عثمان بزدار سے شہباز گل تک

September 20, 2019

ایسے وقت میں عثمان بزدار کے حق میں کچھ لکھ رہا ہوں جب ہر طرف یہی غلغلہ ہے کہ چار ہفتوں میں اگر عمران خان نے وزیراعلیٰ تبدیل نہ کیا تو پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہی ختم کر دی جائے گی۔ قاف اور نون کے درمیان ربط قائم ہو چکا ہے۔

عثمان بزدار کے والد فتح محمد بزدار انتہائی شریف آدمی تھے، اتنے سادہ لوح تھے کہ ایک مرتبہ اپنے ایم پی اے کی کسی بات پر انہیں غصہ آگیا تو الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا۔ ہائی اسکول کے ٹیچر تھے۔ اُسی روز ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور تین ماہ بعد الیکشن لڑکر ایم پی اے بن گئے۔ ہارنے والا کورٹ میں چلا گیا۔ انہیں علم ہی نہیں تھا کہ ملازمت چھوڑنے کے بعد دو سال تک الیکشن نہیں لڑ ا جا سکتا۔

وکیل نے کہا اب اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ صدر مملکت اس قانون کو ری لیکس کر دے۔ کوششیں بہت کیں مگر جنرل ضیاء الحق سے ملاقات کا وقت نہ مل سکا۔ پتا چلا کہ جنرل ضیاء الحق عید کی نماز کے بعد لوگوں سے ملتے ہیں سو عید اسلام آباد کرنے کا فیصلہ کیا اور مسجد میں صدر صاحب سے ملنے والوں کی لائن میں کھڑے ہو گئے۔

یوں اُن کی صدر مملکت سے ملاقات ہو گئی اور وہ نااہل ہونے سے بچ گئے۔ بہت درویش منش آدمی تھے۔ ایم پی اے بننے کے بعد جب لاہور آتے تھے، پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم اپنے ایک عزیز سعید خان بزدار کے کمرے میں قیام کیا کرتے تھے۔

عثمان خان کے دادا دوست محمد بزدار کو انگریزوں نے میاں چنوں میں دس مربع زمین دی تھی جو ان کے باپ اور چچا میں تقسیم ہوئی۔ پانچ پانچ مربع حصے میں آئے۔ ان کے چچا اسلم خان تو مستقلاً میاں چنوں ہی مقیم ہوگئے۔ ان کے باپ کے پانچ مربع ان کے پانچ بھائیوں اور پانچ بہنوں میں تقسیم ہوئے۔ اب خود اندازہ لگا لیں عثمان بزدار کے حصے میں کتنی زمین آئی ہوگی۔ تونسہ کے پہاڑی علاقے میں بھی ان کی کچھ زمین ہے مگر اتنی نہیں کہ اُس پر گزر بسر ہوسکے سو ان کے بھائی عمر بزدار بارڈر ملٹری پولیس میں جمعدار بھرتی ہوگئے۔

وہی عمر بزدار جنہیں رسالدار بنانے کے لئے وزیراعلیٰ نے سفارش کی مگر ظالم لوگ عدالت میں چلے گئے۔ کیا ہوتا جو اگر وہ رسالدار بن جاتا اور کیا ہونا تھا یہی پانچ سات ہزار روپے تنخواہ میں اضافہ ہو جاتا۔ سچ تو یہی ہے کہ عثمان بزدار ایک سفید پوش آدمی ہیں۔ تنخواہ بڑھانے کی تمنا کی تھی مگر میڈیا نے پوری نہیں ہونے دی۔

شروع سے ہی اُن افسران پر بھروسہ کیا جو اس کے عزیز رشتہ دار تھے اور یہ ایک فطری عمل ہے۔ آدمی غیروں سے زیادہ اپنوں پر اعتبار کرتا ہے۔ اپنے ماموں زاد بھائی اعجاز جعفر کو ایڈیشنل چیف سیکرٹری لگایا۔ اپنی پھوپھو کے شوہر تیمور بزدار جو کسی زمانے میں اے ایس آئی بھرتی ہوئے تھے اور ترقی کرتے کرتے اٹھارہویں گریڈ میں پہنچ گئے تھے، سے پولیس کے معاملات میں مشورے لئے۔

ڈیرہ غازی خان کے معاملات اپنے بہنوئی طاہر نتکانی ایڈووکیٹ کے حوالے کئے۔ یقین کیجئے عثمان بزدار کے عزیزوں نے کوئی بڑی کرپشن نہیں کی۔ وہ لیٹر جو وزیراعلیٰ نے جعلی قرار دیا۔ ان کی کرپشن کا اُسی سے اندازہ کیجئے۔ اس پر لکھا ہوا تھا کہ ’’یہ بندہ میرا قریبی عزیز ہے‘‘ وہ اُس خط کو ٹریفک پولیس والوں سے بچنے کے لئے استعمال کرتا تھا۔

اس نے اُس لیٹر کی لیمینیشن بھی کروا رکھی تھی کہ کہیں کثرتِ استعمال سےخراب نہ ہوجائے۔ اب یہ کرپشن تھوڑی ہے۔ طور خان پر وزیراعلیٰ کا فرنٹ مین ہونے کا الزام لگایا گیا۔ اُس بیچارے کا بس اتنا قصور ہے کہ عثمان بزدار کا پرانا دوست ہے۔ اب دوست کا بھی تو کچھ حق ہوتا ہے نا۔

یہ الزام بھی لگایا گیا کہ وہ جب ناظم تھے تو انہوں نے گھوسٹ اسکول بنائے تھے۔ اِس کی بھی خاصی تحقیق کی گئی مگر کوئی ثبوت حاصل نہیں ہوا۔ جہاں تک ڈیرہ غازی خان کے افسران کی کرپشن کا تعلق ہے تو قریبی جاننے والے کہتے ہیں کہ وہ کرپشن وزیراعلیٰ کے نام پر ضرور ہو رہی ہے مگر وزیراعلیٰ کےعلم میں نہیں ہے۔ بے علمی کے مجرم تو خیر عثمان بزدار ہیں ہی۔ خود کہتے ہیں میں ابھی سیکھ رہا ہوں۔

عثمان بزدار کی تباہی میں اُن کے سابقہ ترجمان شہباز گل کا بھی خاصا ہاتھ ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ وزیر اعلیٰ کمزور تر ہو تاکہ زیادہ اختیارات اُس کے پاس آئیں۔ ایک دن شہباز گل نے خود مجھے آکر بتایا کہ آج نوٹیفکیشن جاری ہو گیا ہے اب میں تمام انتظامیہ کو وزیراعلیٰ کے بی ہاف پر آرڈر جاری کرسکوں گا۔ اِن دنوں شہباز گل کی خواہش ہے کہ ندیم افضل چن کی جگہ وہ وزیراعظم کاترجمان بن جائے۔ عمران خان کے پاس ایجنسیوں سے تمام رپورٹس پہنچ چکی ہیں۔

شہباز گل پر سب سے زیادہ حیرت مجھے اُس روز ہوئی تھی جب میں نے اسے مشورہ دیا تھا کہ پنجاب میں ایک نئی وزارت قائم ہونی چاہئے جو آمدن اور اثاثوں کا حساب رکھے۔ ریکارڈ تیار کرے کہ کس کے پاس کتنا سرمایہ ہے اور کہاں سے آیا ہے یوں کرپشن سے بنائی گئی دولت پر ہاتھ ڈالنے میں آسانی ہوگی تو مجھے کہنے لگا میرے بیوی بچے آئے تھے میں نے انہیں واپس امریکہ بھیج دیا ہے۔ تم بھی خوابوں سےنکل آئو، کچھ بھی نہیں ہو سکتا، اپنے لئے جو کر سکتے ہو کرلو۔

یہاں تو یہ حال ہے کہ وہ لوگ جو پولیس کے ہاتھوں مارے گئے تھے میں نے اُن کے ورثا کوساہیوال سے بلوایا تھا۔ وہ سارا دن میرے پاس بیٹھے رہے۔ وزیراعلیٰ اٹھ کر گھر چلا گیا انہیں ملا تک نہیں۔ میں گھر اس کے پاس گیا کہ وہ صبح کے آئے ہوئے آپ انہیں مل لیں تو کہنے لگا ’’ابھی موڈ نہیں ہے پھر کسی دن ان کے گھر چلے جائیں گے‘‘۔ اب بتائیے کہ وزیراعلیٰ نے کوئی غلط بات کہی تھی۔

آدمی کی طبعیت کسی وقت بھی خراب ہو سکتی ہے۔ ڈپریشن ہو سکتا ہے۔ پھر وزیراعلیٰ خود ان کے گھر جانے کی بات کر رہے تھے مگر اس نے اُن کی بات سے منفی پہلو اجاگر کیا۔ نعیم الحق کے لئے بھی مشورہ ہے کہ وہ شہباز گل کے معاملے میں محتاط رہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے تو مجھے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ پی ٹی آئی سے اُس کا کوئی تعلق نہیں۔ وہ تو پارٹی کا ممبر بھی نہیں ہے۔