ایک خط

September 20, 2019

23 اگست 2019کے روزنامہ جنگ میں میرے شائع شدہ کالم ’’نظریاتی فتح‘‘ پر منیر احمد منیر کا خط موصول ہوا جو من و عن پیش خدمت ہے۔

ڈاکٹر صاحب آپ لکھتے ہیں:’’متحدہ ہندوستان کے اکثر و بیشتر مسلمان رہنماوٴں کی ’’اَنا‘‘ یا انائیں کوہ ہمالیہ جتنی بلند تھیں اور ان کی انائیں قائداعظم ؒکی قیادت تسلیم کرنے کی راہ میں حائل رہیں چنانچہ وہ مسلم لیگ سے دور رہے۔ کانگریس انہیں ہرحال میں خوش رکھتی تھی، حد درجہ اہمیت دیتی تھی اور ان کی انا کی تسکین کا پورا سامان کرتی تھی چنانچہ وہ آخری دم تک متحدہ ہندوستان کا راگ الاپتے رہے‘‘۔

واقعات تو کئی ہیں لیکن یہاں میں صرف کیبنٹ مشن کا ذکر کروں گا۔ کیا اس پر مولانا ابوالکلام آزاد کی اَنا کی تسکین کا سامان مہیا کیا گیا؟ جبکہ مولانا اپنی باقی ماندہ زندگی میں اسی ’’انا‘‘ شکنی پر جواہر لال نہرو کو کوستے رہے۔ شیخ عبداللہ اپنی خود نوشت ’’آتشِ چنار‘‘ میں مولانا کے حوالے سے لکھتے ہیں:’’میرے بھائی میں تو اب ایک صدا بصحرا بن کر رہ گیا ہوں‘‘۔ (ص614۔ پہلا ایڈیشن 1985ء)۔

خود شیخ عبداللہ جنہیں جواہر لال نہرو اپنا سب سے بیش قیمت ساتھی قرار دیا کرتے تھے اور شیخ صاحب اسی نہرو کے ساتھ خون کا رشتہ جتایا کرتے تھے، ان کی ’’انا‘‘ کی تسکین کے لئے یہ سامان مہیا کیے گئے کہ گیارہ برس تک مقدمہ چلائے بغیر انہیں جیل میں ٹھونسے رکھا۔1937کے انتخابات کے نتیجے میں ہندوستان کے گیارہ میں سے 8صوبوں میں کانگریسی حکومتیں بنیں۔ سوا دو سال کے اس کانگریسی راج میں ان صوبوں کے مسلمان ہی نہیں غیر مسلم اقلیتیں تک بلبلا اٹھیں۔ ڈاکٹر صاحب اس پر آپ لکھتے ہیں:’’خدا جانے اس ڈھائی سالہ کانگریسی ہندو راج نے کانگریس کے مسلمان اراکین اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے عالم و فاضل حضرات کی آنکھوں سے پردہ کیوں نہ اٹھایا‘‘۔

اس کے باوجود آپ مولانا آزاد کے بارے میں خوش امید ہیں کہ ’’اگر اللہ پاک انہیں عمرِ دراز عطا کرتے اور وہ مودی کے گجرات میں مسلمانوں کا قتلِ عام، مسلمان خواتین کی بے حرمتی اور ان کے گھروں کو آگ لگانے کے مناظر بھی دیکھتے تو (کیا) اپنے موقف سے تائب نہ ہوتے(؟)۔‘‘

مولانا کانگریسی راج کے دوران مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پرتو اپنے موقف سے تائب نہ ہوئے اور تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان کے ساتھ حد بندی کے دوران میں کی گئی کانگریس و انگریز کی زیادتیوں، مسلمانوں کے قتل و غارت، کشمیر، حیدر آباد دکن، جونا گڑھ، مانگردل، مناودر وغیرہ پر کانگریس کے جارحانہ قبضے اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے قتلِ عام، مسلمان عورتوں کی بے حرمتی اور ان کے گھروں کو نذرِ آتش کیے جانے پر بھی مولانا تائب نہ ہوئے اور نہ ہی پٹیل کی مسلم کش پالیسی اور اقدامات پر وہ تائب ہوتے ہیں جس کا ذکر اُنہوں نے ’’انڈیا ونز فریڈم‘‘ میں کیا ہے بلکہ اس سب کچھ کے باوجود انڈیا ونز فریڈم میں لکھتے ہیں کہ ’’میں تسلیم کرتا ہوں کہ پاکستان کا نام ہی میرے مزاج اور میری فطرت کے خلاف ہے‘‘۔ (ص150، ایڈیشن1988ء)۔ تو ڈاکٹر صاحب! آج جب مولانا131 برس کے ہوتے تو تائب ہو جاتے! ماشاء اللہ۔ توبہ کے لئے عمر کی 131برس کی شرط بھی خوب رہی۔

اب آتے ہیں آپ کے شیخ الاسلام اور آپ ہی کی روحانی شخصیت مولانا حسین احمد مدنی کی طرف۔ آپ نے ان پر لکھی گئی کتاب ’’حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، واقعات و کرامات‘‘ میں سے قیامِ پاکستان کے حوالے سے مولانا سے منسوب یہ فرمان نقل کیا ہے:’’مسجد جب تک نہ بنے، اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن جب بن گئی تو وہ مسجد ہے‘‘۔ برطانوی حکومت، ہندو کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے اتفاق نے 3جون 1947کے پارٹیشن پلان کو وجود بخشا۔ یوں 3جون 47کو اس مسجد کے قیام کا اعلان ہو گیا۔ 22جون 1947، فرنٹیر کانگریس کمیٹی، فرنٹیر کانگریس پارلیمانی پارٹی اور خان عبدالغفار خاں کے سرخ پوشوں نے یہ مسجد ڈھانے کے لئے ’’آزاد پٹھان ریاست‘‘ کے قیام کا مطالبہ کر دیا۔ 25جون 1947ء، مولانا حسین احمد مدنی کی زیرِ قیادت جمعیت العلمائے ہند کی مجلسِ عاملہ نے ایک قرارداد کے ذریعے غفار خاں کے پاکستان ڈھاوٴ مطالبے ’’آزاد پٹھان ریاست‘‘ کی پُرزور اور علانیہ حمایت کی تو پاکستان کو مسجد قرار دینے کا مدنی صاحب کا دعویٰ کہاں گیا؟

ڈاکٹر صاحب! آپ لکھتے ہیں:’’اسی کتاب میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی کا ایک کشفی خواب درج ہے جس میں انہوں نے 1946میں دیکھا کہ اصحابِ باطن نے ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ کر دیا‘‘۔ یہ کشفی خواب مولانا مدنی نے 1946میں دیکھا جبکہ اس سے کچھ عرصہ قبل ’’اکتوبر 1945میں دیوبند کے مولوی حسین احمد مدنی نے فتویٰ شائع کیا تھا کہ مسلم لیگ میں مسلمانوں کی شرکت حرام ہے اور قائداعظم ؒدراصل کافرِاعظم ہے‘‘۔ (حوالہ:مسلم پنجاب کا سیاسی ارتقا۔ زاہد چوہدری۔ 1991ء۔ ص382، ادارہ مطالعہٴ تاریخ۔ 3ٹیمپل روڈ لاہور)۔

مولانا مدنی کے متعلق آپ کہتے ہیں:’’حضرت صاحب روحانی شخصیت تھے‘‘۔ اکتوبر 1945میں یہ روحانی شخصیت مسلم لیگ اور قائداعظم ؒکے خلاف فتویٰ جاری کرتی ہے۔ 1946میں کشفی خواب میں اصحابِ باطن کی طرف سے انہیں پاکستان کا قیام نظر آتا ہے۔ اس کے باوجود موصوف اپنا فتویٰ واپس لیتے ہیں، نہ پاکستان کے حق میں آتے ہیں۔

مولانا مدنی قیامِ پاکستان کے بعد دس برس تین ماہ بیس دن زندہ رہے۔ نہ انہوں نے اپنے فتوے سے رجوع کیا نہ پاکستان کے حق میں کلمہٴ خیر کہا۔ لیکن آپ نے پابندی لگا دی اگر آج 2019کو وہ زندہ ہوتے یعنی جب ان کی عمر 140برس ہوتی تو وہ ’’دو قومی نظریے کو حقیقت اور سچ قرار دیتے‘‘۔ بہت خوب ڈاکٹر صاحب!