اصلاحِ مُعاشرہ اور تعمیرِ شخصیت

November 10, 2019

مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ؒ

آپ ﷺنے ایمان ، اخلاق اور عمل کے حسین امتزاج سے ایک بے مثال انسانی معاشرہ قائم فرمایا

دنیا جانتی ہے کہ سرورِ کائنات حضرت محمد ﷺ انسانیت کے اس برگزیدہ گروہ سے تعلق رکھتے ہیں ، جو قدیم ترین زمانے سے نوع انسانی کو خدا پرستی اور حسن اخلاق کی تعلیم دینے کے لیے اٹھتا رہاہے ۔ ایک رب کی بندگی اور پاکیزہ اخلاقی زندگی کا درس جو ہمیشہ سے اللہ کے پیغمبر دیتے رہے ہیں،وہی آنحضرتﷺ نے بھی دیاہے ۔ آپؐ نے کسی نئے خدا کا تصور پیش نہیں کیا اور نہ ہی کسی نرالے اخلاق ہی کا سبق دیا ہے جوان سے پہلے رہبران انسانیت کی تعلیم سے مختلف ہو ۔ پھر سوال یہ ہے کہ آپؐکا وہ اصلی کارنامہ کیاہے جس کی بناء پر ہم انہیں انسانی تاریخ کا سب سے بڑا آدمی قرار دیتے ہیں ؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بے شک، آنحضرتﷺ سے پہلے انسان خدا کی ہستی اور اس کی وحدانیت سے آشنا تھا ، مگر اس بات سے پوری طرح واقف نہ تھا کہ اس فلسفیانہ حقیقت کا انسانی اخلاقیات سے کیا تعلق ہے ۔ بلاشبہ، انسان کو اخلاق کے عمدہ اصولوں سے آگاہی حاصل تھی ، مگر اسے واضح طور پر یہ معلوم نہ تھا کہ زندگی کے مختلف گوشوں اور پہلوئوں میں ان اخلاقی اصولوں کی عملی ترجمانی کس طرح ہونی چاہیے ۔ خدا پر ایمان ، اصول اخلاق اور عملی زندگی ۔ یہ تین الگ الگ چیزیں تھیں جن کے درمیان کوئی منطقی ربط ، کوئی گہرا تعلق اور کوئی نتیجہ خیز رشتہ موجود نہ تھا ۔ یہ صرف حضرت محمدﷺ ہیں جنہوں نے ان تینوں کو ملا کر ایک نظام میں سمو دیا اور ان کے امتزاج سے ایک مکمل تہذیب و تمدن کا نقشہ محض خیال کی دنیا ہی میں نہیں، بلکہ عمل کی دنیا میں بھی قائم کر کے دکھادیا ۔

آپ ؐ نے بتایا کہ اللہ پر ایمان محض ایک فلسفیانہ حقیقت کے مان لینے کا نام نہیں ہے، بلکہ اس ایمان کا مزاج اپنی عین فطرت کے لحاظ سے ایک خاص قسم کے اخلاق کا تقاضا کرتاہے اور اس اخلاق کا ظہور انسان کی عملی زندگی کے پورے رویے میں ہونا چاہیے ۔ ایمان ایک تخم ہے جو نفس انسانی میں جڑ پکڑتے ہی اپنی فطرت کے مطابق عملی زندگی کے ایک پورے درخت کی تخلیق شروع کر دیتاہے اور اس درخت کے تنے سے لے کر اس کی شاخ شاخ اور پتی پتی تک میں اخلاق کا وہ جیون رس جاری و ساری ہو جاتاہے کہ جس کی سو تیں تخم کے ریشوں سے ابلتی ہیں ۔

جس طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ زمین میں بوئی تو جائے آم کی گٹھلی اور اس سے نکل آئے لیموں کا درخت ۔ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ دل میں بویا تو گیا ہو خدا پرستی کا بیج اور اس سے رونما ہو جائے ایک مادہ پرستانہ زندگی جس کی رگ رگ میں بد اخلاقی کی روح سرایت کیے ہوئے ہو ۔ خدا پرستی سے پیدا ہونے والے اخلاق اور شرک ، دہریت یا رہبانیت سے پیدا ہونے والے اخلاق یکساں نہیں ہو سکتے ۔ زندگی کے یہ سب نظریے اپنے اپنے الگ مزاج رکھتے ہیں اور ہر ایک کا مزاج دوسرے سے مختلف قسم کے اخلاقیات کا تقاضا کرتا ہے ۔

پھر جو اخلاق خدا پرستی سے پیدا ہوئے ہیں وہ صرف ایک خاص عابد و زاہد گروہ کے لیے مخصوص نہیں ہیں کہ صرف خانقاہ کی چار دیواری اور عزلت کے گوشے ہی میں ان کا ظہور ہو سکے ۔

ان کا اطلاق وسیع پیمانے پر پوری انسانی زندگی اور اس کے ہر پہلو میں ہونا چاہیے ۔ اگر ایک تاجر خدا پرست ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی تجارت میں اس کا خدا پرستانہ اخلاق ظاہر نہ ہو ۔ اگر ایک جج خدا پرست ہے تو عدالت کی کرسی پر ، اور ایک پولیس مین خدا پرست ہے تو پولیس پوسٹ پر اس سے غیر خدا پرستانہ اخلاق ظاہر نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح اگر کوئی قوم خدا پرست ہے تو اس کی شہری زندگی میں ،اس کے ملکی انتظام میں ، اس کی خارجی سیاست میں اور اس کی صلح و جنگ میں خدا پرستانہ اخلاق کی نمود ہونی چاہیے، ورنہ اس کا ایمان باللہ محض ایک لفظ بے معنی ہے ۔

اب رہی یہ بات کہ خدا پرستی کس قسم کے اخلاق کا تقاضا کرتی ہے اور ان اخلاقیات کا ظہور کس طرح انسان کی عملی زندگی میں اور انفرادی و اجتماعی رویے میں ہونا چاہیے ، تو یہ ایک وسیع مضمون ہے جسے ایک مختصر گفتگو میں سمیٹنا مشکل ہے مگر نمونے کے طور پر رسول اکرمﷺ کے چند ارشادات پیش خدمت ہیں، جن سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ آنحضرت ﷺ کے مرتّب کیے ہوئے نظام زندگی میں ایمان ، اخلاق اور عمل کا امتزاج کس نوعیت کا ہے ۔ آپﷺ فرماتے ہیں :

٭۔ایمان کے بہت سے شعبے ہیں، اس کی جڑ یہ ہے کہ تم خدا کے سوا کسی کو معبود نہ مانو اور اس کی آخری شاخ یہ ہے کہ راستے میں اگر تم کوئی ایسی چیز دیکھو جو بندگا ن خدا کو تکلیف دینے والی ہو تو اسے ہٹا دو اور حیا بھی ایمان ہی کا ایک شعبہ ہے ۔

٭ ۔ جسم و لباس کی پاکیزگی آدھا ایمان ہے ۔

٭۔مومن و ہ ہے جس سے لوگوں کو اپنی جان و مال کا کوئی خطرہ نہ ہو ۔

٭ ۔اس شخص میں ایمان نہیں ہے جس میں امانت داری نہیں اور وہ شخص بے دین ہے جو عہد کا پابند نہیں۔

٭ ۔جب نیکی کر کے تجھے خوشی ہو اور برائی کر کے تجھے پچھتاوا ہو تو تو مومن ہے ۔

٭۔ایمان تحمل اور فراخ دلی کا نام ہے ۔

٭ ۔ بہترین ایمانی حالت یہ ہے کہ تمہاری دوستی اور دشمنی خدا کے واسطے کی ہو ۔تمہاری زبان پر اللہ کا نام جاری ہو اور تم دوسروں کے لیے وہی کچھ پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتےہو اور ان کے لیے وہی کچھ ناپسند کرو جو اپنے لیے ناپسند کرتےہو ۔

٭ ۔تم میں سب سے زیادہ کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں اور جو اپنے گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک میں سب سے اچھے ہیں اور جو اپنے گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک میں سب سے بڑھا ہوا ہے ۔

٭ ۔جو شخص خدا اور آخرت پر ایمان رکھتاہو ، اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہیے ۔ اپنے ہمسائے کو تکلیف نہیں دینی چاہیے اور اس کی زبان کھلے تو بھلائی پر کھلے ، ورنہ چپ رہے ۔

٭۔مومن کبھی طعنے دینے والا ، لعنت کرنے والا ، بد گو اور بد زبان نہیں ہوا کرتا ۔

٭ ۔مومن سب کچھ کر سکتاہے مگر جھوٹا اور خائن نہیں ہو سکتا ۔

٭۔مومن نہیںہے ، خدا کی قسم ،وہ مومن نہیں ہے ، خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے جس کی بدی سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو ۔

٭۔جو شخص خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کے پہلو میں اس کا ہمسایہ بھوکا رہ جائے، وہ ایمان نہیں رکھتا۔

٭ ۔جو شخص اپنا غصہ نکال لینے کی طاقت رکھتا ہو اور پھر ضبط کر جائے، اس کے دل کو خدا ایمان اور اطمینان سے لبریز کر دیتاہے ۔

٭۔جو شخص کسی ظالم کو ظالم جانتے ہوئے اس کا ساتھ دے ،وہ اسلام سے نکل گیا۔

٭ ۔جس نے لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھی، اس نے شرک کیا ۔ جس نے لوگوں کو دکھانے کے لیے روزہ رکھا ، اس نے شرک کیا اور جس نے لوگوں کو دکھانے کے لیے خیرات کی، اس نے شرک کیا ۔

٭ ۔وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جو اپنے ماتحتوں پر بری طرح افسری کرے ۔

٭ ۔چار صفات ایسی ہیں جس میں پائی جائیں وہ خاص منافق ہے ۔امین بنایا جائے تو خیانت کرے ۔ بولے تو جھوٹ بولے ۔ عہد کر ے تو اسے توڑ دے اور لڑے تو شرافت کی حد سے گزر جائے ۔

٭۔جھوٹی گواہی اتنا بڑا گناہ ہے کہ ہلاکت کے قریب جا پہنچتاہے ۔

٭۔حقیقی مجاہد وہ ہے ،جواللہ کی فرماںبرداری میں خود اپنے نفس سے لڑے اور حقیقی مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑے، جنہیں اللہ نے منع فرمایا ہے

٭۔جانتے ہو کہ قیامت کے روز اللہ کے سائے میں سب سے پہلے جگہ پانے والے لوگ کون ہوں گے ؟ وہ جن کا حال یہ رہا کہ جب بھی حق ان کے سامنے پیش کیا گیاتو انہوں نے مان لیا اور جب بھی حق ان سے مانگا گیا ،تو انہوں نے کھلے دل سے دیا اور دوسروں کے معاملے میں انہوں نے وہی فیصلہ کیا جو وہ خود اپنے معاملے میں چاہتے تھے ۔

٭۔تم چھ باتوں کی مجھے ضمانت دو، میں جنت کی تمہیں ضمانت دیتاہوں ۔ بولو تو سچ بولو ۔ وعدہ کرو تو وفا کرو ۔ امانت میں پورے اترو ۔ بدکاری سے پرہیز کرو ۔ بدنظری سے بچو اورظلم سے ہاتھ روکو۔

٭۔دھوکے باز، بخیل اور احسان جتانے والا آدمی جنت میں نہیں جا سکتا ۔

٭ ۔جنت میں وہ گوشت نہیں جا سکتا جو حرام کے لقموں سے بنا ہو ۔ حرام خوری سے پلے ہوئے جسم کے لیے آگ ہی زیادہ موزوں ہے۔

٭۔جس شخص نے عیب دار چیز بیچی اور خریدار کو عیب سے آگاہ نہ کیا ،اس پر اللہ کا غصہ بھڑکتا رہتا ہے اور فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔