کامیاب والدین کی خصوصیات

September 15, 2019

بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے، جو چاہیں اس پر تحریر کردیں۔ بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے، تاہم بچہ اپنے باپ کا بہت اثر لیتا ہے۔ بچوں کی پرورش اور انھیں اچھی تربیت و تعلیم دینے کی ذمہ داری والدین کی ہوتی ہے۔کامیاب والدین بننے کیلئے یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ آپ کے بچوں کے دل میں کیا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کو ان کے لیے اچھی مثال بھی قائم کرنی چاہیے۔ آپ اچھے اور کامیاب والدین کیسے بن سکتے ہیں، آئیے جانتے ہیں۔

بچوں سے بات چیت کریں

تمام والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے بِلاجھجھک ان سے بات کریں۔ بچوں کو احساس ہونا چاہیے کہ والدین ان کی بات سننے کیلئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ اگر سب گھر والے صلح سے رہتے ہیں تو بچے آسانی سے اپنے احساسات کا اِظہار کرپائیں گے۔ لیکن اگر اُنہیں لگتا ہے کہ والدین ان کے ساتھ سختی سے پیش آئیں گے یا ان پر نکتہ چینی کریں گے تو شاید وہ ان سے کُھل کر بات نہ کریں۔ لہٰذا والدین کو چاہیے کہ بچوں کے ساتھ بڑے صبروتحمل سے پیش آئیں اور انہیں اپنے پیار کا یقین دِلاتے رہیں۔

آپ کیا کر سکتے ہیں؟ بچوں کو احساس دِلائیں کہ جب بھی وہ آپ سے بات کرنا چاہیں، آپ ان کے لیے دستیاب ہوں گے۔ صرف اُس وقت بچوں سے بات نہ کریں جب انہیں کوئی مسئلہ درپیش ہو بلکہ باقاعدگی سے ان سے بات کیا کریں۔

بچوں کو سمجھنے کی کوشش کریں

جب آ پ کا بچہ کوئی بات کہتا ہے تو آپ کو اِس پہلو پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہا ہے۔ بچے اکثر بات کو بڑھا چڑھا کر بتاتے ہیں یا ان کے مُنہ سے ایسی باتیں نکل جاتی ہیں جو دل میں نہیں ہوتیں۔ یاد رکھیں کہ بچوں کی بات سننے سے پہلے جواب نہ دیں اور نہ ہی جلدی غصے میں آئیں۔

آپ کیا کر سکتے ہیں؟ چاہے بچہ جو بھی کہے، یہ ٹھان لیں کہ آپ اُس کی بات نہیں کاٹیں گے اور نہ ہی غصے میں آئیں گے۔ یاد کریں کہ جب آپ اپنے بچے کی عمر میں تھے تو آپ کیسا محسوس کرتے تھے اور معاملات کو کس نظر سے دیکھتے تھے۔

اتفاقِرائے سے بچوں کی تربیت کریں

ماں اور باپ، دونوں کو ہی بچوں کی تربیت کی ذمےداری سونپی گئی ہے۔ اپنے بچوں کو سکھائیں کہ انہیں آپ کا کہنا ماننا چاہیے اور آپ کا احترام کرنا چاہیے۔ اگر ماں باپ کسی معاملے میں ایک سوچ اور ایک رائے نہیں رکھتے تو بچوں کو اِس کا پتہ چل جاتا ہے۔ اس لیے اگر آپ دونوں کسی بات پر متفق نہیں ہوتے تو بچوں پر یہ ظاہر نہ ہونے دیں، ورنہ ان کے دل میں آپ کے اختیار کے حوالے سے احترام کم ہو جائے گا۔

آپ کیا کر سکتے ہیں؟ آپس میں بات چیت سے یہ طے کریں کہ آپ اپنے بچوں کی اصلاح کیسے کریں گے۔ اگر بچوں کی تربیت کرنے کے حوالے سے آپ دونوں کی رائے میںفرق ہے تو معاملے کو ایک دوسرے کے نقطۂ نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں۔

بچوں کو بنیادی اصول بتائیں

تربیت کا ایک اہم پہلو اصلاح بھی ہے لیکن اصلاح کرنے کا مطلب صرف سزا دینا ہی نہیں ہوتا۔ اس میں بچوں کو یہ سمجھانا بھی شامل ہے کہ گھر میں فلاں اصول کیوں بنایا گیا ہے۔ بچوں کو اچھے اور بُرےمیں امتیاز کرنا سکھائیں۔

آپ کیا کر سکتے ہیں؟ بچوں کی مدد کریں تاکہ وہ آپ کو اپنا قریبی دوست سمجھیں اور آپ پر بھروسہ کریں۔ بچوں کو خطرات سے آگاہ کریں، مثلاً ایسے خطروں سے جو انٹرنیٹ پر یا سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر پائے جاتے ہیں۔ انھیں خود کو دوسروں سے محفوظ رہنا سکھائیں اور کوئی بھی ناگوار بات محسوس ہو تو وہ اسے آپ کو ضرور بتائیں۔

بچوں کو کہنا ماننا سکھائیں

اپنے بچوں کو سکھائیں کہ وہ آپ کی کہی ہوئی بات مانیں۔ عموماً بچے اپنی بات منوانے کے عادی ہوتے ہیںتو یہ بات ان کیلئے بڑا دھچکا ثابت ہوسکتی ہے۔ کچھ بچے بات بات پر غصہ کرنے لگتے ہیں اور کچھ اپنے ماں باپ کی بات سننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اس صبر آزما گھڑی میں والدین کو ایک نیا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہیں اپنے اختیار کو عمل میں لاتے ہوئے بچے پر واضح کرنا چاہیے کہ وہ اس سے کیا توقع رکھتے ہیں۔

آپ کیا کر سکتے ہیں؟ آپ کا بچہ اسی صورت میں آپ کا کہنا مانے گا جب آپ اس پر واضح کریں گے کہ اختیار آپ کے ہاتھ میں ہے، لہٰذا پیار سے اپنے اختیار کو اِستعمال کریں۔ کچھ والدین بچوں سے بات کرنے میں بہت زیادہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن ایسا کرنے سے بچوں کی نظر میں والدین کے اختیار کی اہمیت کم ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اپنے اختیار سے دست بردار ہونے کی بجائے بچوں کو صاف اور سیدھے لفظوں میں ہدایات دیں۔ اپنے جیون ساتھی کے ساتھ پہلے سے بات کرکے رکھیں کہ آپ بچے سے کیا کہیں گے اور پھر ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ اگر آپ بچے کو بتاتے ہیں کہ فلاں کام کرنے پر اسے سزا ملے گی تو اپنی بات کو پورا کریں۔ بچے کو بحث نہ کرنے دیں اور نہ ہی لمبی چوڑی وضاحتیں دیں کہ آپ نے ایک فیصلہ کیوں کیا ہے۔ اگر آپ ”ہاں کی جگہ ہاں ‏ اور نہیں کی جگہ نہیں“ کہیں گے تو آپ اور آپ کے بچے دونوں کیلئے آسانی ہوگی۔ بچے کو پتہ ہوگا کہ ایک بار کسی بات کیلئے منع کردیا گیا ہے تو پھر اس بات کا احترام کرنا ہے۔