علامہ اقبالؒ نے ملت اسلامیہ کے تن مردہ میں نئی روح پھونک دی

November 09, 2019

ڈاکٹر طاہر حمید تنولی

علامہ اقبال شہرہ آفاق مفکر ، فلسفی اور اپنے کلام سے ملت اسلامیہ کے تن مردہ میں روح پھونک دینے والے شاعر ہیں۔ علامہ نے اپنی فکر، فلسفے اور شاعری سے مسلمانان برصغیر کو جس طرح منزل آشنا کیا اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ علامہ اقبال کی فکر فلسفے اور شاعری پر بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا تاہم علامہ کی شخصیت کا یہ پہلو بھی بہت دلچسپ اور فکر انگیز ہے کہ ان کی انفرادی اور نجی زندگی ان کی فکر سے ہم آہنگ تھی۔

علامہ کی زندگی کے مختلف واقعات اور ان کے معمولات نہ صرف ہمیں ان کی شخصیت کے کئی پہلووں اور گوشوں سے آشنا کرتے ہیں بلکہ اس حقیقت کی طرف بھی راہنمائی کرتے ہیں کہ ان کی سیاسی بصیرت ، علمی اور فکری عظمت اور ملت اسلامیہ کے لیے دردمندی اور دلسوزی کا اظہار ان کی زندگی کے مختلف معاملات میں کس طرح ہوتا تھا۔

جب جنوری 1938 کے آخری حصے میں ایک دن پنڈت جواہر لعل نہرو علامہ سے ملنے جاوید منزل آئے تو انہوں نے علامہ اقبال سے ہندوستان کے سیاسی مسائل پر گفتگو کی ۔ پنڈت جواہر لال نہرو کا خیال تھا کہ پاکستان کے مسائل کا حل سوشلزم ہے لیکن کانگریس کے لیڈروں میں سے ان کا کوئی ہم خیال نہ تھا۔ علامہ اقبال نے ان سے پوچھا کہ سوشلزم کے بارے میں کانگرس کے کتنے لیڈر ان کے ہم خیال ہیں۔

پنڈت جواہر لعل نہرو نے جواب دیا تقریبا چھ۔ اس پر علامہ اقبال نے کہا اگر ان کے ہم خیال لیڈروں کی تعداد اس قدر قلیل ہے تو دس کروڑ مسلمانوں کو کانگرس میں شامل ہونے کا مشورہ کیوں کر دے سکتے ہیں۔ بعد ازاں ہندو مسلم کشیدگی کا ذکر چل پڑا اور حضرت علامہ نے ان پر واضح کیا کہ مغربی ایشیا دراصل مسلم ایشیا ہے ۔ آئنیدہ عالمی سیاست میں اس کے کردار کی اہمیت بہت بڑھ جائیگی لہذا اگر برصغیر میں ہندؤں نے مسلمانوں سے اچھا سلوک نہ کیا اور انہیں ناراض کردیا تو مغربی ایشیا کے مسلم ممالک کے ساتھ ان کے تعلقات خراب ہو جائیں گے۔

لہذا ہندوؤں کا فائدہ اسی میں ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ اپنے تعلقات خوشگوار رکھیں۔ دونوں راہنماؤں میں گفتگو جاری تھی کہ میاں افتخار الدین بولے ڈاکٹر صاحب آپ مسلمانوں کے لیڈر کیوں نہیں بن جاتے۔ مسلمان مسٹرجناح سے زیادہ آپ کی عزت کرتے ہیں۔ اگر آپ مسلمانوں کی طرف سے کانگریس کے ساتھ بات چیت کریں تو نتیجہ بہت بہتر نکلے گا۔

ڈاکٹر صاحب لیٹے ہوئے تھے یہ سنتے ہی غصے میں آگئے اور اٹھ کر بیٹھ گئے اور انگریزی میں کہنے لگے اچھا تو یہ چال ہے آپ مجھے بہلا پھسلا کر مسٹر جناح کے مقابلے میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ مسٹر جناح ہی مسلمانوں کے اصل لیڈر ہیں اور میں ان کا ایک معمولی سپاہی ہوں۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب بالکل خاموش ہو گئے اور کمرے میں تکدر آمیز سکوت طاری ہو گیا۔ پنڈت نہرو نے محسوس کرلیاکہ اس نے ڈاکٹر صاحب کو ناراض کردیا ہے اور اب بات کو جاری رکھنا بے سود ہے چناچہ وہ اجازت لے کر رخصت ہوگئے۔

قرآن حکیم سے علامہ اقبال کا تعلق غیر معمولی اور بے مثل تھا۔ علی بخش جوہر وقت ان کی خدمت میں حاضر باش خادم تھا کے مطابق ان کی راتوں کا زیادہ تر حصہ قرآن حکیم کی تلاوت کرتے گزرتا وہ قرآن حکیم کی تلاوت کرتے کرتے بے حد و حساب زاروقطار رونے لگتے اور سجدے میں گر جاتے۔ ایک مرتبہ رات کو حضرت علامہ نے بلند آواز سے پکارا: علی بخش میرا قرآن حکیم ، کاپی اور قلم دوات لاؤ۔ علی بخش فورا لے کر حاضر ہو گیا اور ان کی میز پر رکھ کر پھر باہر آ گیا۔ لیکن جب کچھ دیر بعد انہوں نے دوبارہ آواز دی علی بخش اندر گیا تو انہوں نے کہا یہ سب چیزیں حفاظت کے ساتھ الماری میں رکھ دو۔ علی بخش نے کہا کیا یہ سب چیزیں منشی جی کو دے دوں۔

علامہ صاحب نے غصے سے کہا یہ تو میرے اشعار ہیں ان کو سنبھال کر الگ رکھنا۔ علامہ اکثر راتوں کو کام کرتے اور ساری ساری رات بیٹھے رہتے۔ اس وقت علی بخش بھی جاگتا رہتا کہ کب علامہ انہیں بلا کر کسی کام کا کہیں۔ علی بخش کے مطابق اس شب بیداری کے دوران اس نے کئی مرتبہ دیکھا کہ علامہ راتوں کو اکثر بہت زیادہ روتے ۔ کئی مرتبہ اس نے دیکھا کہ حضرت علامہ کا چہرہ سرخ پڑجاتا اور اپنی آنکھوں کو ایک جگہ پر جما کر بڑی دیر تک دیکھتے رہتے ۔ کچھ دیر بعد ایسے معلوم ہوتا جیسے بہت خوش دکھائی دیتے ہوں۔ پھر وہ علی بخش کو کہتے کہ حقہ تازہ کرو۔ علی بخش حقہ تازہ کرنے کے علاوہ پانی کا لوٹا اور مصلی بھی ان کے قریب رہ کر سو جاتا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کے ساتھ علامہ کو غیرمعمولی اور بے انتہا محبت تھی۔

ان کے سامنے جب کوئی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیتا تو سنتے ہی بے خود ہو جاتے اور اگر کوئی حضور کا تذکرہ چھیڑ دیتا تو دریافت کرتے وضو کیا ہے۔ اگر بے وضو ہوتا تو وضو کا حکم دیتے۔ اذان کی آواز سنتے ہی کام چھوڑ دیتے۔ جب علامہ نے حج کا ارادہ کیا تو بہت سے لوگ ساتھ چلنے پر تیار ہوگئے۔ لیکن زندگی نے ساتھ دیا۔ ان کی شدت محبت کا یہ عالم تھا اگر وہ حج کے لیے جاتے اور روز اطہر پر حاضر ہوتے تو شاید واپس تشریف نہ لاتے۔

ایک مرتبہ علامہ کی مجلس میں نبوت اور مقام نبوت پر گفتگو ہو رہی تھی علامہ نے مقامِ نبوت پر اظہار خیال کرتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیق کی سیرت کا ایک واقعہ بیان کیا کہ حضرت ابو بکر صدیق سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو اللہ تعالی سے زیادہ محبت ہے یا اللہ کے رسول سے ۔ حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا مجھے اللہ کے رسول سے زیادہ محبت ہے اور پھر اس کی وجہ یہ بتائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہم بھی یہیں تھے اور اللہ بھی یہیں تھا۔ لیکن نہ اس نے ہم کو پوچھا اور نہ ہم نے اسے پہچانا۔ جب رسول اللہ تشریف لائے تو ہم نے اللہ کو پہچان لیا ۔ علامہ اقبال نے اسرار خودی میں مقام نبوت پر گفتگو کرتے ہوئے اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے:

معنی حرفم کنی تحقیق اگر

بنگری با دیدہ صدیق اگر

قوت قلب و جگر گردد نبی

از خدا محبوب تر گردد نبی

شگفتہ مزاجی علامہ کی طبیعت کا حصہ تھی۔ حضرت علامہ نے ایک مجلس میں بتایا کہ میں سروجنی نائیڈو کی معیت میں اس کا گھر دیکھنے گیا۔ معلوم ہوا کہ اس خاتون پر مسلمانوں کے تصور جنت کا بہت گہرا اثر تھا۔ اور اس نے اپنے گھر کو اپنے ذوق کے مطابق دنیا بھی جنت بنا رکھا تھا۔ کافی دیر تک اس کے گھر میں رہنے اور اس کے حسن ذوق سے سیراب ہونے کے بعد جب واپس لوٹنے لگے تو وہ خاتون ہمیں چھوڑنے اپنے مکان کے دروازے تک آئی۔

اور دروازے پر مجھ سے پوچھا فرمایئے ڈاکٹر صاحب میری اس گھر کے مکان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کیا عرض کروں جو دیکھا وہ جنت نگاہ اور جو سنا وہ فردوس گوش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ گھر ایک جنت ہے اور لطف یہ کہ اس میں حور بھی موجود ہے لیکن اس کے باوجود اس میں ایک کمی ہے۔ اس پر خاتون نے پوچھا وہ کمی کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ جنت بھی ہے اور اس میں حور بھی ہے لیکن مرد مومن کوئی نہیں۔ ایک مرد مومن آیا تھا لیکن اب واپس جا رہا ہے۔

علی بخش کے بقول سردار جوگندر سنگھ ، جو ایک بڑے زمیندار اور سرکاری افسر تھے، حضرت علامہ سے اکثر ملنے آیا کرتے تھے۔ وہ علی بخش سے بھی بڑی محبت سے ملتے اور اکثر اسے کہتے علی بخش میرے متعلق کوئی کام ہو تو بتانا۔ ایک مرتبہ جب وہ حضرت علامہ سے ملنے کے لیے آئے تو جاتے ہوئے ان سے علی بخش نے کہہ دیا کہ سردار جی آپ تو بڑے زمیندار ہیں اگر ہو سکے تو مجھے کچھ زمین کا ٹکڑا عنایت کر دیں۔ انہوں نے بڑی خوشی سے کہا تم میرے دفتر آنا میں تمہارا کام ضرور کر دوں گا۔

اس کے ساتھ ہی انہیں اپنے نام کا کارڈ علی بخش کو دیا، اپنی کار میں بیٹھے اور چلے گئے۔ سردار صاحب کے جانے کے بعد حضرت علامہ نے علی بخش کو بلایا اور پوچھا تم سردار جی کو کیا کہہ رہے تھے۔ علی بخش نے یہ سوچ کر کہ وہ ساری باتیں جو سردار جوگندر سنگھ سے ہوئیں علامہ نے خود اپنے کانوں سے سن لی ہیں سب کچھ عرض کردیا۔ اس پر حضرت علامہ نے پوچھا علی بخش سردار جی کو اس قدر زمین کہاں سے ملی۔ علی بخش نے جواب دیا : خدا سے۔ علامہ نے فرمایا جس خدا نے اسے دی ہے وہ تمہیں بھی دے سکتا ہے۔ یاد رکھو آئندہ کبھی کسی سے سوال نہ کرنا۔

علامہ کا یہ فرمان یوں پورا ہوا کہ قیام پاکستان کے بعد علی بخش کو غیرمعمولی عزت اور تکریم ملی۔ اکثر مجالس اقبال کی صدارت علی بخش کر رہا ہوتا اور اس مجلس میں گورنر جنرل وزیراعظم اور دوسرے اکابرین بطور مہمان موجود ہوتے۔ جو بات علامہ نے علی بخش کو کہی زبور عجم کی ایک غزل میں اسی بات کو بہت موثر پیرائے میں بیان کردیا اور یہی غزل حضرت علامہ کے مزار کی چھت پر نقش ہے۔ جب بھی کوئی حضرت علامہ کے مزار پر حاضر ہو تو چھت پر نگاہ پڑتے ہی یہ شعر سامنے آجاتا ہے:

در آبسجدہ و یاری ز خسروان مطلب

کہ روز فقر نیاگان ما چنین کردند

تو جب بھی ابتلا میں ہو تو دنیا داروں کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بجائے اللہ سے رجوع کر کہ مشکل حالات میں ہمارے بڑوں نے ایسا ہی کیا ہے۔