’’عبداللہ III‘‘ (انیسویں قسط)

November 17, 2019

کمال صاحب گھبرا کر کھڑے ہوگئے۔ ’’نواب تیمور کےگھر کی سواری… اور یہاں … ارے بھائی، باہر کسی نے پوچھا بھی ہے، سب خیر تو ہے ناں…‘‘ کمال صاحب تیزی سے باہر کی طرف لپکے اور پھر کچھ ہی دیر میں وہ ایک ادھیڑ عُمر شخص کے ساتھ ہنستے ہوئے دوبارہ گھر کے باغیچے میں داخل ہوئے۔ ’’بھئی عبداللہ! ان سے ملو، یہ اصغر صاحب ہیں، نواب صاحب کے منیجر۔ وہی جن کا میں نے تم سے تذکرہ کیا تھا۔‘‘ اصغر صاحب نے مجھ سے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔ ’’اچھا۔ تو آپ ہیں عبداللہ، خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔‘‘ کمال صاحب نے منیجر کی خاطر مدارت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی، مگر اُسے جانے کی جلدی تھی۔ ’’نہیں کمال صاحب! کسی تکلّف کی ضرورت نہیں، دراصل نواب صاحب نے آپ کو اور آپ کے مہمان کو آج رات کھانے پر مدعو کیا ہے، دعوت قبول کیجیے۔ ہماری عزت افزائی ہوگی۔‘‘ کمال صاحب نے بڑی مشکل سے اپنے چہرے پر اُبھرتے حیرت کے تاثرات کو خوشی اورنیازمندی کےقالب میں ڈھالا۔ ’’آج رات… ضرور، مگر یہ تکلّف کیوں… اس طرح اچانک‘‘ اصغر صاحب نے رواداری کا مظاہرہ کیا۔ ’’بس یوں سمجھیے کہ اشتیاق ہے نواب صاحب کو اللہ والوں سے ملنے کا۔ خبر ملی کہ آپ کے گھر بھی کوئی ایسا مہمان ٹھہرا ہوا ہے، تو ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ باقی یہ دعوت وغیرہ تو بس مل بیٹھنے کا اِک بہانہ ہے۔‘‘ کمال صاحب نے میری طرف دیکھا۔ مَیں نے اثبات میں سرہلا دیا۔ اصغر صاحب نے رُخصت لی اور یہ بھی بتادیا کہ رات ساڑھے آٹھ بجے نواب صاحب کی خصوصی گاڑی ہمیں لینے دروازے پر موجود ہوگی۔ منیجر کے جانے کے بعد کمال صاحب نے سینے میں دبی سانس آزاد کی ’’میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ نواب تیمور جیسا مغرور شخص یوں خود تم سے ملنے کی خواہش کا اظہار کرے گا۔ تمہارا اندازہ بالکل درست تھا۔ آج مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں نےتو آج تک صرف کورس کی کتابیں ہی پڑھی ہیں، تعلیم حاصل نہیں کی۔ مَیں تو ابھی تک انسانی روپّوں سے قطعی ناواقف ہوں۔‘‘ مَیں نے انہیں تسلّی دی ’’ایسا نہیں ہے، یہ بلاوا بھی آپ کی حیثیت اور مرتبے کی وجہ ہی سے آیا ہے۔ اگر نواب تیمورکو یہ نہ بتایا جاتا کہ مَیں آپ کے گھر مہمان ٹھہرا ہوا ہوں، تو ایک انجان جوگی، بنجارے کو کبھی شرفِ ملاقات عطا نہ ہوتا۔ مَیں نے تو بس اندھیرے میں ایک تیر چلایا، جو اتفاق سے ٹھیک نشانے پر جا لگا۔‘‘ کمال صاحب چُپ رہے۔ لیکن اُن کے چہرے سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ ابھی نواب تیمور کے گھر سے یوں اچانک بلاوےپر حیرت کے جھٹکے سے باہر نہیں نکلے۔

ٹھیک وقت پر ایک عالی شان گاڑی باوَردی شوفر اور ایک مسلّح محافظ کے ساتھ ہمیں لینے پہنچ گئی۔ کمال صاحب نےمیری پوشاک کی طرف دیکھا، جسے آج صبح ہی اُن کا دھوبی دھو کر مجھے واپس کرگیا تھا۔ ’’تم کچھ اور پہننا چاہو، تو میری الماری میں دیکھ لو۔ ہمارا ناپ قریباً ایک جیسا ہی ہے۔‘‘ مَیں مُسکرادیا۔ ’’نواب نے ایک فقیر کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی ہے، کسی رئیس کو نہیں۔ مجھے میرے فقیری چولے ہی میں رہنے دیں۔‘‘ کچھ دیر بعد ہم نواب کی گاڑی میں اُس کے محل کی طرف رواں دواں تھے۔ مَیں راستے بھر اللہ سے گِڑگڑا کر یہی دُعا کرتا رہا کہ ’’میری لاج رکھ لے۔ تیرے ہی ہاتھ میں عزت ہے اور ذلّت بھی۔ پس، میرا معاملہ عزت والا ہی رہے۔ گو، مَیں اس قابل تو نہیں۔‘‘ گاڑی تیزی سے مختلف کشادہ اور دو رویہ سڑکوں پر دوڑتی ایک شان دار گیٹ سے اندر داخل ہوئی اور میری آنکھیں روشنیوں سے چندھیا سی گئیں۔ وہ واقعی کوئی حویلی نہیں، ایک وسیع و عریض محل تھا، جس کے ڈرائیو وے سے پورچ تک پہنچنے کا راستہ اورلان بھی ایکڑوں میں پھیلا ہوا تھا۔ سنگِ مرمر کی پُرشکوہ عمارت، بالکونیاں، دریچے، راہ داریاں، چِلمنیں، منزل درمنزل غالیچے، فانوس، دبیز قالین اور پھولوں سے بَھرے رستے، وہ سبھی کچھ تھا، جو کسی محل کو تاج محل بنانے کے لیے درکار ہوتا ہے۔ میرے ذہن میں ایک عجیب سی بات آئی۔ رحیم گڑھ کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہنے والی مہرو نے جب نواب کا یہ محل دیکھا ہوگا، تو اُس کے دل میں پہلا خیال کیا آیا ہوگا۔ مگر اُس کے دل میں تو اس کا محبوب احمد بستا تھا۔ تو پھر وہاں کسی دوسرے خیال کی گنجائش ہی کہاں ہوگی۔ اُسے تو اپنے احمد کے ساتھ کسی کُٹیا میں رہنا بھی قبول تھا اور احمد کے بنا یہ محل بھی اس کے لیے کسی کُٹیا جیسا ہی ہوگا۔ یہ محبت بھی کتنی عجیب شے ہوتی ہے۔ چیزوں کی حقیقت پل بھر میں کیسے بدل کر رکھ دیتی ہے۔ تاج محل کو جھونپڑی اور بوسیدہ سی کُٹیا کو تاج محل میں تبدیل کردیتی ہے۔ سچ ہے کہ محبت کا اپنا سکّہ چلتا ہے۔ گاڑی پورچ میں رُکی تو منیجر صاحب ہمارے استقبال کےلیے موجود تھے۔ وہ جلدی سے آگے بڑھے ’’آئیے آئیے، زہے نصیب… نواب صاحب آپ لوگوں کا بارہ دَری میں انتظار کررہے ہیں۔‘‘ نواب کی نوابی خُو نے اُسے ایک فقیر کے استقبال کےلیے گھر سے باہر پورچ میں آنے سے روک رکھا تھا۔ ہم مختلف راہ داریوں اور غلام گردشوں سے ہوتے بارہ دری کی طرف بڑھتے گئے۔ ہر چیز سے نفاست، امارت اور اعلیٰ ذوق کی نشان دہی ہورہی تھی۔ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند مجھے کہیں لگا دکھائی نہیں دیا۔

ایک بڑے ہال سے گزر کر ہم ایک بہت طویل صحن میں جانکلے، جہاں چار اطراف سے بارہ بڑے دروازے صحن میں کُھلتے تھے۔ صحن کے وسط میں بہت بڑا تالاب تھا، جسے آج کل کی زبان میں لوگ سوئمنگ پول کہتے ہیں۔ نواب صاحب وہیں کنارے پر بچھی کرسیوں کی جانب بیٹھے ہمارا انتظار کررہے تھے۔ تالاب کے پانی کے اندر روشنی کا انتظام یوں کیا گیا تھا کہ تالاب میں اٹھنے والی ہرلہر کا عکس باہر صحن کی دیواروں پر چاندنی سی بکھیر رہا تھا۔ نواب نےغور سےہماری طرف دیکھا۔ یہ پینتیس چالیس سال کا لمبے قد اور مضبوط کسرتی جسم والا ایک وجیہہ شخص تھا، جس کی آنکھوں میں تیز چمک تھی۔ وہ غالباً کمال صاحب کے ساتھ کسی بزرگ یا عُمر رسیدہ شخص کے آنے کی توقع میں بیٹھا تھا۔ اورمجھےدیکھ کرشایداُسے مایوسی ہوئی، جس کا اظہار اُس نے ہم سے ہاتھ ملاتے ہی کردیا ’’معاف کیجیےگا، مَیں سمجھا کہ کوئی بزرگ اللہ والے ہوں گے، مگر یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اب نوجوان بھی تصوّف کی راہ پر چل پڑے ہیں۔‘‘ کمال صاحب نے گڑبڑاکرکچھ کہنے کی کوشش کی، مگر مَیں نےاُن سے پہلے ہی بڑے تحمّل سے جواب دے دیا۔ ’’عُمر انسان کے اندرطے ہوتی ہے صاحب! باہر بیتنے والے تو بس کچھ دن، مہینے اور سال ہوتے ہیں۔‘‘نواب نےچونک کرمیری طرف دیکھا ’’خوب… بڑی گہری بات کہہ دی۔ آئیے، جب تک کھانا لگتا ہے، ہم یہیں کچھ دیر کُھلی ہوا میں بیٹھتے ہیں۔‘‘ تھوڑی ہی دیر میں کچھ نوکر ہاتھوں میں کوئی لذیذ مشروب اور چند میوہ جات کے خوان اٹھائے پہنچ گئے اور ایک بٹلر کی سربراہی میں ساری چیزیں میز پر نفاست سے چُن دیں۔ اتنی دیر تک نواب اور کمال صاحب اپنے پسندیدہ موضوع باغ، باغ بانی اور پیوندکاری کے نئے طریقوں پر گفتگو کرتے رہے۔ کمال صاحب کو واقعی اپنے فن پر پورا عبور حاصل تھا۔ وہ جنگلات اور باغ بانی سے متعلق نواب صاحب کو مفید مشورے دیے رہے تھے۔ درمیان میں نواب نے ایک آدھ بار مجھ سے بھی کوئی بات کی، جس کا مَیں نے مختصر سا جواب دیا۔ مَیں نہیں چاہتا تھا کہ وہ اتنی جلدی میرے بارے میں کوئی اندازہ لگانے میں کام یاب ہوں۔ مجھے یہ کھیل یا یہ جنگ بہت دھیمے انداز میں لڑنی تھی۔ مَیں آس پاس در و دیوار کا جائزہ لیتا رہا۔ اور یہ سوچ کر ہی میری نَسوں میں خون کی گردش تیز ہوتی رہی کہ اِنہی دیواروں میں سے کسی کے پیچھے شاید اس وقت مہرو بھی بیٹھی ہو۔ یا شاید جن غلام گردشوں سے چل کر ہم اِس بارہ دری تک پہنچے ہیں، اُنہی میں سے کسی ایک کے عقب میں وہ کسی قفس یا زنداں میں قید ہو، مَیں انہی سوچوں میں گم تھا کہ اندر سے بڑے بٹلر نے کھانا لگنے کی اطلاع دی۔ نواب نے اُٹھنے سے پہلے اپنا مدّعا بھی ظاہر کردیا۔ ’’آپ لوگوں کو یوں اچانک زحمت دینے کی معذرت چاہتا ہوں… دراصل میری اپنی ایک غرض ہے اور مایوسی اس حد تک پہنچ چُکی ہے کہ جہاں سے ذرا سی بھی اُمید بندھتی ہے… ہم سب اُس دَر پر دستک دے دیتے ہیں، خاص طور پر میری اہلیہ نواب بیگم اس مسئلے سے شدید کرب و اذیّت میں ہیں۔ ہماری ایک ہی نرینہ اولاد ہے، جو اس ساری جاگیر کا وارث بھی ہے، ہمارا بیٹا شہریار۔ اِس سال اُسے کالج کے آخری سال میں ہونا چاہیے تھا۔ مگر نہ جانے اُس کا ذہن کہاں بھٹکتا رہتا ہے۔ عجیب بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے۔ سارا دن تصویریں بناتا اور اپنے کمرے میں بند رہتا ہے۔ مَیں اب کیا بتائوں، مجھے تو اس کے پاگل پن کا بتاتے ہوئے بھی جھجھک آتی ہے۔ پہلے وہ ایسا نہیں تھا۔ بس ایک بار ہمارے ساتھ یورپ کے دورے پر گیا، تو وہاں لندن سے آگے ہم ایک ویران قلعے کی سیر کو گئے تھے۔ وہیں سے آنے کے بعد اُس کی یہ حالت ہوگئی۔ اُس وقت وہ دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ بزرگ کہتے ہیں، اُس پر وہاں کسی آسیب کا سایا ہوگیا ہے۔ مَیں خود ان باتوں پر یقین نہیں رکھتا، اِسی لیے نواب شہریار کو دنیا کے ہر بڑے ماہرِ نفسیات اور معالج کو دکھا چُکا ہوں، مگر کچھ خاص افاقہ نہیں ہوا۔ ڈاکٹرز کہتے ہیں وقت کے ساتھ شہریار کی حالت ٹھیک ہوجائے گی، مگر تین چار سال ہونے کو آئے ہیں۔ مجھے تو بہتری کے کچھ آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ نواب بیگم نے آپ کے مہمان کے بارے میں سُنا تو اصرار کر بیٹھیں کہ جہاں اتنے معالج آزمائے ہیں، وہاں ایک جوگی فقیر کی دُعا نے لینے میں کیا حرج ہے۔ بس، اسی لیے آپ کو زحمت دی۔‘‘

کھانے کی میز پر ہم تینوں کے علاوہ چوتھا نواب کا شرمیلا، چُپ چاپ سا بیٹا شہریار ہی تھا۔ وہ انیس بیس سال کا نوجوان تھا، جو پورا وقت خاموش نظریں جُھکائے بیٹھاکھانا کھاتا رہا۔ زمانے بھر کی سوغاتیں میز پر موجود تھیں، مگر شہریار نے صرف چند لقمے ہی لیے۔ اُس کے انداز سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ اپنے اوپر بہت جبر کرکے وہاں بیٹھا ہوا ہے۔ مجھے ایک اور عجیب سا احساس ہوا، جیسے کسی کی دو آنکھیں ہمیں پورے کھانے کے دوران مسلسل دیکھ رہی ہوں۔ کمال صاحب نے یوں ہی شہریار سے اُس کے مشاغل کے بارے میں پوچھا، تو اس نے گول مول سا جواب دیا کہ ’’فارغ وقت میں پینٹنگ کرتا ہوں۔‘‘ نواب صاحب یہ اُمید لگائے بیٹھے تھے کہ مَیں شہریار کے سر پر ہاتھ رکھ کر کچھ پڑھوں گا یا اُس کےلیےکوئی وظیفہ وغیرہ تجویز کروں گا، مگر شہریار نے جلدی جلدی کھانا ختم کیا اور باپ سے اپنے کمرے میں جانے کی اجازت لے کر اُٹھ گیا۔ ’’مَیں ذرا اپنی پینٹنگ مکمل کرلوں۔‘‘ شہریار جلدی میں کمرے سے نکل گیا۔ نواب نے ایک گہری سانس لی ’’دیکھ لیا اس کا رویّہ آپ نے۔ سارا دن اپنے آپ سےجانے کیا باتیں کرتا رہتا ہے۔ اپنی ماں کو عجیب و غریب کہانیاں سُناتا ہے کہ جب سب لوگ سوجاتے ہیں، تب یہ شہر پھر سے جاگ اُٹھتا ہے۔ یہاں لوگ چلتے پھرتے ہیں۔ اپنے گھر میں بھی اِسے لوگ بولتے، چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ راتوں کو باہر بالکونی، تو کبھی چھت اور کبھی بارہ دری کی طرف نکل جاتا ہے۔ پڑھائی کی طرف سے اِس کا دھیان بالکل ہٹ چُکا۔ جانے کس زمانے کی تصویریں بناتا رہتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کیا کروں اس لڑکے کے پاگل پن کا۔ اچھا خاصا ذہین طالب علم تھا… مَیں نے سوچا تھا کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے آکسفورڈ یا ہارورڈ بھیجوں گا اسے۔ میرا سہارا، میرا بازو بنے گا، مگر لگتا ہے، میرے سارے خواب بس خواب ہی رہ جائیں گے۔‘‘ نواب تیمور کی مایوسی اُس کے چہرے سے صاف نظر آرہی تھی۔ یہ جاگیر، سلطنت، بادشاہت و مملکت بھی کیا عجب سزائیں ہوتی ہیں۔ جیتے جی اپنے بس میں رکھنے کی تگ و دو اور مرنے کے بعد وارث، وراثت کا غم۔ اس سے تو فقیری بھلی۔ نہ یہاں کی سوچ، نہ وہاں کی فکر۔ نواب میری طرف سے کسی کرشمے کی اُمید بھی چھوڑ چُکا تھا۔ اور اب اس کی آواز میں ہلکی سی اُکتاہٹ محسوس ہو رہی تھی۔ کمال صاحب نےفوراً اچھے مہمان کے آداب کا خیال رکھتے ہوئےنواب سےرُخصت چاہی۔ نواب بھی ہمارے ساتھ ہی کھڑا ہوگیا۔ تبھی میں نے خلافِ توقع نواب سے ایک اجازت چاہی ’’اگر آپ اجازت دیں، تو مَیں کچھ دیر کے لیے شہریار سے اُس کے کمرے میں مل آئوں؟‘‘ نواب تیمور نے چونک کر میری طرف دیکھا ’’شہریار کے کمرے میں …!!‘‘ وہ کچھ ہچکچایا پھر بولا ’’ہاں ہاں… کیوں نہیں… اور کسی خادم کو آواز دے کر میری شہریار کے کمرے تک رہنمائی کرنے کو کہا۔ مَیں نوکر کے ساتھ محل کے رہائشی حصّے کی طرف چل پڑا۔ ہر کمرے، ہر دروازے اور ہر دیوار پر یہی گمان ہوتا رہا کہ مہرو ان ہی دیواروں کے پیچھے کہیں قید بیٹھی ہوگی۔ مَیں ہر آہٹ، ہر سرگوشی پرچونک چونک جاتا، پتانہیں، یہ دیواریں کس نے ایجاد کی ہیں۔ پہلی بار تاریخ میں کس نے گھر یا پردے کے لیے یہ دیوار اٹھائی ہوگی۔ مَیں نے سوچا کہ یہی دیواریں آج مجھے بہت کھَل رہی تھیں۔ جیل زندان اورقیدخانےبھی تو انہی دیواروں سے بنتے ہیں۔ نوکر مجھے لے کر ایک دروازے تک پہنچا اور دروازے پر دھیرے سے دستک دی۔ اندر سے شہریار کی بے زار سی آواز اُبھری ’’کون ہے، کتنی بار کہا ہے کہ مجھے اِس وقت تنگ نہ کیا جائے۔‘‘ مَیں نے تھوڑا سادروازہ کھولا، ’’کیا مَیں اندر آسکتا ہوں؟‘‘ شہریار مجھے دیکھ کر ہڑبڑا سا گیا۔ ’’جی جی… آئیے پلیز…‘‘ میں کمرے میں داخل ہوگیا۔

سارا کمرا مختلف تازہ اور پرانی بنی ہوئی پینٹنگز سے بھرا ہوا تھا۔ مَیں نے شہریار کی بنائی ایک دو پینٹنگز اُٹھا کر غور سے دیکھیں۔ وہ چُپ چاپ کھڑا رہا۔ تمام تصویروں میں گہراسرخ رنگ اور الجھی ہوئی لکیریں نمایاں تھیں، جیسے شہریار کے اندر کی الجھنیں اورشدیدبےچینی سمٹ کران تصویروں میں اُبھر آئی ہو۔ ’’مَیں نے اُس کی طرف دیکھا ’’مَیں جب میٹرک میں تھا، تو مجھے بھی پینٹنگ کا بہت شوق تھا۔ مَیں باقاعدہ ایک آرٹ گیلری میں شام کی کلاسز لینے جایا کرتا تھا، مگر سچ بتائوں۔ میں تمہاری طرح کبھی اتنی اچھی تصویر نہیں بنا پایا۔ خاص طور پر یہ ایفل ٹاور اور سامنے والی سڑک پر بارش کے پانی میں ٹاور کا یہ عکس… بہت عُمدہ… مجھے لگا، مَیں بھی کہیں اِسی سڑک کے کنارے بچھے کسی بینچ پر بیٹھا ہوا ہوں۔‘‘ شہریار نے پہلے حیرت اور پھر دل چسپی سے میری طرف دیکھا۔ ’’کیا واقعی، آپ کو میری تصویریں پسندآئیں، مگرآپ تو …؟ میرا مطلب ہے، کیا واقعی آپ کو بھی پینٹنگ کا شوق رہا ہے۔ آپ کو دیکھ کر ایسا لگتا نہیں۔‘‘ مَیں مُسکرادیا ’’ہاں، اب تو مجھے دیکھ کر بالکل بھی ایسا نہیں لگتا ہوگا۔‘‘ شہریار نے جھجکتےہوئے مجھ سے پوچھا ’’کیا آپ کوئی پیر ہیں۔ امّی نے بتایا تھا کہ آج ڈنر پر کوئی پیر صاحب ہمارے گھر آرہے ہیں…‘‘ مَیں شہریار کی بات سُن کر ہنس پڑا ’’ارے نہیں، پیر تو بڑی اعلیٰ ہستی ہوتی ہوگی۔ مَیں تو بس عبداللہ ہوں۔ ایک طالب علم کہہ سکتےہومجھے۔ اچھا تم مجھے یہ بتائو، تمہاری تصویروں میں بارش، بھیگی سڑکیں، لیمپ، پوسٹ، بینچ اور شام سے ذرا پہلے کے وقت کی بہت عکّاسی ہے۔ تم نے کمرا، کھڑکی، دریچہ یا بالکونی بھی اگر پینٹ کی ہے، تو باہر تم نے بھیگی سڑک، لڑکی، چھتری اور بھیگا موسم ہی دکھایا ہے۔ کیا تمہیں بارشیں بہت پسند ہیں؟‘‘ شہریار کے چہرے پر چھایا تنائو اب مکمل دُھل چُکا تھا۔ وہ پہلی مرتبہ کُھلے دل سے بولا ’’ہاں واقعی، مجھے بارش، شام اور اندھیرا ہونے سے پہلے شام کی بھیگی روشنی میں جلتے لیمپ پوسٹ بہت اچھے لگتے ہیں۔ مَیں نے یہ سب ابّا جان کے ساتھ یورپ کے ٹور پر دیکھا تھا۔ بس انہی یادوں کو پینٹ کرتا رہتا ہوں۔ کیا آپ کبھی یورپ گئے ہیں۔ لندن یا پیرس؟ وہاں کی شامیں، وہاں کی بارشیں کتنی خُوب صُورت ہوتی ناں… میرا دل کرتا، میں وہ سب منظر پینٹ کرکے اپنے کینوس میں قید کرلوں، مگر پھر ڈرتا ہوں کہ کہیں یہ منظر مجھ سے رُوٹھ نہ جائیں۔‘‘ مَیں نے چونک کر شہریار کی طرف دیکھا۔ ایک بیس سالہ لڑکے کی زبان سے اتنی گہری بات کی توقع نہیں تھی مجھے ’’تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ منظر رُوٹھ جائیں گے۔ آخر زمانے بھر کے یہ آرٹسٹ، پینٹر ایسے ہی منظر تو پینٹ کرتے ہیں۔ اِنہی لمحوں کو تو اپنے کینوس پر برش سے اُتارتے ہیں۔ تو کیا یہ منظر اُن سے بھی روٹھے رہتے ہوں گے؟‘‘شہریار نے غور سے میری طرف دیکھا۔ ’’پتا نہیں کیوں، مگر مجھے ایسا ہی لگتا ہے کہ جب ہم کوئی تصویر بناتے ہیں اور اُس میں قدرت کے رنگ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہم اُس بارش، شام، برف باری، سڑک، چلتی بس، چھتری تانے گزرتی لڑکی اور لڑکے کو جیسے فریم میں قید کرلیتے ہیں۔ وہ لمحہ تو آگے گزر جاتا ہے، مگر اُس لمحے کی روح ہمارے کمرے یا گیلری میں اُس تصویر کے فریم میں قید، بے چین تڑپتی رہتی ہے، پھر سالوں بلکہ صدیوں بعد بھی وہ منظر اِسی طرح تصویر میں زندہ رہتا ہے۔ پھر کبھی وہ کردار، تصویر سے باہر جھانک کر ہم سے بات کرنے لگتا ہے، یا کبھی کبھی ہم تنہائی میں غور سے اپنے یا کسی اور کے پینٹ کیے منظر کو بیٹھ کر دیکھیں، تو وہ تصویر ہمیں اپنے اندر کھینچ لیتی ہے۔ ہمیں اُسی لمحےکی سیر کرواتی ہے اور ہم وہی موسم، بارش، سردی، ہوا سب محسوس کرنے لگتے ہیں۔‘‘ مَیں نے دھیرے سے کہا۔ ’’نہ صرف یہ بلکہ کبھی کبھی تو ہم اس سڑک یا گلی سے ملحقہ آگے پیچھے کی گلیاں، مکان اور چہرے بھی دیکھ آتے ہیں۔ گویا وہ تصویرہمارے لیے ایک دوسری دُنیا کی کھڑکی یا دروازہ بن جاتی ہے۔ اور ہم اُس عکس کی مکمل سیر کر لیتے ہیں۔‘‘ شہریار نے خوشی اور حیرت سے قدرے چلّا کر کہا ’’ہاں! بالکل، کیا آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے…‘‘ ’’ہاں، کئی بار کوئی خُوب صُورت اور گہری پینٹنگ دیکھتے ہوئے ایسا ہوا ہے۔ شاید ساری بات احساس اور دھیان دینے کی ہے۔ زندہ لمحے تصویر میں بھی جیتے ہیں اور آئینے کا سا اثر رکھتے ہیں۔ ہر تصویر کے پیچھے اُس لمحے کی کہانی زندہ رہتی ہے۔ ہمیں بُلاتی ہے، دیکھنے کی دعوت دیتی ہے۔‘‘ شہریار کا منہ حیرت سے کُھلا ہوا تھا۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی اور نواب تیمور، کمال صاحب کے ساتھ اندر آگئے۔ کمال صاحب نےمیری طرف دیکھا۔ ’’بھئی عبداللہ میاں! رات بہت ہوچُکی۔ نواب صاحب کے آرام کا وقت ہے یہ۔ تو ہمیں چلنا چاہیے۔ میں نےمعذرت چاہی ’’اوہ… معاف کیجیےگا۔ مجھے باتوں میں خیال ہی نہیں رہا… ہمیں اجازت ہے نواب صاحب۔‘‘ تبھی شہریار نے بے چینی سے باپ کی طرف دیکھا اور جلدی سے بولا ’’ابا جان! کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ پیر صاحب آج رات یہیں رُک جائیں…؟؟‘‘ نواب تیمور اور کمال صاحب دونوں نے ایک دَم شدید حیرت سے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ (جاری ہے)