ہزاروں سال کی غلامی اورموجودہ جمہوریت

September 21, 2019

محمد نذرکیانی۔ ۔ہیلی فیکس
تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ غلامی جابر اور خود پسند لوگوں کی ایجاد ہے زمانہ قدیم سے کرۂ ارض پر چاہے کسی بھی مذہت کے وہ پیروکار تھے وہ زور بازو سے بادشاہ بن کر حکمرانی کرتے رہے۔ برصغیر پر پہلے پہل ہندو حکمران بادشاہ کے تخلص سے حکمرانی کرتے رہے۔ حکمرانی میں جب عوام سے بے انصافیاں ہوں تو قوموںپر زوال آجاتا ہے اور یہی کچھ ہندو حکمرانوں کے ساتھ شہاب الدین غوری نے کیا۔ مسلمان اقتدار میں تو آگئے مگر انہوں نے ملک کا نام نہیںبدلا کیا عجیب تھا کہ وہ اس ملک کا نام بدل کر اسلامستان یا اس طرح کا نام رکھ سکتے تھے، پھر اس لمبی مسلم حکمرانی کے پائوں پسھلے تو انگریز راج مسلط ہوگیا۔ انگریزوں نے انصاف کے نام پر حکمرانی شروع کی مگر سونے کی چڑیا کو کندچھری سے ذبح کرکے اپنے حقیقی وطن جنت نظیر پہنچ گئے۔ حقیقت تو یہ ہے جب کوئی شخص کسی ملک کو اپنے عقل و جرات سے فتحکرکے حکمرانی کرتا ہے تو یہ قصور اس فاتح حکمران کا نہیںہوتا بلکہ یہ جرائم اس قوم کے ذمے لگتے ہیں جو غیروں کو اپنے وطن پر مسلط کرتے ہیں۔ انگریز جیسے تیسے ہندوستان پر حکومت کررہے تھے تو ہندوئوں اور مسلمانوں نے مل کر ان کے پائوںاکھاڑے۔ بے پناہ مالی جانی قربانیوں کے بعد انگریزوں کے فارغ ہوتے ہی پہلی ہی صبح ایک دوسرے کو قتل و غارت شروع کردی جو انسانیت سوز عمل تھا وطن کی آزادی کا مطلب قتل و غارت اور نفرت پھیلانا نہیںتھا بلکہ ملک کو خوش حالی دنیا میں اعلیٰ عزت و وقار سے رہتے تو آج اتنی بڑی دنیا میںہندوستان ایک نمایاں خوش حال ملک ہوتا۔ ہندو مسلم آبادی نے ایک دوسرے کو برداشت نہیںکیا۔ انگریزوںکو اقتدار سے فارغ کرنے میںہندو مسلم طبقات ہم خیال تھے۔ انگریزی راج کے مخالف ہندو مسلمان پھانسیوں میںسزایاب ہوئے، کالے پانی کی سزائیں پائیں، انڈین نیشنل آرمی میں شامل ہوکر ملک بدر ہوئے۔ اس ساری دھینگامشتی کے بعد جب آزادی ملی تو وہ ہندو مسلم آباد کو ہضم نہ ہوئی اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لئے ٹوکے چھرے تیار کرلئے۔ ہندوستان میںپیدا ہونے والے قابل رحم مردوں اور نہایت باعزت خوبصورت دانا چھوئی موئی خواتین کے ساتھ بدترین شرمناک سلوک کیا گیا جیسے ان روحوں کا وطن ہند کی زمین پر زندہ رہنا حق نہ تھا۔ یہ شرمناک، ہیبت ناک اور ظالمانہ سلوک ہم سب نے کیا۔ اپنے ان احمقانہ سلوک پر نگاہ ڈالیں تو ہم اس دور کی بدروحوں کی نشانی ہیں جو آج بھی دنیا میں اس لئے بری نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں کیونکہ آزادی سے قبل جو کچھ ہوا وہ تاریخ کے پاس تو محفوظ ہے مگر ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے مگر آزادی کے ان72سالمیں ہم نے کون سے دلکش پھول کھلائے ہیں۔ ہندوپاک کے حکمرانوں نے اپنے عوام کو بھوک و افلاس کے غار میں پھینکا۔ مان لیا ہندوستان کے ہندوئوں کے اپنے رسم و رواج ہیں مسلمانوںکا اپنا ایک خدا ہے۔ اس لئے یہ مطلب تو نہیںہم ایک دوسرے کی زندگی ختم کرنے کے لئے دوسرے طاقتور ملکوںسے ہتھیار خرید کر اپنے عوام کو عزت کی زندگی سے محروم کریں۔ ہندوستان ایک عظیم ملک ہے اسی طرح پاکستان ایک مضبوط ملک ہے اور نظریاتی طور پر اسے دنیا میں ابھرنا چاہئے مگر دونوں ملک عقلمندی سے نہیں بلکہ انتہائی نفرت سے آمنے سامنے دشمن رویہ اپنا کر رہنا چاہتے ہیں۔ ہمارے اس قومی رویئے سے بیرون ملک لوگ ہندو و پاک کے لوگوں سے نفرت کرتے ہیں۔ نریندر مودی صاحب کو اگر حکمرانی کا شوق ہے تو بڑی اچھی بات ہے مگر یہ کیا تک ہے کہ اکسیویں صدی میںوہ مسلمانوں سے انتہائی نفرت سے حکمرانی کرنا چاہتا ہے۔ ایسے لوگوںکو حکمرانی کا حق نہیں ملنا چاہئے۔ سرحدوں پر کئی وجوہات پر جنگ ہوجاتی ہے جسے اچھے حکمران کنٹرول کرلیتے ہیں، آخر امن میںہی عزت ہے۔ آج جدید دور ہے لوگ جمہوری اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں یہ کیا عقلمندی ہے کہ ہر دس سال بعد خطرناک ہتھیاروں اور بموں سے اپنے عوام کی خدمت کی جاتی ہے۔ کتنی شرمناک بات ہے ہمارے فوجی ایک دوسرے کی عزت دور خواتین کی عصمت دری کرتے ہیں، نوجوان بچوں کو خوبصورت زندگی دینے کے بجائے ان کی زندگی چھینتے ہیں۔ ایک عام آدمی اگر اقتدار پر براجمان لوگوں کو عقل کا ٹیکہ نہیںلگا سکتا تو کم از کم امن اور عقلمندی کا مشورہ دینے میںکوئی حرج نہیں۔ کم عقل اور ظالم لوگ ہی خوبصورت زندگی کے دشمن ہوتے ہیں۔ عقل مند امن اور انسانیت پسند لوگ ایک دلربا اور خوشبو کی طرح انسانی زندگی کو تقویت دیتے ہیں۔ جس طرحپاکستان کے عوام نریندر مودی کو برا سمجھتے ہیںاسی طرح ہندو عوام پاکستانی حکمرانوں کو درندہ سمجھتے ہیں۔ ایسا بیر تو حیوانوں کے درمیان ہوتا ہے ہاںجنگ کا ہی شوق ہے اور مانگے تانگے کے ہتھیاروں کو غریب انسانوں پر استعمال کرنے کا شوق پورا کرنا ہے تو جلدی کریں دیر نہ کریں تاکہ تباہ کاریوں کو پسند کرنے والوںکا شوق پورا ہو ’’نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری‘‘ اور یہ نہ بھولیں کہ تاریخ رہتی دنیا کو حقائق بتاتی ہے کہ اللہ کی زمین پر کون اچھا تھا اور کون برا تھا۔ سوچنے سمجھنے والے انسان انڈوپاک کے حکمرانوں کو مشورہ پیش کرتے ہیں کہ حل طلب مسائل پر باربار بحث و مباحثہ کریںاور امن پسندی کا شیریں زبان سے فیصلہ کریں آگ تو جلانے اور خاک میں ملانے کیلئے ہوتی ہے۔