ٹی 20 سیریز، گرین شرٹس تمام شعبوں میں ناکام

November 12, 2019

پاکستان کرکٹ ٹیم کے لئے سال 2019ہر اعتبار سے خراب ترین رہا،طویل ترین،درمیانے اور مختصر فارمیٹس تینوں میں کارکردگی زبوں حالی کا شکار رہی ہے ،سال بھر میں اب تک 2 ٹیسٹ میچز کھیلے اور دونوں ہی ہارے ہیں،ون ڈے میں سب سے بڑے ایونٹ ورلڈ کپ کا سیمی فائنل تک نہیں کھیل سکا جبکہ ٹی 20 میں نمبر ون ہونے کے باوجود زبوں حالی افغان ٹیم سے بھی بد تر رہی، 25 ایک روزہ میچز میں سے صرف 9جیتے اور 15 میں شکست مقدر بنی ،سری لنکا سے ہوم گرائونڈ پر ایک ون ڈے سیریز جیتی جبکہ ورلڈ کپ ہارا،پھر جنوبی افریقا،آسٹریلیا اور انگلینڈ سے سیریز بھی ہاریں، آسٹریلیا کے حالیہ دورے میں ٹیم ٹی 20 سیریز ہارگئی ، ایک میچ بارش کی نذر ہو اہے تو 2میں عبرتناک شکست مقدر بنی،4،4 تبدیلیاں،ڈیبیوز کا تجربہ بھی ناکام رہا ہے۔

یہ اس سال کی چوتھی ٹی 20 سیریز کی شکست تھی،جنوبی افریقا، انگلینڈ، سری لنکا اور اب آسٹریلیا سے ہارے ہیں، سال بھر میں پاکستان نے 10 میچزکھیلے ، یکم اور 3فروری کو جنوبی افریقا میں شکست ہوئی اور 6فروری کو اکلوتی کامیابی ملی،اس کے بعد انگلینڈ سے ایک،سری لنکا سے 3 اور آسٹریلیا سے 2 میچز ہارے تو ٹیم 6میچز ہاری مگر 7میچز سے فتح کی دوری پر اس طرح ہے کہ ایک میچ آسٹریلیا سے بارش کی نذر ہوا اس طرح اس سال 10 میچز میں سے ایک جیتا ایک بے نتیجہ رہا،8میں ناکامی مقدر بنی ہے یاد رہے اس سے قبل تاریخ میں ٹیم 6میچز کے بعد ناکامی سے نکل آئی تھی یہاں معاملہ 7ویں میچ سے آگے نکل گیا ہے۔آسٹریلیا میں سڈنی کی بارش نے شکست سے بچالیا مگر کینبرا اور پرتھ میں کیا کھیلے،کسی بھی موقع پر کینگروز دبائو کا شکار نہیں ہوئے،آخری میں 49 گیندیں قبل 10 وکٹوں کی بڑی شکست ناکام بولنگ،ناقص فیلڈنگ اور کمزور پلاننگ کا کھلا ثبوت ہے۔

کپتان نئے ہیں،بابر اعظم کی اپنی کارکردگی بہتر رہی مگر ٹیم کے کسی کام نہ آئی وہ اپنا موازنہ اسی بیٹنگ میں حریف کپتان ایرون فنچ سے بہتر خود کرسکتے ہیں کہ وہ کس اسٹرائیک ریٹ سے کھیلتے ہیں اور بابر اعظم جیسے اپنے لئے کھیلتے ہیں ،یہ فرق دکھائی دیتا ہے۔فنچ نے 160 اور بابر نے 138 کے اسٹرئیک ریٹ سے بیٹنگ کی ہے ۔پاکستان کی بیٹنگ لائن کی قلعی کھلی تو بولنگ لائن نے تو حد ہی کردی ،ڈیبیو کرنے والے موسیٰ خان کو 4سے بھی کم اووز میں 39رنز پڑے ، دوسرے ڈیبیو کرنے والے خوشدل شاہ نے 8 گیندوں پر 8رنزبنائے ۔

پاکستانی بیٹنگ لائن کو دیکھیں تو دونوں ٹیموں میں بابر اعظم 115 اور افتخار احمد 108رنزکر کے تمام بیٹسمینوں سے آگے رہے یہ دونوں ٹاپ اسکورر رہے مگر پاکستان ناکام رہا،آسٹریلیا کی جانب سے ایرون فنچ 106 کے ساتھ سب سے آگے رہے مگر لسٹ میں ان کاتیسرا نمبر ہے ان کے علاوہ دونوں سائیڈز سے کوئی بھی 100 سے زائد اسکور نہیں کرسکا۔

محمد رضوان 3میچزمیں 45،حارث سہیل اتنے ہی میچز میں 18 کرسکے، حارث کو خوامخواہ ہی ٹی20 میں برباد کیا جارہا ہے، وہ اس فارمیٹ کے کھلاڑی نہیں ،کمنٹیٹرز نے ایک ہی طرح کا بار بار آئوٹ ہونا خوب دکھایا اور پھر مذاق اڑایا۔عماد وسیم 3میچزمیں 17 اور آصف علی 2 میچز میں 15 کرسکے، نامی گرامی اوپنر فخر زمان 2میچز میں 2 رنز کرسکے،چیف سلیکٹر ہیڈ کوچ مصباح الحق کے لئے فخرزمان کی بنیادی تکنیک سمجھ جانا ہی بڑا کارنامہ ہوگا ۔ایک میچ میں امام الحق 14رنزبنا سکے۔

اسٹیون سمتھ نے 80 اور ڈیوڈ وارنر نے 70 رنز بنا کر اچھا سہارا دیا،شکست کی دوسری اور بڑی وجہ بولنگ لائن کی ناکامی ہے ،محمد عامر اور عماد وسیم کی 3،3میچزمیں ایک ایک وکٹ،محمد عرفان کی 2میچز میں سنگل وکٹ، شاداب خان 3میچزمیں کوئی وکٹ نہ لے سکے وہاب ریاض 2میچز میں صفر وکٹ پر رہے اسکے مقابلے میں آسٹریلیا کے کین رچرڈ سن نے 3میچزمیں 6،آشٹن اگر اور مچل اسٹارک نے 4،4 وکٹیں لیں ، سین ایبٹ ایک میچ کھیل کر 2وکٹ لے اڑے مگر پاکستانی بولرز ترستے رہے ناکامی کی بڑی وجہ گیم پلان، صلاحیتوں کا اچھا اظہار اور حالات کے مطابق قوت فیصلہ و قوت سازی کی تمام تر باتیں گرین شرٹس میں دکھائی نہیں دیں۔

پاکستان کی مسلسل دوسری سیریز میں ناکامی کی وجہ کیا ہے،سری لنکا سے شکست کی وجہ یہ تو نہیں تھی کہ پی سی بی ایوانوں میں چلتی پر اسرار سرگرمیوں کی وجہ سے کپتان سرفراز احمد ٹھیک طرح سے توجہ نہ دے سکے،پھر مکی آرتھر کی جگہ لینے والے مصبا ح کی انٹری اور اس میں کھلاڑیوں کی قسمت کا فیصلہ بھی ا ن کے ہاتھ میں دینا آسٹریلیا میں شکست کی وجہ تو نہیں بنا،کپتان نیا ،کوچ اور چیف سلیکٹر ایک دفاعی سوچ والا اور پھر بولنگ کوچ اپنے وقت کے کامیا ب ترین بولر وقار یونس کے ہوتے ہوئے ایسے نتائج کیوں آئے ۔

موجودہ ٹی 20 اسکواڈز میں ایک بھی کھلاڑی وننگ پرفارمنس دینے والا نہیں ہے اسلئے ورلڈ ٹی20 کے لئے ابھی سے کچھ بلکہ بہت کچھ کرنا ہوگا،ٹی 20 پلیئرز ایک سائیڈ پر کرکے انہیں قومی اکیڈمی میں پالش کرنا ہوگا ،پرتھ جیسے میدان میں 2،2 کیپ دینا ان پلیئرز کے کیریئر کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے،جو ماضی کا حصہ بن جائیں گے۔

پاکستان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ سال بھر ناکامی نے بھی اسکی پہلی پوزیشن محفوظ رکھی مگر اب آسٹریلیا ،انگلینڈ اور دیگر ٹیمیں بہت قریب پہنچ چکی ہیں،اگلے چند ہفتوں میں یہ پوزیشن بھی ہاتھ سے چلی جائے گی کیونکہ پاکستان کے اس سال کے میچز تمام ہوئے اور باقی ٹیموں کوابھی کچھ میچز کھیلنے ہیں۔