یمن سعودی تنازع

September 21, 2019

روز آشنائی … تنویرزمان خان،لندن
یمنی حوثیوں اور سعودی عرب کا تنازع خاصہ شدت اختیار کرگیا ہے۔ گزشتہ دنوں سعودی آرامکو کمپنی کی تیل کی تنصیبات پر میزائلوں سے حملے کے نتیجے میں تنصیبات کا بڑا حصہ تباہ ہوگیا۔ تنصیبات پر17 میزائل داغے گئے جس کی ذمہ داری یمنی باغی (حریت پسند) حوثیوں نے قبول کی ہے لیکن امریکہ اس بات کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ وہ ایران کو اس کا ذمہ دار قرار دیتا ہےجس سے فی الحال آئندہ چند روز میں اقوام متحدہ کو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ٹرمپ اور ایرانی صدر حسن روحانی کی ملاقات کے امکانات بھی معدوم ہیں۔ سعودی تیل کی پیداوار میں نصف کی کمی واقع ہوچکی ہے گوکہ اب سعودی عرب نے تیل مارکیٹ میںاپنی اس بگڑتی ساکھ کو بچانے کیلئے چند روز میں پیداوار کے معمول پر آنے کے دعوے تو کئے ہیں لیکن دنیا میں تیل کی بیس فیصد کے اضافے کے اندازے لگائے جارہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت سعودی عرب کا دفاعی بجٹ فی کس آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا بجٹ ہے جب کہ سعودیہ کی اپنی فوج سوا دو لاکھ ہے۔ پاکستان، امریکہ اور دیگر کئی ممالک کی فوج اس کے علاوہ ہے، اس وقت امریکہ اور چین کے بعد دنیا میں تیسرے نمبر پر سب سےبڑا دفاعی بجٹ سعودی عرب کا ہے جب کہ یمنی باغیوں کے پاس ان کے مقابلے میں بہت چھوٹے درجے کے ہتھیار ہیں۔ دنیا یہی کہتی ہے کہ امریکہ نے سعودی عرب کے ساتھ اتنے مہنگے اور بڑے بڑے دفاعی معاہدے کر رکھے ہیں۔ پھر بھی اتنا بڑا دفاعی نیٹ ورک تنصیبات کو یمنی حوثیوں کے حملے سے نہ بچا سکا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کئی تجزیہ نگار ان حملوں کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ بھی قرار دیتے ہیں کیونکہ تاریخ میں ایسا ہوتا آیا ہے کہ سعودیہ جب بھی اس طرح کے خطرات کی صورتحٓال میںمبتلا ہوا ہے۔ اسی وقت امریکہ نے مزید دفاعی معاہدے کئے ہیں اور بڑے بڑے بل وصول کئے ہیں۔ حوثیوں کے حالیہ حملے نے سعودی عرب کو خوفزدہ ضرور کیا ہے اور آرامکو کے دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے امکانات پر دنیا سوالیہ نشان لگانے لگی ہے۔ حوثیوں کے پاس گزشتہ تھوڑے عرصے میں 15 سو کلومیٹر تک مار کرنے والے میزائل آچکے ہیں تاہم سعودی اور حوثی مسلسل حالت جنگ میں ہیں بلکہ ایران نے حوثیوں کا سعودیہ پر جوابی حملہ قرار دیا ہے۔ ایران کا موقف ہے کہ گزشتہ چند برس میں سعودیہ نے یمن پر کئی سو حملے کئے ہیں، اسلئے حوثیوں کو اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے۔ اسلئے اگر حوثیوں نے حملہ کیا ہے تو اپنے دفاع میںکیا ہوگا۔ امریکہ اس وقت ایران کو ذمہ دار قرار دے رہا ہے لیکن فوری طور پر ایران کے خلاف کسی کارروائی سے بھی گریز کررہا ہے جس کی بنیادی وجہ پورے خطے میں ممکنہ طور پر جنگ کی آگ بھڑک اٹھنے کا امکان ہے۔ یہ سعودی، یمن تنازع 2004میں شروع ہوا۔ جب یمنی صدر علی عبداللہ صالح کو سعودی عرب نے حوثی کمیونٹی کو کریش کرنے کیلئے 20 ارب ڈالر دیئے۔ حوثی شیعہ کمیونٹی ہے اور یمن کی آبادی کا 45فیصد ہے جب کہ اکثریت میں 55فیصد سنی ہیں۔ حوثیوں کو ہمیشہ سے ایران کی مدد حاصل ہے۔ حوثیوں کا عام نعرہ ہے کہ خدا سب سے بڑا ہے۔ امریکہ مردہ باد، اسرائیل مردہ باد اور آخری فتح اسلام کی ہوگی۔ حوثیوں کی 2014 سے منصور ہادی کے ساتھ اقتدار کی جنگ چل رہی ہے۔ اس وقت دونوں ہی یمن کے اپنی اپنی حکومت کے دعوے دار ہیں۔ سعودی عرب ہادی حکومت کے ساتھ ہے۔ یاد رہے یمن کی 85 فیصد معیشت تیل کی برآمدات پر منحصر ہے۔ یمنی بہت پسماندہ لوگ ہیں جن کی زیادہ تر آبادی دیہی اور قبائلی ہے۔ یمن کی آبادی گزشتہ 70 سال میں 43 لاکھ سے بڑھ کے تین کروڑ پر پہنچ چکی ہے۔ بہت کم عورتیں ہیں جن کے پانچ سے کم بچے ہوں۔ اسی لئے اس وقت یمن میں نصف آبادی پندرہ سال سے کم عمر بچوں پر مشتمل ہے۔ ادھر سعودی عرب میں دہشت گردی کے خلاف فوجی اتحاد جس کی قیادت پاکستان کے سابق کمانڈر راحیل شریف کررہے ہیں۔ امریکہ کی ایران کی طرف انگلی اٹھانے کو قبل از وقت قرار دے رہے ہیں اور ابھی مزید تحقیقات کا تقاضا کررہے ہیں۔ اس اتحادی فوج کی تمام اوپر کی قیادت سعودی عرب سے تنخواہ کے نام پر بھاری رقوم جیبوں میںڈال رہی ہے۔ سعودی عرب اس وقت ان پر نمک حلال کرنے کیلئے دباؤ ڈال رہاہے۔ یمن کے علاقے مختلف فورسز کے ہاتھوں شدید تقسیم کا شکار ہیں۔ ہادی کے زیر کنٹرول خطہ، حوثیوں کے زیر کنٹرول خطہ، القاعدہ کے زیر کنٹرول خطہ، داعش (اسلامک سیٹیٹ آف عراق) اور کچھ علاقہ غیر وابستہ قوتوں کے زیر کنٹرول ہے۔ اس لحاظ سے یمن میں داخلی طور پر بھی شدید کشیدہ صورتحال ہے۔ امریکہ اور طاقتور ممالک اس تقسیم سے ہمیشہ فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ امریکہ کی پالیسی تو ایسے تنازعات کو برقرار رکھنا ہے۔ سعودی عرب بھی خود کا انحصار امریکہ پر رکھتا ہے اور اردگرد خطوں میں اپنا اثر و کنٹرول قائم کرنے کیلئے امریکہ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔