استاد امانت علی خان کو بچھڑے 45 برس بیت گئے

September 17, 2019

Your browser doesnt support HTML5 video.

استاد امانت علی خان کو بچھڑے 45 برس بیت گئے

پاکستان کے نامور موسیقار اور گلوکار استاد امانت علی خان کو مداحوں سے بچھڑے45 برس بیت گئے۔

میٹھی اور سریلی آواز کے مالک استاد امانت علی خان نے1922کو بھارتی صوبے پنجاب کے علاقے ہوشیار پور میں جنم لِیا جن کا تعلق برصغیر کے مشہور موسیقار گھرانے پٹیالہ سے تھا۔

تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آنیوالے امانت علی خان نے گائیکی کی تربیت اپنے والد سے حاصل کی اور اپنا فنی سفر ریڈیو پاکستان سے شروع کیا۔

ملی نغموں، غزلوں اور کلاسیکل گیتوں میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے استاد امانت علی خان کی آواز میں کمال کی نرمی تھی جو سننے والوں پر سحر طاری کردیتی تھی۔

عام طور پرکلاسیکی راگ گانے والوں کو غزل اور گیت گانے میں دشواری پیش آتی ہے مگر استاد امانت علی خان اس میں استثنیٰ رکھتے تھے۔

وہ جب غزل یا گیت گاتے تھے تو ان کے کمالات مزید کھل کر سامنے آتے تھے،آتش کی غزل"یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے"،"،سیف الدین سیف کی غزل"مری داستان حسرت وہ سنا سنا کے روئے،"ادا جعفری کی غزل"ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے"، ابن انشا کی غزل"انشا جی اٹھو اب کوچ کرو" اور ساقی جاوید کا ملی نغمہ "چاند میری زمیں پھول میرا وطن" ان کے کچھ ایسے ہی گائے ہوئے بے مثال نغمے ہیں جو ان کو اپنے چاہنے والوں کے دِلوں میں آج تک زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

17ستمبر 1974 کو استاد امانت علی خان 52برس کی عمر میں لاہورمیں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے جن کی خدمات کے اعتراف میں انہیں حکومتِ پاکستان نے پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا۔