پولیو سے بچاؤ کا عالمی دن

October 24, 2019

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں پولیو سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جارہا ہے، جس کا مقصد پولیو کے بارے میںآگاہی دینا اور دنیا کے تمام حصوں سے پولیو وائرس کے مکمل خاتمے کیلئے کوششیں کرنا ہے۔ عالمی ادارہ صحت اورروٹری انٹرنیشنل نے1988ء میں عالمی سطح پر پولیو کے خاتمے کے اقدام (GPEI) کا آغاز کیا، اس وقت 125ممالک میں پولیو کے تقریباً 3لاکھ 50ہزار کیسز تھے۔ تاہم، 2013ء تک جی پی ای آئی نے دنیا بھر سے 99فیصد پولیو کا خاتمہ کردیا تھا۔

اگرچہ، 2013ء تک زیادہ تر ممالک کو پولیو سے پاک قرار دے دیا گیا تھا مگر تین ممالک جن میں پاکستان، نائیجیریا اور افغانستان شامل ہیں، اس مرض سے مکمل چھٹکارا حاصل کرنے میں ناکام رہے اور یہ جدوجہد تاحال جاری ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے کسی بھی حصے میں اب بھی اس بیماری کے دوبارہ ظاہر ہونے کا خطرہ مستقل موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال پولیو سے بچاؤ کے عالمی دن کے موقع پر پولیو وائرس کے مکمل خاتمے کیلئے مختلف پروگراموں کے ذریعے ویکسینیشن، آگاہی اور فنڈز اکٹھا کرنے کے حوالے سے عمومی بیداری پیدا کی جاتی ہے۔

پولیو ایک متعدی مرض

پولیو اپاہج کردینے والی مہلک متعدی بیماری (Infectious disease)ہے۔ طبی زبان میں سے اسے پولیومیلائٹس (Poliomyelitis) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس بیماری میں مہلک ’پولیو وائرس‘ عام طور پر 5سال سے کم عمر کے بچوں کو متاثر کرتا ہے، اسی وجہ سے اسے انفینٹائل فالج (Infantile paralysis) بھی کہا جاتا ہے۔ پولیو وائرس بنیادی طور پر اعصابی نظام پر اثر انداز ہوتا ہے ، جس سے انسان کی ایک ٹانگ کمزور ہوجاتی ہے اور وہ زندگی بھر لنگڑا کر چلتا ہے۔ غیر معمولی کیسز میں گردن یا سر کے پٹھے بھی متاثر ہو سکتے ہیں جبکہ صرف 0.5٪ فیصد کیسز میں انسان مستقل طور پر مفلوج ہو جاتا ہے۔

اس بیماری کا کوئی علاج نہیں لیکن کم عمری میں محفوظ اور مؤثر ویکسین کے ذریعے اس بیماری میںمبتلا ہونے سے بچا جاسکتا ہے۔ پانچ سال کی عمر تک پولیو ویکسین کئی بار دی جاتی ہے ، جو ہمیشہ بچے کی اس مرض میںمبتلا ہونے سے حفاظت کرتی ہے۔ جب تک پولیو وائرس کی منتقلی (ٹرانسمیشن) بند نہ ہو اور دنیا پولیو سے پاک نہ ہوجائے، تب تک اس کے خاتمے کی حکمت عملی کے طور پر ہر بچے کو حفاظتی ٹیکے یا ویکسین پلاکر انفیکشن کی روک تھام کرنا ضروری ہے ۔

پاکستان میں پولیو کی صورتحال

خوش قسمتی سے گذشتہ دو دہائیوں کے دوران دنیا بھر میں پولیو کے ریکارڈ شدہ کیسز کی مجموعی تعداد میں زبردست کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ تاہم افغانستان، پاکستان اور نائیجیریا کے کچھ انتہائی پسماندہ طبقات اور غریب ترین لوگ اس متعدی بیماری سے ابھی بھی متاثر ہورہے ہیں۔ نائیجیریا کیلئے یہ بات خوش آئند ہے کہ وہاں گزشتہ تین سال سے پولیوکا کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا۔ پاکستان میں بھی پولیو کے خاتمے کے حوالے سے کافی کام کیا گیا ہے، جس کے باعث پولیو کیسز میںکمی واقع ہوئی ہے لیکن ابھی بھی صورتحال زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔

رواں سال اب تک پاکستان میں پولیو کے76 کیسز (خیبرپختونخوا 56، سندھ 8، پنجاب8 اور بلوچستان7) رپورٹ ہوچکے ہیں۔ والدین کی جانب سے بچوں کو پولیو ویکسین نہ پلانا اس وائرس کے سراٹھانے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ حکومت پاکستان اور مختلف فلاحی اداروں نے بارہا والدین کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ پولیو کے قطرے مکمل طور پر محفوظ ہیں اور وہ کسی بھی ایسے گمراہ کن پروپیگنڈے پر کوئی دھیان نہ دیں، جس سے اس عمل کی حوصلہ شکنی ہوتی ہو۔

درپیش مشکلات کے باوجود حکومت نے پولیو کے مکمل خاتمے کیلئے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیا ہوا ہے لیکن والدین اور معاشرے کے تمام طبقات کو بھی اس متعدی مرض سے چھٹکارا پانے کیلئے لازمی تعاون کرنا ہوگا تاکہ معاشرے کے انتہائی پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والا آخری بچہ بھی پولیو ویکسینیشن سے محروم نہ رہے۔

پولیو کے خاتمے کی کوششیں

دنیا کے ہر بچے کو پولیو ویکسین فراہم کرنے کیلئے اربوں ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں مختلف فنڈ ریزنگ ایونٹس کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ روٹری انٹرنیشنل کے علاوہ بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن بھی دنیا سے پولیو کے خاتمے کیلئے کام کررہی ہے۔ دو ماہ قبل بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے سربراہ بل گیٹس نے بذریعہ خط وزیراعظم عمران خان سے پاکستان میں پولیو کے بڑھتے ہوئے کیسز پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

انھوں نے یہ بھی لکھا کہ انسداد پولیو کیلئے پاکستان سے تعاون جاری رہے گا۔ بل گیٹس نے پولیو کے خاتمے کیلئے کوششیں کرنے پر حکومت پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ وزیراعظم عمران خان کی قائدانہ صلاحیتوں کے تحت ہم بہت جلد پولیو فری پاکستان کا جشن منائیں گے۔

حال ہی میں انسداد پولیو پروگرام پاکستان کی یہ ایک بڑی کامیابی ہے کہ 100 سے زائد مفتیان کرام نے پولیو ویکسین کے حق میں فتویٰ دیا ہے، جن کی اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی تصدیق کردی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کاکہنا ہے کہ منفی پروپیگنڈا پولیو کے خاتمے میں بڑی رکاوٹ اور والدین کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کا باعث ہے۔

پولیو سے بچاؤ کے عالمی دن کے موقع پر ہمیں ان محنتی پولیو ورکرز کی بھی قدر اور تعریف کرنی چاہیے جو موسم کی سختی کے باوجود دور دراز علاقوں میں جاکر بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتے ہیں۔ سینکڑوں پولیو ورکرز اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران پست ذہن لوگوں کی جانب سے حملوںکے دوران اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم ملک بھر سے پولیو کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ہم قریب تو پہنچ چکے ہیں لیکن ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔