حکومت کیسی جا رہی ہے؟

September 20, 2019

ٹھیک بیس مہینے گزرے، 20جنوری 2018کی صبح روزنامہ جنگ کے اسی ادارتی صفحے پر درویش نے لکھا، ’عمران خان ابھی میرے وزیراعظم نہیں بن سکتے‘۔ اس پر اختیار کے ایوانوں سے استہزا کا ہنکارا سنائی دیا، تماشائیوں کے انبوہ سے ٹھٹھا بلند ہوا۔

اس میں کیا تعجب کہ اس وقت فکر فردا اور جشن امروز کو قطع کرتی لکیر کے دوسری طرف سازش کا نسخہ تیار تھا، فتح کے جلوس کی تیاریاں تھیں۔ مال غنیمت کی تقسیم کا شور تھا۔

نادیدہ کمک کے نشے میں چور مرہٹہ صفت لڑاکے اپنے نیزے تولے بزن کے منتظر تھے۔ خواب کے گھوڑے پر سوار لشکر جنون پابستہ حریف کے خراب و خستہ مورچے کچلنے کو بے تاب تھا۔

کس کو دماغ تھا کہ مسافرت کے خطرات سے آگاہ کرتی احتیاط پسند سرگوشی پر کان دھرے۔ مگر یہ کہ ناخن کا قرض تھا، ادا کرنا تھا۔ لڑائی کے ابتدائی مناظر کبھی حتمی نتیجے کی خبر نہیں دیتے۔

ہٹلر نے محض آٹھ ماہ میں قریب قریب پورا یورپ روند ڈالا تھا۔ جاپان نے چند گھنٹوں میں پرل ہاربر کے ساحلوں پر امریکی بحریہ کو نیست و نابود کر دیا تھا۔ دیکھنے والی آنکھ مگر لمحہ موجود سے پرے فیصلہ کن عوامل کی خبر رکھتی ہے۔

تاریخ کم ہی کسی کو ابوالکلام آزاد جیسا موقع دیتی ہے کہ 23اکتوبر 1947ء کو جامع مسجد دہلی میں کھڑے ہو کر اپنی رائے کی اصابت یاد دلائے۔ درویش کو امام تدبر محی الدین ابوالکلام سے ہمسری کا دعویٰ نہیں ہو سکتا لیکن انسانی مساوات کا اصول مرتبے کی سند سے تعلق نہیں رکھتا، یکساں صلاحیت کے امکان کی نشاندہی کرتا ہے۔

جنوری 2018ء کی عرضداشت کے چند نکات دیکھ لیجئے۔ لکھا تھا کہ عمران خان جمہوری روایت سے بیگانہ ہیں اور پارلیمانی تجربہ نہیں رکھتے۔

معیشت کی پیچیدگی نہیں سمجھتے اور انتظامی تجربے سے محروم ہیں۔ عمران حکومت گہرے غور و فکر کی عادی نہیں۔

قیادت حد سے بڑھی ہوئی خود پسندی کے باعث مردم شناسی کا ملکہ نہیں رکھتی۔ مذہبی نعرے اور جدید سیاسی بیانیے کی کشمکش میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

اب اس محاکمے پر ایک برس کے قومی تجربے کی مہر لگ چکی۔معیشت میں ابتری اور جمود اب بحث کا موضوع نہیں رہے کہ 22کروڑ شہریوں کے جسم و جاں کا امتحان لے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ بازیچہ اطفال بن چکی۔

حزبِ اختلاف ایک ایسے احتساب کی زد میں ہے جس کے بارے میں خود انصاف کے اعلیٰ ترین ایوانوں میں تحفظات کی بازگشت ہے۔ ذرائع ابلاغ خبر اور تجزیے کا منصب بھول کر اورنگ سلیمانی کا حرف فرستادہ دہرا رہے ہیں۔

ادھر بھارت نے مسئلہ کشمیر کی 72برس پر محیط تاریخ میں اپنا کاری ترین وار اس زاویے سے کیا ہے کہ اس یک طرفہ کارروائی کے ردعمل میں ہمارے پاس بلند بانگ لفاظی کے بلبلے ہی باقی بچے ہیں۔

وجہ یہ کہ ہماری ریاست نے گزشتہ عشروں میں لمحہ بہ لمحہ اپنی ساکھ گنوائی ہے اور ہماری حکومت سیاسی اور انتظامی سطح پر بوجوہ کمزور ہے۔ یہ محض اتفاق ہے یا صورت حال کی ستم ظریفی کہ بھارت نے اپنے دستور کی شق 370منسوخ کر کے کشمیر کی امتیازی شناخت ہی ختم کر ڈالی۔

ادھر ہمارے صاحب تدبیر وزیر قانون نے بیٹھے بٹھائے دستور کی شق 149کی ذیلی دفعہ 4کا اشارہ دے کر اپنی ایک کلیدی وفاقی اکائی کے پیروں تلے انگارے بچھا دیے ہیں۔ یہ اگر فروغ ہے تو انقباض کیا ہو گا۔ یہ اگر نسیم ہے تو صرصر کی صورت کیا ہو گی؟

حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (نواز) اور جمعیت علمائے اسلام نے اکتوبر میں اسلام آباد کی طرف مارچ کے منصوبے پر اتفاق کیا ہے۔ بتایا گیا کہ اس کارروائی سے حکومت کا استعفیٰ لینا اور نئے انتخابات کی نیو رکھنا مقصود ہے۔

خبردار کرنا چاہئے کہ اگر ایسا ہوا تو اس سے بہتری کا کوئی پہلو برآمد نہیں ہو گا۔ اسلام آباد کی طرف بڑھنے والے جلوسوں کے ضمن میں ہمارا تجربہ خوشگوار نہیں۔ نم کہیں اور کا ہو، آنکھ کہیں جا کے بہے۔

اب بھی وقت ہے کہ جمہوری قوتیں اس ارادے کے کیف و کم پر غور فرمائیں۔ ملک کو آگے لے کر چلنا ہے تو اس کا راستہ قانون، دستور اور سیاسی عمل سے نکلے گا۔

انہدامی یلغار تو گویا غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کا حیلہ ہو گی۔ مذہب کو ڈھال بنا کر ہنگامہ آرائی کے راستے بے یقینی کے ایک اور منطقے میں اتریں گے تو آئین کی بالادستی، معاشی ترقی اور قومی احترام کے گم شدہ خزانے نہیں ملیں گے۔

اس وادی لاہوت میں قدم قدم پر بارودی سرنگوں سے واسطہ پڑے گا۔ علاج بالمثل کی اس مشق کا ملبہ شاہراہ دستور پر نمودار ہو گا۔

بے شک عمران خان کی حکومت اپنے موعودہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہی نہیں ہوئی بلکہ معمول کا کاروبار مملکت بھی مفلوج ہو گیا ہے۔

اس بحران کے دو زاویے ہیں۔ فانے کے پتلے سرے پر عمران خان اور ان کے ذاتی مداح ہیں۔

یہ سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک ذہنی کیفیت کے زیر اثر ہجوم ہے جسے سیاسی منڈی کے فروختنی اثاثے سونپ دیے گئے ہیں۔

پی ٹی آئی کا ایک معتدبہ حصہ ایسے افراد اور طبقات ہیں جو ہماری تاریخ تو شاید نہیں سمجھتے لیکن ہمارے سفر کی کٹھنائیوں سے برگشتہ ضرور ہیں۔ عمران خان کی حکومت ایک پھیلی ہوئی تمثیل کا ذیلی منظر ہے۔ اس منظر میں الجھنا حقیقی بحران کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہو گا۔

عمران خان ایک ایسے رہنما ثابت ہو چکے جو قوم کے دستوری، ثقافتی، تمدنی اور اخلاقی احیا کی سیاسی صلاحیت نہیں رکھتے۔ تاہم ان کی ذاتی تحدیدات ہمارے اجتماعی بحران کی محض علامت ہیں۔

عمران حکومت ناکام ہو رہی ہے اور اس کی ناکامی اس اساسی تجربے کا ناگزیر نتیجہ ہے جس کی برسوں پرداخت کی گئی۔ جمہوری جدوجہد کو عمران خان کی ذات پر مرکوز کرنا جمہوری قوتوں کی سنگین غلطی ہوگی۔

پاکستان کے 22کروڑ باشندوں کو انسانیت کے معاشی، سیاسی اور علمی اثاثوں سے اپنا حصہ لینا ہے اور یہ ہدف اسلام آباد میں کسی کٹھ پتلی کھیل کا حصہ بننے سے حاصل نہیں ہو گا۔

ہمارے پاس آئین کی کتاب ہے، پاکستان کے باصلاحیت شہری ہیں اور ہماری پشت پر تاریخ کا گراں مایہ سیاسی سرمایہ ہے۔ ہمیں دھرنے کی نہیں، دستوری پیش قدمی کی ضرورت ہے۔