معمولی اہلکار

September 20, 2019

جی تو چاہتا ہے کہ اپنے دوست کالم نگار کا لکھا ہوا کالم دہرا دوں مگر واقعات اس برق رفتاری سے جاری ہیں کہ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔

ہمسائے کی گواہی سب سے معتبر سمجھی جاتی ہے لہٰذا میرے دوست کالم نگار کی ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے میں تحریر کو اس لئے بھی معتبر سمجھا جانا چاہئے کہ دونوں ایک طویل عرصہ تک ہمسائے رہے، سیاسی نظریات میں اختلاف ہو سکتا ہے مگر ہمسائے کی گواہی دیانتداری سے دی گئی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری کا تعلق معاشرے کے عام درمیانے طبقے سے ہے، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، اُنہوں نے بڑے پسماندہ علاقے سے اٹھ کر ناموری کمائی۔

ان کی دین، فلسفہ، قانون، معیشت اور معاشرت پر یادگار تقریریں اور تحریریں ہیں، انہوں نے تعلیم و تبلیغ میں بھی کمال دکھایا، لوگوں کی تربیت کی مگر یہ بھی کڑوا سچ ہے کہ وہ پاکستان کے کرپٹ سیاسی نظام میں مِس فِٹ رہے حالانکہ نظام سدھارنے کے لئے ان کے پاس امرت دھارے جیسا نسخہ تھا مگر ان کے راستے میں کبھی جاگیرداریاں آگئیں تو کبھی عدالتوں کے سائے آگئے، وہ جانیں دینے والوں کو بھی انصاف نہ دلوا سکے، اس میں ان کا قصور نہیں، شاید اس نظام کا قصور ہے جو کالے کو سفید اور سفید کو کالا بنا دیتا ہے۔

نظام کی تبدیلی کی آرزو میں میرے دوست کالم نگار نے لکھ دیا کہ ’’پوری قوم کو ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر جانا چاہئے اور ان سے درخواست کرنی چاہئے کہ وہ سیاست میں واپس آئیں‘‘ ہونا تو ایسا ہی چاہئے، میں نے بھی اپنے پیارے دوست کو فون کیا کہ آپ نے لکھا ہے سو ہم دونوں کو تو ضرور جانا چاہئے۔

سچی بات یہ ہے کہ طاہر القادری سیاست میں شائستگی کے قائل ہیں مگر یہاں اور ہی نظام ہے۔ یہاں کا نظام چور اچکوں کو آگے لے آتا ہے، کرپٹ افراد کو تحفظ دینے کی پوری کوشش کرتا ہے، اگر کوئی حساب کتاب مانگے تو اسے سیاسی انتقام کا نام دے دیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی پہلی نوکری لیکچرار کی حیثیت سے عیسیٰ خیل سے شروع کی، باقی کا سفر آپ کے سامنے ہے، وہ پنجاب یونیورسٹی میں بھی رہے، منہاج القرآن بھی بنایا، بطور وکیل پریکٹس بھی کی، سیاست بھی کی، قومی اسمبلی کے رکن رہے، کوئی وزارت ان کے حصے میں نہ آسکی۔

اب انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔ پاکستانی سیاست میں یہ بھی انوکھا واقعہ ہے ورنہ یہاں تو لوگ آخری دم تک کرسی سے چمٹے رہتے ہیں، سیاست سے چمٹے رہتے ہیں، مر کر ہی ریٹائر ہوتے ہیں۔

دو روز پہلے نیب نے سید خورشید شاہ کو گرفتار کیا۔ اُن پر الزام ہے کہ واپڈا کے اہلکار کی حیثیت سے زندگی کا سفر شروع کرنے والے (پارلیامنٹ شاہ) نے اربوں کھربوں کی جائیدادیں بنائیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو لوگ ان کے ساتھ بھرتی ہوئے تھے، ان میں سے کسی کا گھر بن سکا، کسی کا وہ بھی نہ بنا کیونکہ کئی ایسے تھے جنہوں نے ریٹائرمنٹ کے وقت ملنے والے پیسوں سے بچوں کی شادیاں کیں۔

یہاں بھی ہمسائے کی گواہی کو معتبر سمجھا جانا چاہئے جس روز خورشید شاہ گرفتار ہوئے اسی روز ایک ٹی وی چینل پر مرتضیٰ وہاب کہہ رہے تھے کہ ’’میرے علم میں نہیں ہے کہ وہ میٹر ریڈر رہے ہیں‘‘ جبکہ سکھر سے تعلق رکھنے والے ناصر حسین شاہ فرما رہے تھے کہ ’’خورشید شاہ میٹر ریڈر رہ چکے ہیں‘‘۔

میری نظر میں میٹر ریڈر ہونا کوئی جرم نہیں ہے تاہم ان پر جو الزامات لگائے جاتے ہیں، انہیں ان الزامات کا جواب دینا ہو گا کہ کروڑوں کی جائیدادیں کیسے بنائیں اور ایک سو پانچ اکائونٹ کیوں کھولے گئے؟ اب جب حساب کتاب مانگا جا رہا ہے تو اسے سیاسی انتقام کہا جا رہا ہے۔

الزام تو یہ بھی ہے کہ واپڈا کا ایک معمولی اہلکار ٹریڈ یونین کے راستے سیاست میں داخل ہوا، پھر ممبر اسمبلی بنا اور نجانے کیا کچھ کرتا رہا۔

اس حوالے سے بھی بے شمار کہانیاں ہیں کہ دولت کے انبار کیسے لگائے گئے اور وزارتوں کے دوران پیسے بنانے کی مشینیں مبینہ طور پر کہاں لگی رہیں، مخالفین کی جانب سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بطور اپوزیشن لیڈر حکومت سے تعاون کرنے کی تاویلیں گھڑنے کا عوضانہ لیا۔ اپنے رشتہ داروں کو فٹ کروانے کا الزام بھی ان پر اکثر لگایا جاتا ہے۔

خواتین و حضرات! میں بہت دفعہ سوچتا ہوں کہ انسان کی زندگی کے پہلے پچیس تیس سال اس کی تعلیم اور راستے کے تعین میں گزر جاتے ہیں، اگلے تیس چالیس سالوں کے لئے لوگ کیوں کرپشن کرتے ہیں، کیوں حرام کھاتے ہیں، میرے نزدیک اپنے ملک کا پیسہ لوٹنا، ملک دشمنی ہے، پتا نہیں لوگ محض چالیس سالوں کے لئے ایسا کیوں کرتے ہیں، کیوں اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں، کیوں سیدھے راستے پر نہیں چلتے، جانے کیوں لوگ معمولی اہلکار سے دولت مند وڈیرا بننا چاہتے ہیں، لوگوں کو دولت کی ہوس نے اندھا بنادیا ہے، لوگ اپنے ضمیر سے زیادہ دولت سے محبت کرتے ہیں، مگر یاد رکھنا دولت کی غلامی میں رسوائی کے سوا کچھ نہیں، دولت انسان کو شرمندہ کرواتی ہے، اسے ذلت و رسوائی کے دروازے تک لے جاتی ہے، اسلم گورداسپوری یاد آگئے؎

زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کے لئے

عہدِ کم ظرف کی ہر بات گوارا کر لیں