آہ … ثریا شہاب

September 21, 2019

تحریر: سید اقبال حیدر ۔ فرینکفرٹ
ثریا شہاب نے اپنے صحافتی اور ادبی سفر کا آغاز ساٹھ کی دھائی میں کیا،کم عمری میں ہی تہران چلی گئیں اور وہاں ریڈیو تہران سے پروگرام کیا اور اسی پروگرام نے انھیں مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ان کا جملہ میرے اپنے گھر کے ہرچھوٹے بڑے کی زبان پر تھا ۔۔آواز کی دنیا کے دوستو۔۔۔یہ ریڈیو ایران ۔۔۔زاہدان ہے۔کئی برس ایران میں رہیں پھر 73 میں پاکستان آ کر PTV پر خبریں سنائیں اور ان کا یہ انداز بھی ناظرین نے بہت پسند کیا80کی دھائی میں لندن منتقل ہوئیں اور بی بی سی اردو سروس کے لئے کام کیا لگ بھگ 10برس انگلینڈ میں قیام رہا ،صحافت میں ماسٹرز کی ڈگری کی90 کی دھائی میں جرمن نشریاتی ادارے کے ساتھ کام کا محاہدہ کیا۔ وہیں جرمن صحافیHans سے ملیں اور شادی کے بندھن میں بندھ کر جرمنی آ گئیں، جرمنی میں قیام کے دوران ثریا شہاب کیمونٹی میں اپنی ہمدرد طبیعت کے سبب دنوں میں مقبول ہو گئیں،ہر کسی کی تکلیف پر تڑپ جاتیں۔ایک جمیل نامی پاکستانی کینسر کے مرض میں مبتلا سپین سے فرینکفرٹ آیا،بہت کمزور ،لاغر ہونے کے سبب PIA نے اسے پاکستان کے لئے سفر نہ کرنے دیا،ثریا شہاب نے راشد غوری ،شیخ مظفر اور کچھ حضرات سے مل کر جمیل کی مددکرنے کی مہم چلائی، انہی دنوں جمیل کا فرینکفرٹ ہسپتال میں انتقال ہوگیا،اب اس کی میّت پاکستان بھجوانے میں ثریا شہاب نے دن رات ایک کر دیا،چندہ کر کے سارے انتظامات کئے آخر اس کی میّت لیجانے والے PIA کے جہاز کو ڈبڈباتی آنکھوں کے ساتھ اس وقت دیکھتی رہیں جب تک وہ آنکھوں سے اوجھل نہ ہو گیا۔ ثریا کا خواب تھا کہ جرمنی میں ادبی سرگرمیاں شروع ہوں،میں ان دنوں فرینکفرٹ سنٹرل ریلوے اسٹیشن کے بالمقابل PIA کے ریزرویشن آفس میں کام کرتا تھا ،ثریا گاڑی ڈرائیو نہیں کرتی تھیں،ٹرین پر آ جاتیں اور میرے ساتھ آفس میں مشاعروں اور ادبی سلسلوں کے شروع کرنے کا پروگرام بناتیں،پھر مظفر شیخ،طارق پرویز اختر،ارشاد ہاشمی ،عطاءالرحمن اشرف اور کچھ دوستوں نے مل کرحلقہ ٔ ادب جرمنی کی بنیاد رکھی،اس کا ایک ہی عہدہ تھا ،سیکرٹری کا اور پہلی سیکرٹری ثریا شہاب تھیں،ثریا کے پاکستان جانے کے بعد مظفر شیخ مرحوم اوردوستوں نے یہی ذمہ داری مجھے دی جو آج تک نبھا رہا ہوں، حلقہ ٔ ادب جرمنی نے بہت ادبی سلسلے شروع کئے جن میں افسانے،جگ بیتی،شعروشاعری پر تنقید اور گفتگو ہوتی، میری غزلوں کے مجموعے ’’میرے دل کے آس پاس‘‘ کی تقریب رونمائی بھی فرینکفرٹ میں ثریا شہاب نے رکھی جس میں پہلی مرتبہ ثریا کی دعوت پر بخش لائلپوری،سدھا شرما،اعجاز احمد اعجاز،حیدر طباطبائی،اسد مفتی تشریف لائے،یہ بہت ہی جاندار ادبی پروگرام تھا جس کی نظامت بھی ثریا نے ہی کی،ایک اور بڑا عالمی مشاعرہ جرمنی میں علامہ اقبال کے شہر ہائیڈل برگ میں چوہدری شفیق اور چوہدری رفیق کے تعاون سے ثریا نے رکھاجس میں باصر کاظمی،یشب تمنا،فیضان عارف اور بہت معروف شعراء شریک ہوئے مگر مشاعرے سے چند روز پہلے کینسر کے موزی مرض نے ثریا کو ہسپتال پہنچا دیا،میرے بے پناہ اصرار پر اور ثریا کی خواہش پرچوہدری شفیق ثریا کو دو گھنٹے کے لئے ہسپتال سے لائے اور وہ نقاہت کے ساتھ سٹیج پر بیٹھی رہیں اور غالباً وہ ثریا کی جرمنی میں آخری ادبی بیٹھک میں شرکت تھی مشاعرے کی صدارت کے لئے سفیر پاکستان حنیف گل برلن سے لمبا سفر کر کے ہائیڈل برگ آئے تھے۔ میں نے اور ثریا شہاب نے جرمنی کی نمائیندگی کرتے ہوئے انگلینڈمیں کئی مشاعرے پڑھے ان میں سے ایک یادگار عالمی مشاعرہ راچڈیل چوہدری انور اور ایک مشاعرہ حضرت شاہ کے زیراہتمام بریڈفورڈ میں تھا۔ثریا شہاب نے جرمنی میں اردو ادب کے فروغ کے لئے دن رات کام کیااور انتہائی لگن کے ساتھ کیمونٹی کے پروگراموں اور محافل میں شرکت کے لئے دوردراز کے تھکا دینے والے سفر بھی کرتی تھیں۔ آپ نے اردو زبان کی ترقی و ترویج کے لئے جو کام پاکستان،ایران،انگلینڈ اور جرمنی میں کیا اس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی،جرمنی میں قیام کے دوران روزنامہ جنگ میں ثریا کی تحریریں لوگ شوق سے پڑھتے تھے۔1999میں کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہو گئیں۔جرمنی میں قیام کے دوران سب بچوں بالخصوص بیٹے خالدکا اکثر ذکر کرتی تھیں،جرمنی میں کینسر کا بہت علاج کیا،فیزیوتھراپی کے لئے ہسپتال کے چکر لگاتی تھیں آخر بیٹے کے اصرار پر پاکستان چلی گئیں،وہاں ۔۔۔۔کینسر کے ساتھ ساتھ الزائمر۔کی بیماری نے بھی حملہ کر دیا شروع شروع میں ہم قریبی دوستوں کے رابطے میں رہیں اور آہستہ آہستہ یہ رابطے بھی معدوم ہو گئے۔ مظفر شیخ،طارق پرویز اختر،ارشاد ہاشمی اور راقم الحروف اور بہت سے دوستوں نے اسلام آباد ان سے ملاقات اور عیادت کی جس پر انھیں بہت خوشی ہوتی تھی۔آخر پچھلے ہفتہ تکلیف دہ خبر سننے کو ملی کہ پسماندگان میں دو بیٹے اور ایک بیٹی کو چھوڑ کرثریا شہاب75 برس کی عمر میں اسلام آباد کے قبرستان کی مٹی اوڑھ کر سو گئی ہیں،یہ خبر ہم دوستوں پر بجلی بن گری،میں سوچتا رہ گیا کہ اب’’آواز کی دنیا کے دوستو‘‘یہ آواز منوں مٹی کے نیچے دفن ہو گئی۔۔پھر محسوس ہوا کہ یہ آواز تو ابھی بھی آرہی ہے،ثریا شہاب مری نہیں بلکہ اپنے چاہنے والوں میں ابھی زندہ ہے۔