ریاستِ مدینہ، ایک مقدس سرزمین

November 17, 2019

لیاقت مظہر باقری، گلشنِ اقبال، کراچی

اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے مُلک ، پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ اسے قائداعظم اور لیاقت علی خاں کے بعدآج تک کو ئی قابل، لائق ، نڈر یا سچّا لیڈر نصیب نہیں ہوا۔حکومت ہو یا آمریت ہر دَور ہی میں اس کے ساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھا گیا۔جس کو موقع ملا، اُس نے مُلک کو دونوں ہاتھوں سے لُوٹا۔خزانے خالی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، لیکن یہ وطنِ عزیز صرف ایک سر زمین ہی نہیں ،عطیۂ خداوندی ہے ،ایک نعمت ہے ،جب ہی تو اس کے خزانے آج تک خالی ہوئے اور نہ ہی دشمن اسے تباہ کر سکا۔ تاہم، مختلف ادوار میں اسے کافی نقصان ضرور پہنچااور نتیجہ بد امنی، بے روزگاری اور منہگائی کے سیلاب کی صُورت نکلا۔

پریشانیوں میں گِھرے عوام نے سوچا کہ 2018ء کے عام انتخابات میں نئی جماعت کو آزمایا جائے کہ شاید مُلک کو ورلڈ کپ جِتوانے والا کپتان ان کی پریشانیوں کو بھی شکست دے دے۔ عمران خان نے بھی اقتدار سنبھالتے ہی مُلک کو ’’ریاست ِ مدینہ‘‘ بنانے کی نوید سُنائی، جہاں عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا، منہگائی، بے روزگاری ، ناخواندگی کا خاتمہ ہوجائےگا، لیکن تا حال نتائج ان کے وعدوں کے بر عکس ہی نظر آرہے ہیں۔

آج ہر دوسرا شخص ریاستِ مدینہ کا نام لے کر پاکستان تحریکِ انصاف کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ پر، ہمیں یہ بات ہر گز نہیں بھولنی چاہیے کہ مدینہ یا ریاستِ مدینہ ہمارے لیے مقدّس ترین سر زمین ہے۔

اسے اپنے لطیفوں، تنقید میں جس طرح شامل کیا جا رہاہے، یہ ہر گز مناسب نہیں ۔ اسی طرح دوسری جانب اہلِ اقتدار سے بھی گزارش ہے کہ وہ ایک انتہائی قابلِ احترام مقام کوسیاست یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے گریز کریں۔