے میں سلام کرکے داخل ہوئے تو ابو نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا‘ پھر ابو بولے:’’ ہاں بھئی منے میاں! تمہارے جوتوں کے تین جوڑوں کے گم ہونے کی اطلاع اور اصل حقیقت تو مجھے معلوم ہوگئی ہے۔‘‘ ابو نے کہا اور کچھ دیر سانس لینےکےلئے رکے۔ ’’جی وہ ابو۔۔۔۔‘‘ بھائی جان نے کچھ کہنے کےلئے منہ کھولا۔ ’’مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ پہلی بار جوتے گم ہونے کا بہانہ بنا کر تم نے اپنے کلاس فیلو عبدالعزیز کی مدد کی‘ کیونکہ وہ ٹیچر کے کہنے کے باوجود نئے جوتے خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا‘ دوسری بار یہی تجربہ تم نے ساتھی مدثر اور تیسری بار شاہدکے لیے کیا۔ ابو کچھ دیر رکے اور پھر کہا،’’بیٹا! مجھے خوشی ہے کہ تم اپنے دوستوں اور ہم جماعت ساتھیوں کا اس قدر خیال رکھتے ہو، مگر اس میں ایک غلطی ہوگئی تم نے اس سارے معاملے میں جھوٹ کا سہارا لیا۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ تم مجھے اور اپنی امی کو اعتماد میں لیتے تو ہم تمہیں کبھی اس کام سے نہ روکتے۔ منے میاں! تم نے کتابوں میں پڑھا ہوگا کہ ہمارا مذہب اسلام ہم سے یہ چاہتا ہے کہ جو چیز ہمارے پاس ضرورت سے زائد ہے اس پر دوسروں کا حق سمجھیں۔ آج ہم پر اللہ تعالیٰ کا یہ کرم ہے کہ اس نے ہمیں اپنی ضرورتوں سے زیادہ عطا کیا ہے۔ اس لیے اپنے اطراف کے لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔‘‘

ٓ’’جی ابو! میں آئندہ خیال رکھوں گا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے بھائی جان کو ایسا محسوس ہوا جیسے ان کے سر سے منوں بوجھ اتر گیا‘ پھر وہ اجازت لے کر کمرے سے باہر آگئے۔ یوں کئی دنوں سے زیر بحث رہنے والا جوتوں کا معاملہ بالآخر حل ہوگیا۔