پردے کی بوبو

November 17, 2019

عالیہ شمیم

’’کیا ہوا تم ابھی تک تیار کیوں نہیں ہوئیں؟ ‘‘عمّارہ نے بیٹی کوڈانٹتے ہوئے پوچھا’’امّی مَیں یہ کپڑے نہیں پہنوں گی۔‘‘

’’ اب کیا ہوگیا؟کیوں نہیں پہنو گی؟ بابا تیار ہو چکے ہیں، تمہاری وجہ سے مجھے باتیں سُننی پڑیں گی ، مسئلہ کیا ہے ان کپڑوں میں؟ تمہاری ہی تو پسند کا کلر ہے۔‘‘’’جب آپ کو پتا ہے کہ مجھے بغیر آستین کے کپڑے پسندنہیں ،تو کیوں سلواتی ہیں میرے لیے؟ نہیں جانا مجھے کہیں، آپ لوگ خود چلے جائیں۔‘‘

بارہ سالہ ہالہ نے ضدّی لہجے میں کہا۔’’ تمہیں کس کے پاس چھوڑ کر جاؤں ؟ چاچا کے گھر شادی ہے اور عین وقت پر تمہاری یہ ضد‘‘’’کیا ہوا بھئی؟ ابھی تک نکلنے کے آثار نہیںہیں، امّاں کا دو بار فون آ چکا ہے۔‘‘’’جی مَیں تو تیار ہوں، آپ لاک لگانا شروع کریں۔‘‘یاسر کے باہر جاتے ہی عمّارہ نے ہالہ کو گھورا، جو کئی بار کاپہنا ہواجوڑاپہنے باہر آ چکی تھی اور اب لمبے بالوں کی پونی باندھ رہی تھی۔’’تو تم نہیں مانو گی ۔

اتنا اسٹائلش سوٹ چھوڑ کر سو بار کا پہنا لباس پہن لیا۔‘‘’’آجائو بھئی، 5منٹ گزرے بھی 5منٹ ہو چکے ہیں۔‘‘ عمّارہ باہر تو آگئی ، لیکن ہالہ کا حلیہ دیکھ کر جی ہی جی میں کُڑھ رہی تھی ۔تقریب میں پہنچتے ہی پہلا فقرہ یہی سننے کو ملا، ’’ہالہ سوتیلی ہے کیا،جو اس کے لیے نئے کپڑے نہیں بنواتیں، کیا سب اپنے اور اپنے لاڈلے بیٹوں ہی پر خرچ کردیتی ہو…؟‘‘

عمّارہ کا برانڈڈ سوٹ دیکھتے ہوئے جیٹھانی نے فقرہ کَسا۔ ’’بھابھی! آپ ہالہ کا مزاج نہیں جانتیں،میڈم کو پوری آستین والے کپڑے چاہئیں ،اس چکّر میں نیا سُوٹ گھر پھینک آئی ہے۔‘‘ خیریت،ایسا کیاہوگیااچانک ،پہلے تو پہنتی تھی۔‘‘’’ہاںاب دراصل اسے ’’آپا مینیا‘‘ ہو گیا ہے، جو انہوں نے کہہ دیا ، وہ اس کے لیے پتّھر پر لکیر بن جاتا ہے۔‘‘ ’’کون آپا…؟؟

وہ تو نہیں، جو تمہارے پڑوس میں رہتی ہیں، ان کی تو تم بہت تعریفیں کرتی تھیں۔ ‘‘’’بھابی! اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وہ بے حد نفیس اور عزّت دار خاتون ہیں۔ان ہی کے بھروسے بچّوں کو چھوڑ کر مَیں بے فکری سے جاب پر چلی جاتی ہوں اور یاسر بھی کچھ نہیں کہتے۔ عمدہ تربیت کر رہی ہیں وہ میرے بچّوں کی ، پر ہالہ کو بڈھی ر وح بنا دیا ہے۔

ابھی عُمر ہی کیا ہےاس کی، پر ابھی سے اس کے دل و دماغ میں پردے ، حجاب، جیسے جملے بٹھا دئیے ہیںاور جان میری مشکل میں آگئی۔ ساری پینٹس، ٹی شرٹس پہننے سے انکار کر دیا ہے، بالوں کی کٹنگ نہیں کرواتی، مَیں تو بہت پریشان ہوں اس لڑکی کی وجہ سے۔

مجھےکیا پتا تھا کہ وہ اِسے اتنا دقیا نوسی بنا دیں گی۔ یہی حالات رہے تو اس ماڈرن دَور میں اِسے اچھا بَر کہاں ملے گا؟‘‘’’اوہو، چلو پریشان مت ہو۔ بس بچّی کو آپا کے حصار سے نکالو، وہاں بھیجنا بند کرو، اس سے پہلے کہ دوسری آپا تیار ہو جائے… چلو آئو ،مہمانوں کو دیکھتے ہیں۔‘‘

عمّارہ نے پھر واقعی کمر کس لی اور سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ہالہ کو اسلام آباد اپنی بہن کے گھر بھیج دیا ۔خالہ کے گھر کا ماحول انتہائی ماڈرن تھا، جہاں پارٹیز اور لڑکے ،لڑکیوں کی دوستی، ساتھ گھومنے پھرنے کو قطعاً معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ہالہ کے خیالات بدلنے میں بھی دیر نہیں لگی۔

آپا سے اس کی پہلی ملاقات 6 سال کی عُمر میں ہوئی تھی، جب و ہ اپنی امّی کی انگلی پکڑے ہاتھ میں سپارہ لیے ڈرتے جھجکتے اندر داخل ہوئی تھی۔ بڑے سے دالان میں بِچھی سفید چاندنی پر مختلف عُمر وںکے بچّے سپارےپڑھ رہے تھے اور آپا اونچے سے تخت پر بڑاسا سفید دوپٹّا اوڑھے بچّوں کو سبق دے رہی تھیں۔

ہوسکتا ہے ہالہ کو آپا سے اپنی کم عُمری کی یہ ملاقات یاد بھی نہ رہتی، مگر جس شفقت سے انہوں نے اس کی تربیت کی ، اُٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ سکھایا، دیگربچّوں سے یہ کہہ کر تعارف کروایا کہ آج سے یہ ننّھی پَری بھی آپ لوگوں کے ساتھ پڑھے گی …تویہ سب باتیں اُس کے دل پر نقش ہوگئیں۔اُس نے آپا سے بہت کچھ سیکھا ،لیکن شیطان کے بچھائے جال اوروالدین کے نام نہادماڈرن ازم نے اُسے سب کچھ بھلا دیا۔

وہ جب اے لیولزکر کے گھر لوٹی، تو عمّارہ نے اسے دیکھ کر سُکھ کا سانس لیا۔ اِسکن ٹائٹ جینز، برائے نام آستین کی ٹاپ میں ملبوس ہالہ ان کی توقعات پر پوری اتر ی تھی۔

’’ کہاں رہ گئی تھی؟ موبائل تو آن رکھا کرو۔ تمہاری فرینڈز کا فون بھی نہیں مِل رہا تھا۔ کلاس تو کب کی ختم ہو چکی ۔‘‘’’افوہ مام! کیا ہو گیا ہے؟ مَیں کوئی بچّی تو نہیں ۔کلاس کے بعد ہم سی ویو کی طرف نکل گئے تھے ،اتنا مزہ آیا۔‘‘’’کس کے ساتھ گئی تھی تم ؟‘‘ ’’فرینڈز کے ساتھ‘‘اس نے بے زاری سے جواب دیا۔

’’یہ کون سے دوست ہیں تمہارے، جن کو مَیں نہیں جانتی۔ ‘‘’’ارے مام ! میرے کلاس فیلوز ہیں، ظاہر ہےاب آپ سب کو تو نہیں جانتیں ناں…اور جن سہیلیوں کی بات آپ کر رہی ہیں وہ تو میرے ساتھ گئی بھی نہیں تھیں۔‘‘’’تم لڑکوں کے ساتھ اکیلی گئی تھی؟‘‘’’وہ لڑکے میرے کلاس فیلوز ہیں۔‘‘چھوٹا سا ٹاپ، گِھسی ہوئی جینز، کُھلے بال، دوپٹّا ندارد…عمّارہ اپنی بیٹی کو ماڈرن دیکھنا چاہتی تھی ، مگر اُس نے ایسا نہیں چاہا تھا۔

سوچ سوچ کر اس کی کنپٹیاں دُکھنے لگیں ۔اتنی رات کو پورا دن غیر لڑکوں کے ساتھ گزار کر آئی ہے۔’’ اللہ میری بچّی کی حفاظت کرنا ‘‘ وہ دل ہی دل میں دعا کرنے لگی ۔ ’’پوچھا ہالہ سے ،کل سارا دن کہاں ،کس کےساتھ تھی ؟‘‘ یاسر کے استفسار پر عمّارہ گڑبڑا گئی ۔’’جی وہ اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ سی ویوچلی گئی تھی۔ ‘‘

’’ماشاء اللہ! عمّار ہ بیگم، جب سےوہ اسلام آباد سے آئی ہے، اس کے قدم کچھ زیادہ ہی باہر نہیں رہنے لگے، اپنے خاندان کے طور طریقے نہ بھولیں بیگم صاحبہ!اور ہو سکے تو اپنی لاڈلی کو بھی باور کروا دیں،کیوں کہ آپ ہی کی شہ پر وہ اس قدر آزاد خیال ہوئی ہے۔ ‘‘عمارہ کو اور تو کچھ سمجھ نہ آئی، جَھٹ اسلام آباد فون ملادیا۔

اپنی بہن صاعقہ کو ذمّے دار ٹھہرایا، تو وہ بولیں’’لو اب کیا ہو گیا، نہ سلام ،نہ دُعا ایک تو تمہاری ملّانی بیٹی کو ماڈرن دنیا کے طورطریقے سکھا ئے،اوپر سے شُکریے کی بجائے باتیں سُننے کو مل رہی ہیں۔‘‘عمّارہ بھی جیسے پھٹ پڑی۔’’ہاں تو ماڈرن بنانے کے لیے کہا تھا ،یہ تو نہیں کہاتھاکہ ادب، لحاظ ، تمیز سب ہی ختم کردو۔

یہ لڑکی کسی کی سُنتی ہی نہیں ہے،سر پھری ہو گئی ہے۔‘‘’’تو یہ کون سی نئی بات ہے، وہ تو پہلے ہی سے ایسی ہے۔بھول گئیں، وہ تو تمہاری ہر بات چٹکیوں میں اڑا دیا کرتی تھی۔ مَیںنے تو بس اس کی سوسائٹی بدلی ہے، لیکن اس کی فطرت میں جوضد ،ہٹ دھرمی ہے، وہ میرے پاس رہ کر تھوڑی ختم ہو گی، تم بات تو بتاؤ ہوا کیا ہے؟‘‘ ’’ابھی تو کچھ نہیں ہوا، لیکن اگر اس کی یہی حرکتیں رہیں، تو اَن ہونی ہو جانے کا خوف ہے ۔

کیا یہ وہاں بھی بوائے فرینڈز کے ساتھ رات گئے تک سڑکوں پر پھرتی تھی؟ ایک تو اس کا حلیہ اورپھر بغیر کسی شرم ،لحاظ کے لڑکوں میں گُھل مِل جاتی ہے،مجال ہے جو کسی نزاکت کا دھیان کر لے۔‘‘بات کرتے کرتے عمّارہ روہانسی ہو گئی۔ ’’ مَیں تو لڑکے، لڑکیوں کی دوستی میں کوئی قباحت نہیں سمجھتی۔

یہ سب ہلّا گُلّا، پارٹیز، ہائی سوسائٹی کے تقاضےہیں، پکنک،پارٹیز، گھومنا گھمانا تو چلتا ہی ہے، پھر میرے گھر بھی لڑکے ہی ملے، تو ظاہر ہے اُس نے آزاد خیال ہی ہونا تھا۔خیر، میرا خیال ہے کہ تم اس کی شادی جلدی کر دو ، شاید کچھ بہتری آ جائے، ذمّے داری پڑے گی، توٹھیک ہوجائے گی۔‘‘ بہن کامشورہ عمّارہ کو بھی پسند آ یا۔اس نے جلد رشتے کروانے والی کی خدمات بھی حاصل کر لیں، مگر یہ تدبیر بھی کار گر نہ ہوئی۔عمّارہ بے حد پریشان رہنے لگی تھی۔ اُسے وہ وقت یاد آرہا تھا، جب اس نے اچھا رشتہ نہ ملنے کے خوف سے ہالہ کو آپا سے دُوربہن کے گھر بھیج دیا تھا۔

مسلسل بجتی فون کی گھنٹی پر عمّارہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھی۔ہالہ کے بارے میں سوچتے سوچتے جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی، پتا ہی نہیں چلا تھا۔ ’’ہیلو !کون…؟؟‘‘ وہ بولی۔’’خیریت توہے، کیا بات ہے؟ آواز اتنی بھاری کیوں ہو رہی ہے۔‘‘ دوسری جانب سےیاسر نے تشویش سے پوچھا۔ ’’نہیں ،مَیںٹھیک ہوں، آپ سُنائیں کیوں فون کیا؟‘‘’’شام کو چائے پرکچھ اہتمام کر لینا، میرا بچپن کا دوست فخری، امریکاسے پاکستان کچھ روز کے لیے آیاہوا ہے، وہ اور اس کا بیٹا میرے ساتھ ہوں گے۔ ‘‘

ڈرائنگ روم سے باتوں کی آوازیں سن کر ہالہ کےاُٹھتے قدم رُک سے گئے۔جھانک کر کمرے میں دیکھا، توابّو کے ساتھ خُوب رُو نوجوان دیکھ کر وہیں ٹھٹک گئی۔’’آئو بیٹا ! وہاں کیوں رُک گئیں؟‘‘باپ کے سامنے بیٹھے شخص کی آواز سن کر وہ خود اعتمادی سے اندر چلی گئی ۔ اُسے انکل فخری کے ساتھ بیٹھا علی بہت ا چھا لگا ۔انتہائی سلجھا ہوا ، جو کسی بھی موضوع پر بولتا، تو بے تکان بولتا چلا جاتا۔

دو ہفتے جیسے پر لگا کراُڑ گئے ،علی کے جانے کے بعد ہالہ کو کسی کمی کا احساس ہونے لگا تھا ۔اس کیفیت کو وہ خود بھی نہیں سمجھ پارہی تھی۔ اتنے دنوں میں اس نے علی کو بھرپور کمپنی دی ، کس ریسٹورنٹ کا بوفے اچھا ہے، کہاں کہاں لیٹ نائٹ میوزک کنسرٹس ہوتے ہیں، کون سی مووی ہِٹ ہے … اس نے علی کو ہر جگہ گھمایا اورکئی بار علی کے منہ سے اپنے لیے تعریفی کلمات بھی سُنے۔’’اگر ایسا ہو جائے،تو بہت اچھا ہے ،ہالہ کے مزاج کا لڑکا ہے ‘‘عمّارہ نے ہالہ کے لیے علی کے رشتے کے استفسار پر شوہر کو جواب دیتے ہوئے کہا۔

’’ہاں، فخری میرا جگری یار ہے۔ اگر مَیں کہوں گا، توانکار نہیںکرے گا ۔‘‘یاسر کا لہجہ پُر اعتماد تھا۔ ’’اللّٰہ کرے، وہ مان جائیں۔‘‘ ’’کیوں نہیں مانے گا ،ہماری بیٹی میں کس چیز کی کمی ہے۔ امریکا جیسے مُلک میں رہنے کےلیے پرفیکٹ ہے،بقول تمہارے پردے کی بو بو تھوڑی ہے۔ ‘‘ بہت عرصے بعد یاسر کے لہجے میں شوخی در آئی تھی۔رات گئے تک دونوں میاں بیوی ہالہ سے متعلق اپنی تمنائوں کے محل سجاتے رہے۔

اگلا دن عمّارہ کو کاٹنا مشکل ہو گیا تھا۔ ڈور بیل کی آواز پر وہ خود دروازہ کھولنے دوڑی، لیکن شوہر کا چہرے دیکھ کر ٹھٹک کےرہ گئی۔’’کیا ہوا؟‘‘’’اندر تو آنے دو‘‘یاسر نے اُسے ہاتھ سے ایک طرف کر دیا۔’’مَیں پانی لاتی ہوں ۔‘‘ ’’نہیں، پانی کی ضرورت نہیں ‘‘ یاسر نے سینہ مسلتے ہوئے کہا۔’’کیا ہوا بتائیے ناں ؟‘‘ عمّارہ کی سانس رُک رہی تھی۔’’وہ میرا جگری دوست تھا، ہم نےاچھا، برا بہت ساوقت ساتھ گزارا، اور آج اسی کے بیٹے نے… وہ یہ سب نہ کہتا ،بس انکار کر دیتا تو اللّٰہ کی قسم مجھے دُکھ نہ ہوتا۔‘‘ ’’بتائیں توکیا ہوا؟‘‘عمّارہ تڑپ کر رہ گئی۔

’’علی نے کہا کہ مجھے جگہ جگہ رُلنے والی سے شادی نہیں کرنی۔ مجھے توایسی لڑکی پسند ہے ، جو حیا کا پیکر ہو۔جسے کسی نا محرم نےنہ دیکھا ہو ، اُس کے ساتھ گھوما پھرانہ ہو۔ ہالہ جیسی بے باک لڑکیوں کے ساتھ دوستی تو کی جا سکتی ہے،لیکن اُنہیں زندگی کا ساتھی نہیں بنایا جا سکتا …‘‘یاسر آگے بھی کچھ کہہ رہے تھے ،مگر عمّارہ کے دماغ پر تو بس یہی الفاط ہتھوڑے کی طرح برس ر ہے تھے۔

’’اس جیسی…ہالہ جیسی…‘‘عمّارہ کو لگا ،وہ زمین میں دھنستی چلی جا رہی ہے۔ اس کے کان سُن ہورہے ہیں۔ اب اُسے اپنی ننّھی سی ’’پردے کی بوبو‘‘ بہت یاد آرہی تھی، ’’مَیں بغیر آستین کے کپڑے نہیں پہنوں گی…‘‘