منڈی بہاؤالدین سے لاہور تک

September 21, 2019

میری جان، میرے محبوب، میرے دلدار، مجھے دراصل زندگی صحت اور بیماری کے درمیان گزارنا پڑ رہی ہے جس سے میرے روز مرہ کا پورا ڈھانچہ اپنے توازن کے محور سے لڑھکتا، پھڑکتا، لرزتا اور گرتا پڑتا رہتا ہے، یہاں مجھے تم سے باتیں کرنے سے پہلے اپنا دوست شعیب بن عزیز یاد آ رہا ہے، لاہور ہی نہیں وہ سارے ملک میں معروف ہے، شاعر ہے اور خوبصورت شاعر، متکلم ہے اور خوبصورت متکلم، پُرمزاح ہے اور نشاطِ دل کا سبب، ایک بار کہنے لگا، یار! مجھے ایسے لوگوں کی سمجھ نہیں آتی ہے جو غربت اور بے چارگی کی چکی میں پستے لوگوں پہ نصیحتوں کا پشتارہ لادنےسے باز نہیں آتے، جو شخص پہلے ہی زندگی کے معاملات میں اگر پہلا قدم اٹھاتا ہے وہ تیسرے قدم تک چلا جاتا ہے، تیسرا پہلے قدم کی طرف لوٹ جاتا ہے اور اسی لڑکھڑاہٹ میں وہ خود کو کسی معقول صورت میں کھڑا رکھنے کی کوشش میں اپنی جان سے جاتا رہتا ہے، اسے کھڑا ہونے کی ہمت تو دے دو، پھر نصیحتوں کا پشتارہ لاد کر اپنی مقدس انانیت کی تسکین بھی کر لینا۔ میری بھی زندگی پیچھے دو برس دو ماہ سے کچھ ایسی ہی تندوتیز لہروں اور مدوجزر کی زد میں ہے، صحت اور بیماری کے درمیانی مراحل میں زندگی گزارتے گزارتے میں تھک بھی جلد جاتا ہوں اور گھبراہٹ بھی مجھے جلد لاحق ہو جاتی ہے، بصورت دیگر یہ کس طرح ممکن ہے میری جان، میرے محبوب، میرے دلدار یہ کیسے ممکن ہے، میں اپنے منڈی بہائوالدین کو 8مئی 2019کے بعد آج 12ستمبر 2019کو یاد کر رہا ہوں!منڈی بہائوالدین تو میری رگِ جاں ہے۔ میں تو اس افریقی قلمکار جس کی کتاب (ROOTS) کا ترجمہ ’’ساس‘‘ کے عنوان سے کیا گیا اور ’’میرا داغستان‘‘ والے رسول حمزہ توف کی طرح صرف تیرا ہی موسیقار، تیرا ہی گیت نگار اور تیری ہی شمع کا پروانہ ہوں! تو تو میرے ذہن کی دلہن ہے یہ جو تجھ سے تقریباً آٹھ میل پیچھے میرا گائوں رتووال جڑا ہوا ہے اسے میں نے اپنے ذہن میں اپنی منگیتر مان رکھا ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ8مئی 2019کو میرے شہر! جب میں نے تجھے یاد کیا تب بات یہاں ختم کی تھی۔ ’’ابھی ابھی میں رتووال کی اس خانقاہ کا ذکر کرتا چلوں جہاں مجھے ہمیشہ کوئی اسرار محسوس ہوئے اور اس سیم وتھور کی یاد دلائوں جہاں مرغابیوں، مگوں، تیتروں کے جھنڈ کے جھنڈ اترتے، ہمارے بزرگ روزانہ صبح انہیں شکار کر کے ایسے لاتے جیسے آج ہم صبح شہروں میں چائے پیتے ہیں!‘‘

تو میں ابھی اپنی منگیتر رتووال کے حسن کی جتنی بھی نزاکتیں اور اٹھکیلیاں بیان کر سکتا ہوں انہیں مکمل کرنے کی آخری کوشش تک جائوں گا۔میری منگیتر یعنی میرے گائوں رتووال سے ہمارا ڈیرہ قریب قریب دو تین میل کے فاصلے پر تھا۔ اس سارے راستہ کے دوران میں میرے ماموئوں اور میرے دوسرے بزرگوں کی زمینیں تھیں، درختوں کے جھنڈ کے جھنڈ تھے، فصلوں کی بہاروں کی لہلہاہٹیں روح کو اپنی حدود سے باہر کئے رکھتیں، کماد کے کھیتوں سے کوئی چوری کا گنا توڑتا زندگی کی سب سے بڑی نیکی محسوس ہوتی۔ درمیان میں ایک نہر آتی جس کی پلی پر کھڑے ہو کے ہم اس میں کودتے، نہاتے، پھر دوبارہ ڈیرے کی طرف روانہ ہو جاتے۔ ادھر ادھر پڑنے والی نظروں کے بیتے سائے اب میری جاں پر آنسوئوں کا آبشار بن کر اتر رہے ہیں، اس آبشار کی شدت نے مجھے پرزے پرزے کر رکھا ہے، گائوں کی جوانیاں جو صبح بھتہ لے کر اپنے اپنے لوگوں کو ناشتہ کرانے گئی تھیں وہ سروں پر سامان اٹھائے، اور کوئی اپنی کسی کچھڑ میں اپنا کوئی بچہ اٹھائے واپس گھروں کو روانہ ہیں تاکہ جب وہ رات کو آئیں تو ان محنت کشوں کو ان کی خوراک کے حق سے محرومی کا احساس نہ ہو!

رتووال میں میں نے اپنی دادی، دادا، باپ اور چچا کو کاشتکاری کرتے دیکھا، ہمارا ڈیرہ گو گھر سے بہت دور تھا مگر جب میں وہاں پہنچ جاتا میری تھکن میرے بچپن کی سرمستیوں میں ڈوب جاتی۔ ایک منظر مونجی بونے کے موسم کا ہے، ابھی تک نہیں بھولتا۔ جب میرے دادا اور رواج کے مطابق دہاڑی پر بلائے دوسرے ساتھی مونجی کی گچھیاں پکڑ کے ایک ایک کر کے وتر زمین میں گاڑتے۔ وتر زمین کا مطلب ہے جسے رات کو یا کسی اور وقت پانی دیا گیا ہو، مجھے اپنے دادا سمیت ان لوگوں کی ایک ایک گچھی مونجی گاڑنے کی محنت بھول نہیں پاتی جس کا نفسیاتی اثر آج بھی 74,73برس کے سعید اظہر کو بے کل کر دیتا ہے جب وہ شوگر ملوں والوں کو گنے والوں کی ادائیگیوں کے معاملے میں من مرضیاں کرتے دیکھتا ہے، میری زمین میں اس ایک ایک گچھی مونجی کے زمین میں گاڑنے کی محنت خون کے آنسو بن کے اتر آتی ہے اور آج بھی انسانی تاریخ کی اس سچائی کو میں بلا کم و کاست بیان کرنا سچائی کی عصمت کی حفاظت کے برابر دیکھتا ہوں کہ واقعی طاقتور، طاقتور ہی ہے چاہے وہ گنے کے کاشتکار کو انتظار کی سولی پہ لٹکا کے موت سے بھی بدتر زندگی میں مبتلا کر دے، چاہے ترس کھا کے اس کا حق محنت ادا کر دے فیصلہ اس کے طاقتور موڈ کا ہے۔

رتو وال ہی کے اردگرد رقص کرتے اور دھمال ڈالتے ہیں۔ رات کے اندھیرے والی لکن میٹی، میرے باپ کا بھینس کے تھن میرے منہ میں دے کر دودھ کے اس نور خدا سے فیض یاب کرنا جسے میرے پیغمبرﷺ نے معراج میں منتخب کیا تھا۔ کھیتوں میں لگی بیرویوں سے بیر توڑنا، دوپہر کو اسکول سے آنے کے بعد دادی کے چرخے میں ان کی نہایت محنت سے بنائے ہوئے کپاس کے پوتیوں سے کھدر بنا کر ’’سخر دوپہر‘‘ اپنے اسکول اور گائوں کے دوسرے ہمجولیوں کے ساتھ کھدر کھیلنے جانا اور ایسے کھیتوں میں کھیلنا جہاں ہل چلے ہوتے تھے، سہاگہ نہیں ہوتا تھا، یہ ’’کھدر‘‘، ’’پونیاں‘‘، ’’ہل اور سہاگہ شدہ زمین‘‘، کھیتوں میں آسمان کو چھوتی بیریاں اور ہنیدو بیروں کے درخت، کنویں کا رہٹ اور اس کی ٹینڈیں، گائوں کی شام، محلے گائوں کی دکانیں، ماسی فاطمہ اور ماسی دانی کے تندور، گائوں کا دائرہ، گائوں کی مساجد اور پھر جو یاد آ جائے، میں یقین کرو اپنی پوری لکھنے والی زندگی میں جو جو یاد آیا، اس رتووال میں سمو دوں گا جب تیرا اور میرا دل بھر جائے گا پھر میری ساری انتظار منڈی میں تیرے چہرے کی زلفوں کے سائے تلے اس داستان گوئی کی یادوں کی حسرت میں ڈوبی ہوئی نشہ آور لذت کا حصول چھوڑوں گا نہیں بس تھوڑا سا انتظار۔