دردِ دل کے واسطے....

November 17, 2019

(عکّاسی :اسرائیل انصاری)

’’سائیں! تین دن پہلے میرے سینے میں اچانک شدید تکلیف شروع ہو ئی۔لگتا تھا کہ ابھی جان نکل جائے گی۔ باپ اور بھائی پہلے مُجھے حیدر آباد لے گئے۔ وہاں ڈاکٹروں نے معائنہ کیا اور دوا دی۔ درد کچھ کم ہوا، تو کراچی بھیج دیا۔ یہاں پہلے ایمرجینسی میں علاج ہوتا رہا اور پھر وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا۔‘‘ اتنا کہنے کے بعد نحیف ونزار مریض نے کچھ دیر توقف کیا اور پھر ایک گہری سانس لے کے بولا کہ’’مَیں میر پور خاص کے علاقے سندھڑی سے آیا ہوں۔ محنت مزدور ی کر کے اپنا اور کنبے کا پیٹ پالتا ہوں۔ آمدنی اتنی ہے کہ صرف دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرسکتا ہوں۔

چار چھوٹے بچّے ہیں۔ جب درد اُٹھا، تو بیماری سے زیادہ اس بات کی فکر کھائے جا رہی تھی کہ اگر مُجھے کچھ ہو گیا، تو بیوی بچّوں اور بوڑھے والدین کا کیا بنے گا، مگر جب یہاں پہنچا اور علاج معالجہ شروع ہوا، تو کچھ اُمید بندھی ،احساس ہوا کہ ہم غریبوں کا بھی کوئی والی وارث ہے۔ اسپتال کا عملہ ہر مریض کے ساتھ اچھاسلوک کرتاہے ۔

مُجھے ان سے کوئی شکایت نہیں۔ ڈاکٹر باقاعدگی سے چیک اپ کرتے ہیں اور دوائیاں بھی مل رہی ہیں،پھر تین وقت کا کھانا اور دو وقت کی چائے بھی مفت ملتی ہے،تو میری صحت آہستہ آہستہ بہتر ہو رہی ہے۔‘‘ ان خیالات کا اظہارکراچی میں واقع ، قومی ادارہ برائے امراضِ قلب کے میڈیکل وارڈ میں زیرِ علاج 40سالہ غلام مصطفیٰ نے کیا۔

غیر صحت مندانہ طرزِ زندگی، غیر متوازن غذا اور مصائب و آلام کی وجہ سے شہری آئے روز نِت نئے امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب مُلک میں علاج معالجے کی معیاری سہولتوں کا شدید فقدان ہے۔ دیگر عوارض کی طرح پاکستان میں امراضِ قلب میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

تاہم، دِل کی بیماریوں پر قابو پانا اس لیے از حد ضروری ہے کہ ہمارے ہاں بالعموم 30،40اور 50برس کے افراد کو ہارٹ اٹیک ہوتا ہے اور غلام مصطفیٰ کی طرح ان ایج گروپس سے تعلق رکھنے والے افراد ہی اپنے خاندان کے کفیل ہوتے ہیں۔ لہٰذا، ان افراد کے امراضِ قلب میں مبتلا ہونے کی وجہ سے پورا کُنبہ مالی مشکلات سے دو چار ہو جاتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دِل کے عوارض کے شکار مریضوں کے لیے علاج معالجے کی سہولت کس قدر ضروری ہے اور اس ضمن میں کراچی میں قائم این آئی سی وی ڈی (نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار کارڈیو ویسکیولر ڈیزیز) یا قومی ادارہ برائے امراضِ قلب کا کوئی ثانی نہیں۔

یہ ادارہ اپنی مفت طبّی سہولتوں کے باعث پاکستان سمیت بیرونِ مُلک سے آنے والے غریب و نادار مریضوں کی امیدوں کا مرکز ہے، تو اپنی بین الاقوامی معیار کی حامل مہارتوں اور مشینری کے باعث متموّل طبقے کی بھی ترجیح بن چکا ہے۔ این آئی سی وی ڈی کا قیام 1963ء میں عمل میں آیا، جسے بعد میں ایک ٹرسٹ میں تبدیل کر دیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دَور میں یہ وفاقی حکومت کی تحویل میں چلاگیا۔

تاہم، اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد اس کا نظم و نسق دوبارہ سندھ حکومت کو سونپ دیا گیا۔ اس وقت سندھ بھر میں این آئی سی وی ڈی کے کُل 22یونٹس کام کر رہے ہیں، جن میں این آئی سی وی ڈی، کراچی کے علاوہ 12چیسٹ پین یونٹس (سی پی یوز) اور 9سیٹلائٹ سینٹرز شامل ہیں۔ یہ سیٹلائٹ سینٹرز بھی باقاعدہ اسپتال ہیں، جن میں جدید طبّی سہولتیں میسّر ہیں۔

نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے

یہ مراکز لاڑکانہ، ٹنڈو محمد خان، حیدر آباد، سیہون، سکھر، نواب شاہ، مِٹّھی، خیر پور اور لیاری میں قائم ہیں۔سکھر کا سیٹلائٹ سینٹر 300بیڈز پر مشتمل ہے اور اس کا رقبہ این آئی سی وی ڈی، کراچی سے بھی زیادہ ہے۔ اسی طرح ٹنڈو محمد خان کا سیٹلائٹ سینٹر200بیڈزپر مشتمل ہے، جب کہ باقی سینٹرز 60 بستروں پر مشتمل ہیں۔ سکھر اور ٹنڈو محمد خان کے سیٹلائٹ سینٹرز میں بائی پاس سرجری بھی ہو رہی ہے۔ 12چیسٹ پین یونٹس میں سے10کراچی اور ایک گھوٹکی اور ایک ٹنڈو باگو میں قائم کیا گیا ہے۔ کراچی میں یہ یونٹس گلشن چورنگی،ملیر ہالٹ،قیوم آباد، آئی آئی چندریگر روڈ، ناگن چورنگی، کریم آباد، لانڈھی، اورنگی ٹاؤن، گِزری اور نیو کراچی میں قائم کیے گئے ہیں۔

کنٹینر پر مشتمل چیسٹ پین یونٹ میں ہمہ وقت ایک کارڈیالوجسٹ موجود ہوتا ہے، جو سینے میں دردکی شکایت لے کر آنے والے مریض کی ای سی جی کرتا ہے۔اگر ای سی جی میں ہارٹ اٹیک کی تشخیص ہوتی ہے، تو اسپرین وغیرہ کے ذریعے وہیں ٹریٹمنٹ شروع ہو جاتا ہے اور پھر بہ ذریعہ ایمبولینس مریض کو اسپتال منتقل کیا جاتا ہے، جہاں اس کی پرائمری انجیو پلاسٹی ہوتی ہے۔اپنے قیام سے لے کر اب تک گزشتہ ڈیڑھ برس میں یہ سی پی یوز 2لاکھ 80ہزار مریضوں کا معائنہ کر چکے ہیں، جن میں سے 6ہزار800ہارٹ اٹیک کے مریض تھے۔ یعنی اس عرصے میں کم و بیش 7ہزار قیمتی جانیں بچائی گئیں۔

این آئی سی وی ڈی کی خدمات کا اندازہ ادارے کی جانب سے پیش کیے گئے اعداد و شمار کے جائزے سے بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ان اعدادو شمار کی رُو سے 2015ء کے بعد این آئی سی وی ڈی ہی میں پرائمری یا ہارٹ اٹیک انجیو پلاسٹی متعارف کروائی گئی اور اس وقت دُنیابھر میں سب سے زیادہ ہارٹ اٹیک کے مریضوں کی انجیو پلاسٹی یہیں ہو رہی ہے۔ صرف 2018ء میں این آئی سی وی ڈی، کراچی میں 8,194انجیو پلاسٹیز کی گئیں، جب کہ سیٹلائٹ سینٹرز میں ہر برس 6سے7ہزارمریضوں کی انجیو پلاسٹی کی جاتی ہیں۔

یکم جنوری 2018ء سے 31اگست 2019ء تک این آئی سی وی ڈی، کراچی کی اوپی ڈی میں مجموعی طور پر7لاکھ 38ہزار سے زاید مریض آئے۔ یعنی اس عرصے میں یومیہ 1,200سے زاید مریضوں کو او پی ڈی میں علاج معالجے کی سہولت فراہم کی گئی۔اسی طرح ایمرجینسی میں کُل 5 لاکھ 42 ہزار 864 (یومیہ 900) مریضوں کو ٹریٹمنٹ دیا گیا۔اس دوران 15,437 (یومیہ25) مریضوں کی انجیوگرافی کی گئی۔

اسی عرصے میں پیڈیاٹرک کیتھ لیب میں 1,614(یومیہ دو سے زاید)مریضوں کا علاج کیا گیا۔ ٹاوی (ٹرانس کیتھیٹر اے اورٹک والو ٹرانسپلانٹس) کا آغاز اگست 2015ء میں ہوا اور مذکورہ بالا عرصے میں 25مریضوں کے دِل کے والوز تبدیل کیے گئے۔اس عرصے میں مجموعی طور پر 6,246(یومیہ 10 سے زاید)ہارٹ سرجریز ہوئیں۔ نیز، اس دورانیے میںایک لاکھ 16 ہزار 791 (یومیہ193) مریضوں کے ایکس ریز ہوئے، جب کہ اس دوران 91,795(یومیہ 151)مریضوں کا ایکو کیا گیا۔

علاوہ ازیں، دیگر سروسز کو ملا کر این آئی سی وی ڈی، کراچی میں مجموعی طور پر 19لاکھ29ہزار سے زاید (یومیہ3,145) مریضوں کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی گئیں۔ اسی طرح این آئی وی سی ڈی کے 8سیٹلائٹ سینٹرز میں قیام سے لے کر 31اگست 2019ء تک 12لاکھ 677امراضِ قلب کے مریضوں کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جا چکی ہے۔

گزشتہ دنوں این آئی سی وی ڈی، کراچی کے خصوصی سروے کے دوران پتا چلا کہ قومی ادارہ برائے امراضِ قلب 650سے زاید بیڈز پر مشتمل ہے۔ اسپتال میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف اور دیگر عملہ اعلیٰ مہارتوں کا حامل ہے اور یہاں دِل کے مختلف امراض کے علاج کے لیے بین الاقوامی معیار کی سہولتیں موجود ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ یہاں پاکستان کے دُور دراز علاقوں کے علاوہ افغانستان اور ایران سے بھی بڑی تعداد میں مریض آتے ہیں۔ یہاں ہارٹ اٹیک کے مریضوں کی انجیو پلاسٹی کے علاوہ دِل کے والو زبھی تبدیل کیے جاتے ہیں۔ نیز، الیکٹرو فزیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں دِل کی بے ترتیب دھڑکن کا جدید طریقوں سے علاج کیا جاتا ہے۔

کیتھ لیب کا اندرونی منظر

این آئی سی وی ڈی، کراچی میں امراضِ قلب میں مبتلا بچّوں کے لیے اپنی نوعیت کا منفر د شعبہ قائم ہے،جہاں مُلک بھر سے آنے والے بچّوں کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے، جب کہ این آئی سی وی ڈی کے ساتھ ہی سندھ حکومت بچّوں کے لیے امراضِ قلب کا ایک الگ اسپتال تعمیر کر رہی ہے، جو 150بیڈز پر مشتمل ہو گا۔ علاوہ ازیں، اسپتال میںImaging کا شعبہ بھی موجود ہے، جہاں مریضوں کا ایکو ،سی ٹی اسکین ،ای ٹی ٹی اور نیوکلیئر تھیلیمز ٹیسٹ وغیرہ کیا جاتا ہے۔ اسپتال کی وسیع وعریض اوپی ڈی میں یومیہ کم و بیش ایک ہزار مریض معاینے کے لیے آتے ہیں، جب کہ ایمرجینسی میں بھی روزانہ کم و بیش اتنے ہی مریضوں کو لایا جاتا ہے۔

یوں بائی پاس سرجری اور انجیو پلاسٹی وغیرہ کو ملاکر یہاں روزانہ تقریباً 3,000 مریضوں کا مفت علاج ہورہا ہے۔ نیز، ہزاروں مریضوں کوفارمیسی سے مفت ادویہ بھی فراہم کی جاتی ہیں۔اسی طرح تمام سیٹلائٹ سینٹرز اور چیسٹ پین یونٹس سے بھی یومیہ لگ بھگ 3,000مریض مستفید ہوتے ہیں اور یوں یہ قومی ادارہ برائے امراضِ قلب یومیہ 6ہزار مریضوں کو علاج معالجے کی مفت سہولت فراہم کررہا ہے۔

یہاں ہارٹ ٹرانسپلانٹ کے سوا ہر قسم کی پیچیدہ سے پیچیدہ کارڈیک سرجری کاانتظام موجود ہے،جن میں سینہ کھولے بغیر بائی پاس اور آف پمپ سرجری بھی شامل ہے۔ علاوہ ازیں، منصوعی دِل بھی لگائے جا رہے ہیں۔ 2015ء سے پہلے اسپتال کے میڈیکل وارڈز میں وینٹی لیٹرز نہیں تھے، لیکن اب ایمرجینسی ڈیپارٹمنٹ کے علاوہ وارڈز میں بھی وینٹی لیٹرزکی سہولت موجود ہے۔

اسی طرح علاج میں تاخیر سے بچنے کے لیے ڈائیلیسز مشینز کے ساتھ نیفرو لوجسٹس بھی موجود رہتے ہیں۔ آئی سی یو میں اعلیٰ مہارتوں کے حامل انٹینسویسٹ فرائض انجام دے رہے ہیں۔ نیز، ادارے کو اینڈو کرونو لوجسٹس اوریوریا لوجسٹس کی خدمات بھی حاصل ہیں۔سو، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ این آئی سی وی ڈی، کراچی میں امراضِ قلب کے علاج کی کم و بیش وہ تمام سہولتیں موجود ہیں، جو دُنیا کے مشہور امراضِ قلب کے مراکز میں میسّر ہیں۔

یہاں وائٹ کالر یا صاحبِ حیثیت افراد کے لیے ایک ایگزیکٹیو کلینک بھی قائم کیا گیا ہے، جہاںلگ بھگ 5فی صد مریض رقم کے عوض علاج معالجے کی سہولت حاصل کرتے ہیں۔ سیٹلائٹ سینٹرز اور چیسٹ پین یونٹس کی نگرانی کے لیے یہاں باقاعدہ مانیٹرنگ سسٹم موجود ہے اور مختلف سینٹرز میں ہونے والی انجیو پلاسٹیزکی یہیں سے نگرانی کی جاتی ہے۔اگر اس دوران کوئی پیچیدگی سامنے آتی ہے، تو واٹس ایپ کے ذریعےانجیو گرام کی تصویریں بھیج دی جاتی ہیں اور سینئرکارڈیالوجسٹس اپنی ماہرانہ رائے دیتے ہیں، جس کی وجہ سے کئی مشکلات دُور ہو جاتی ہیں۔

این آئی سی وی ڈی کے ایمرجینسی ڈیپارٹمنٹ، میڈیکل وارڈ، فارمیسی اور ایگزیکٹیو کلینک کے مختلف مناظر

سروے کے دوران بچّوں کے امراضِ قلب کے ماہر، سیٹلائٹ سینٹرز کی پیڈیاٹرک سروسز کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر عبدالستّار شیخ سے بات چیت ہوئی، تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’چوں کہ ہمارے پاس زیادہ تر غریب افراد کے بچّے علاج کے لیے آتے ہیں اور تاخیر کی وجہ سے ان کا پیدایشی مرض کافی پیچیدہ ہو چکا ہوتا ہے، لہٰذا علاج کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوپاتے اور اکثر بچّے جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔

سو، علاج میں تاخیر سے بچنے ہی کے لیے سیٹلائٹ سینٹرز میں علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ یاد رہے،عموماً ایک سو بچّوں میں سے ایک بچّے کے دِل میں پیدایشی طور پر سوراخ ہوتا ہے اور مُلک میں ہر سال دِل کے مختلف امراض میں مبتلا 50سے 60ہزار بچّے جنم لے رہے ہیں۔ یعنی ایسے بچّوں کی تعداد میں ہر برس اضافہ ہو رہا ہے۔ بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں ایسے بچّوں کی نشوونما متاثر ہوتی ہے اور وہ معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ ہمارے مراکز کے پاس سالانہ 80ہزار سے ایک لاکھ تک بچّوں کے معائنے کی استعداد ہے،لہٰذا این آئی سی وی ڈی کے ساتھ ہی بچّوں کا ایک خصوصی کارڈیک سینٹر بھی تعمیر کیا جا رہا ہے، جس کے بعد ہماری گنجایش میں یقیناً اضافہ ہو گا۔‘‘

گزشتہ دنوں کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک بچّے کے سینے میں حادثاتی طور پر پھنسنے والا پَیچ کَس نکالنے کے لیے کیے گئے آپریشن کے حوالے سےڈاکٹر عبدالستّار نے بتایا کہ ’’ یہ حادثہ پیش آنے کے بعد پہلے بچّے کو شہر کے مختلف اسپتالوں میں لے جایا گیا، لیکن چوں کہ اُس روز اتوار کا دن تھا اور بڑے بڑے سرجنز چُھٹی پر تھے، لہٰذا بچّے کے والدین اُسے ہمارے پاس لے آئے۔ تب پَیچ کَس بچّے کے سینے میں پیوست تھا۔ وہ انتہائی ڈرائونا منظر تھا اور بچّے کی حالت بھی تشویش ناک تھی۔

جب ہم نے اُس کی کارڈیو گرافی کی، تو پتا چلا کہ اسکریو ڈرائیور اہم شریانوں کو چُھو رہا ہے، تاہم وہ شریانیں پنکچر نہیں تھیں۔ سرجری کے دوران اگر خدانخواستہ معمولی سی بھی لغزش ہو جاتی، تو بچّے کی شریانیں پَھٹ سکتی تھیں۔پھر ایک مشکل یہ بھی تھی کہ بچّے کو وینٹی لیٹر پر ڈالنے کے لیے اُس کے ایک پھیپھڑے کو بلاک کرنا تھا، کیوں کہ اگر ہوا داخل ہونے کے نتیجے میں پھیپھڑا پُھولتا، تو پَیچ کَس شریانوں کو نقصان پہنچا سکتا تھا۔

چوں کہ ہمارے پاس تمام درکار مہارتیں موجود تھیں، لہٰذا ہم نے ہنگامی بنیادوں پر بچّے کی سرجری کر کے اسکریو ڈرائیور نکال لیا اور کسی قسم کی پیچیدگی بھی واقع نہیں ہوئی۔ پھر اگلے ہی روز ہم نے اسے وینٹی لیٹر سے ہٹا دیا اور اب وہ بچّہ عام بچّوں کی طرح زندگی گزار رہا ہے۔‘‘

اسپتال کے سروے کے دوران مختلف شعبہ جات میں موجود مریضوں اور اُن کے لواحقین سے بھی بات چیت ہوئی۔ گرچہ ایمرجینسی میں خاصی بھِیڑ تھی، لیکن کسی قسم کی افراتفری و بدنظمی دیکھنے میں نہ آئی۔یہاں زیرِ علاج لانڈھی سے تعلق رکھنے والے 60سالہ محمد علی نے بتایا کہ ’’ صبح سے سینے میں شدید جلن ہو رہی تھی اور پھر اُلٹے ہاتھ میں درد شروع ہو گیا۔ یہاں پہنچا، تو معائنے کے بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ آپ کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ شفا دینا، تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، لیکن ڈاکٹرز اور عملے کا رویّہ بہت اچھا ہے۔‘‘

شیریں جناح کالونی کے رہائشی، 40سالہ محمد رمضان کا کہنا تھا کہ ’’صبح تقریباً چار بجے میرے سینے میں اچانک شدید درد اُٹھا۔ گھروالوں کو بتایا، تو انہوں نے آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت میں اسپتال پہنچا دیا اور یہاں اب میرا علاج جاری ہے۔ مَیں ایک مزدور ہوں ،مگر کسی قسم کی سفارش کے بغیر میرا ٹریٹمنٹ فوراً شروع کر دیا گیا۔ مُجھے پہلے سے دِل کا مرض لاحق ہے۔ ڈاکٹرو ں نے پہلے میری پچھلی رپورٹس چیک کیں اور پھر کچھ دیر بعد مُجھے بستر دے دیا ۔ اب مَیں رپورٹس آنے کا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘ مُلک کے دوسرے شہروں سے تعلق رکھنے والے کچھ مریضوں سے بھی ہماری گفتگو ہوئی۔ لاڑکانہ سے آنے والے ایک معمر مریض نے بتایا کہ ’’میرے دِل کی دھڑکن بے ترتیب ہو گئی تھی۔

آج صبح سات بجے اپنے بیٹے کے ساتھ یہاں آیا ہوں۔ وہ خود بھی ڈاکٹر ہے اور مَیں یہاں علاج معالجے کی سہولتوں سے بالکل مطمئن ہوں۔‘‘ مذکورہ مریض کے ساتھ موجود اُن کے بیٹے، ڈاکٹر امجد شاہانی سے بات چیت ہوئی، تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’ ہم اورہمارے خاندان کے دیگر افراد بھی اس اسپتال آتے رہتے ہیں، کیوں کہ یہاں جو سہولتیں میسّر ہیں، وہ پاکستان کے کسی اور اسپتال میں موجود نہیں ۔ گرچہ ہمارے پینل پر آغا خان اسپتال بھی ہے، لیکن دِل کے علاج کے لیے ہم این آئی سی وی ڈی ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔‘‘ بائی پاس سرجری کے منتظر کوئٹہ سے آئے سلیم اللہ کا کہنا تھا کہ ’’مَیں کل شام چار بجے یہاں پہنچا ہوں۔

میری انجیو گرافی ہو چکی ہے اور اب بائی پاس ہونا باقی ہے۔ ڈاکٹروں نے میرا حوصلہ بڑھایا ہے اور تسلّی دی ہے کہ مَیں ان شاء اللہ بالکل صحت یاب ہو جائوں گا۔ اسپتال کا عملہ بھی ہر وقت آس پاس ہی موجود رہتا ہے ۔‘‘ کوئٹہ کے علاقے، مسلم باغ سے آئے 68سالہ مریض، عبدالمالک نے بتایا کہ ’’مُجھے کوئٹہ میں ڈاکٹر نے بائی پاس کا مشورہ دیا تھا، لیکن چوں کہ وہاں کسی سرکاری اسپتال میں بائی پاس سرجری کی سہولت موجود نہیں اور مَیں نجی اسپتالوں کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا ہوں، لہٰذا یہاں بائی پاس کروانے آیا ہوں۔ مُجھے تو اب تک کسی شکایت کا موقع نہیں ملا۔‘‘ اپنے شوہر کی تیمار داری میں مصروف ایک خاتون، ماجدہ سعید سے بات چیت ہوئی، تو انہوں نے کہا کہ ’’ گُردے ناکارہ ہونے کی وجہ سے میرے خاوند کے دِل کی دھڑکن کم ہو گئی ہے ، اب اُن کا ڈائلیسز ہو گا۔ مَیں یہاں اپنے شوہر کے علاج سے مطمئن ہوں۔‘‘

این آئی سی وی ڈی کے ایمرجینسی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ، ڈاکٹر ظاہر حسین نے ایمرجینسی کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ’’مَیں 1997ء سے یہاںسے منسلک ہوں۔ ایمرجینسی میں روزانہ کم و بیش ایک ہزار مریضوں کو لایا جاتا ہے اور پچھلی جمعرات سے اس جمعرات تک 6,645مریض لائے جا چکے ہیں، جن میں سے 1,121کو ایڈمٹ کیا گیا ۔

ایمرجینسی میں زیادہ تر ہارٹ اٹیک اور ہارٹ فیلیر کے مریض آتے ہیں۔ شدید ہارٹ اٹیک کے مریضوں کا معائنہ کرنے کے بعد انہیں انجیو پلاسٹی کے لیے کیتھ لیب بھیج دیا جاتا ہے، جہاں اُن کی بند شریانیں کھولی جاتی ہیں اور انجیو پلاسٹیز تقریباً ہر وقت ہی جاری رہتی ہیں۔یہاں جتنی بڑی تعداد میں انجیو پلاسٹیز ہوتی ہیں، اتنی پوری دُنیا میں کہیں نہیں ہوتیں اور اس اعتبار سےتو این آئی سی وی ڈی کا نام گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہونا چاہیے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ’’بعض اوقات مریض کے ساتھ آنے والے مضطرب، حواس باختہ لواحقین کی وجہ سے کسی ناخوش گوار صورتِ حال کا سامنا بھی کرنا پڑجاتا ہے، حالاں کہ ہم نے ’’نو ریٹرن‘‘ کی پالیسی اپنائی ہے۔ یعنی ہم کسی مریض کو علاج کیے بغیر واپس نہیں بھیجتے۔ اگر کوئی بیڈ خالی نہیں ہوتا، تو فرش پہ لٹا کر اُس کا ٹریٹمنٹ شروع کر دیتے ہیں۔ہماری ایمرجینسی 64بیڈز پر مشتمل ہے، لیکن یہاں ہمہ وقت ایک سو سے زاید مریض موجود ہوتے ہیں۔باقی مریضوں کو اسٹریچر ز پر لٹا دیا جاتا ہے یا پھر کُرسیوں پر بِٹھا دیا جاتا ہے۔ البتہ دو بیڈزسیریس پیشنٹس کے لیے ہمیشہ خالی رکھے جاتے ہیں۔ یہاں 8وینٹی لیٹرز کے علاہ ہر قسم کی جدید مشینری موجود ہے۔‘‘

امراضِ قلب میں اضافے کی وجوہ سے متعلق ڈاکٹر ظاہر حسین کا کہنا تھا کہ ’’ ہمارے پا س ایک دن میں شدید ہارٹ اٹیک کے کم و بیش 30مریض آتے ہیں، جو بالکل بے سُدھ ہوتے ہیں اور یہ لمحۂ فکر ہے۔دراصل، پیدل چلنے اور پھل ، سبزیاں کھانے کا رجحان انتہائی کم ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے دِل کے مریضوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ غیر صحت مندانہ طرزِ زندگی کے نقصانات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ماضی میں پاکستان میں عموماً 70برس کے افراد کو ہارٹ اٹیک ہوتا تھا، جب کہ آج 25سے30برس کے نوجوانوں کو بھی دِل کے عوارض لاحق ہو رہے ہیں۔‘‘ ایمرجینسی میں کسی مریض کی موت کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال سے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ ’’چوں کہ ہارٹ اٹیک کے مریض کے ساتھ آنے والے لواحقین کو پہلے ہی مرض کی نوعیت کا اندازہ ہوتا ہے، لہٰذا اُس کے جاں بر نہ ہونے پر اُن کی جانب سے ڈاکٹرز اور عملے کے ساتھ بد سلوکی کے واقعات شاذ و نادر ہی پیش آتے ہیں۔‘‘

سروے کے دوران ایگزیکٹیو کلینک کی او پی ڈی میں موجود یونس نے بتایا کہ ’’مَیں کوئٹہ سے اپنے 8ماہ کے بچّے کو یہاں لے کر آیا ہوں۔ اُس کے دِل میں سوراخ ہے۔ ہمیں آج سے تین ماہ پہلے اس بات کا پتا چلا۔ مَیں منگل کو جنرل او پی ڈی میں بچّے کو دکھانے لایا تھا، لیکن رَش کی وجہ سے واپس چلا گیا۔ آج دوبارہ لایا ہوں۔ اس دوران او پی ڈی میں ملازمین کے درمیان جھگڑا ہوا، تو انہوں نے کام روک دیا، جس کی وجہ سے مریضوں اور اُن کے لواحقین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پھرکئی گھنٹے قطار میں لگے رہنے کے بعد جب نمبر آیا، تو مجھے دوبارہ منگل کے روز آنے کے لیے کہا گیا۔

مَیں بار بار کوئٹہ سے کراچی نہیں آسکتا ، کیوں کہ ہم یہاں ہوٹل میں قیام کرتے ہیں، اس لیے مجبوراً بچّے کو ایگزیکٹیو کلینک لے آیا ہوں۔ یہاں ڈاکٹر کی معائنہ فیس 1,500روپے ہے۔ گرچہ یہ رقم بھی ہمارے لیے زیادہ ہے، لیکن کسی نجی اسپتال سے کم ہے۔ تاہم، اگر مریضوں کی آمدروفت کم ہو اور انہیں ناخوش گوار صورتِ حال کا سامنا نہ کرنا پڑے، تو وہ مفت علاج ہی کو ترجیح دیں گے۔‘‘ ایک وارڈ میں زیرِ علاج بلدیہ ٹائون سے تعلق رکھنے والے 62سالہ مریض، مقبول احمد نے گفتگو کے دوران بتایا کہ ’’گزشتہ کئی روز سے میرے سینے میں تکلیف تھی اور سانس لینے میں بھی مشکل پیش آ رہی تھی۔

آج سے پانچ روز پہلے طبیعت زیادہ خراب ہوئی، تو بیٹے یہاں لے آئے۔ چار روز تک ایمرجینسی میں رہا اور کل ہی مُجھے وارڈ میں منتقل کیا گیا ہے۔ڈاکٹروںسے لے کر اسپتال کا پورا عملہ ہی نہایت مخلص ہے۔ ایمرجینسی میں میرے علاج معالجے میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوئی اور نہ ہی وارڈ میں۔ دوائیاں بھی وقت پر مل رہی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مجھ سے کسی نے پیسے نہیں مانگے۔ عملہ وقتاً فوقتاً خود آکر طبیعت دریافت کرتا ہے اور لوگوں کو ان کے آگے پیچھے نہیں بھاگنا پڑتا۔ میری انجیو گرافی ہوئی ہے ۔ اس کی رپورٹ دیکھنے کے بعد ہی مرض کا پتاچلے گا۔ مَیں ہر وقت اسپتال کے عملے کے لیے دُعائیں ہی کرتا رہتا ہوں کہ یہ اسی طرح سے مریضوں کی خدمت کرتے رہیں۔‘‘

فارمیسی سروسز کے سربراہ اورآغا خان یونی ورسٹی اسپتال اورجنوبی افریقا میں کلینیکل فارماسسٹ کے طور پر خدمات انجام دینے والے جبران بن یوسف سے بات چیت ہوئی، تو انہوں نے بتایا کہ ’’ہماری فارمیسی میں 50فارماسسٹس، جب کہ کُل عملے کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔

یہاں سے ایک دن میں کم و بیش 2,000مریضوں کو تین ماہ کی مفت دوا فراہم کی جاتی ہے۔ او پی ڈی کی طرح فارمیسی کے اوقات بھی صبح 8سےشام 5تک ہیں۔ تاہم، مریضوں کی موجودگی تک فارمیسی کُھلی رہتی ہے۔‘‘ دوا لینے کا طریقۂ کار بتاتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’’ سب سے پہلےمعالج اس بات کا تعیّن کرتا ہے کہ مریض کو دِل کا کوئی مرض لاحق ہے یا نہیں۔ اگر مریض عارضۂ قلب کاشکار ہو، تو معالج ایک خصوصی پر وفارمے پر، جس پر کئی ادویہ کا نام درج ہوتا ہے، تجویز کردہ ادویہ کے سامنے چیک لگادیتا ہے۔

پھر یہ پروفارما اور مریض کا ڈیٹا کمپیوٹرائرڈ سسٹم میں ڈالا جاتا ہے اور اگلے مرحلے میں مریض کو ایک رجسٹریشن نمبر الاٹ کر دیا جاتا ہے۔ اس رجسٹریشن نمبر ہی پر مریض کو میڈیسنز فراہم کی جاتی ہیں اور ساتھ ہی خوراک لینے کا طریقۂ کار بھی بتایا جاتا ہے۔ فارمیسی میں ڈرگ انفارمیشن سینٹر بھی موجود ہے، جہاں سے ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف اور مریضوں کو معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ فارمیسی کے چار کائونٹرز کے سامنے قطار بنا کر دوا لی جاتی ہے، جب کہ ایک کائونسلنگ کائونٹر ہے، جہاں مریض کو دوا لینے کے طریقۂ کار اور پرہیز سے متعلق بتایا جاتا ہے۔

یہاں زیادہ تر خون پتلا کرنے والی دوا، اسپرین سمیت بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کی دوائیں دی جاتی ہیں اور عموماً ایک مریض کو تین سے چار ادویہ تجویز کی جاتی ہیں۔ یہ فارمیسی روزانہ 20لاکھ روپے کی ادویہ آئوٹ پیشنٹس کو فراہم کر رہی ہے اور ان میں سکھر اور ٹنڈو محمد خان کے سیٹلائٹ سینٹرز کے مریض بھی شامل ہیں۔ یہ واحد ادارہ ہے ، جو آئوٹ پیشنٹس کو تین ماہ کی دوا مفت فراہم کرتا ہے، کیوں کہ عموماً ایک مریض تین ماہ بعد ہی اپنے کنسلٹنٹ کے پاس آتا ہے۔

چوں کہ ان میں سے کم و بیش 60فی صد مریضوں کا تعلق کراچی کی بہ جائے دوسرے شہروں سے ہوتا ہے اورغربت کے سبب یہ سفر کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے، لہٰذا انہیں ایک ساتھ تین ماہ کی دوا فراہم کی جاتی ہے۔‘‘ ایک اور سوال کے جواب میں جبران بن یوسف کا کہنا تھا کہ’’ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی دوا شارٹ ہو گئی ہو، کیوں کہ ہم پہلے ہی متبادل ادویہ کا بندوبست کر کے رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے مریضوں کے علاج معالجے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی۔‘‘

غریبوں کو گھر کی دہلیز پر علاج کی سہولت فراہم کی، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پروفیسر ندیم قمر

این آئی سی وی ڈی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کی خدمات پروفیسر سیّد ندیم قمرانجام دے رہے ہیں۔انہوں نے حیدر آباد، سندھ سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد لیاقت میڈیکل کالج، جام شورو سے ایم بی بی ایس کیا۔ بعد ازاں، مزید تعلیم کے حصول کے لیے بیرونِ مُلک چلے گئے۔ فرینکلن اسکوائر ہاسپٹل، یو ایس اے سے انٹرنل میڈیسن میں ریذیڈینسی مکمل کی اور کینیڈا کی میک گِل یونی ورسٹی اور اوٹاوا ہارٹ انسٹی ٹیوٹ سے بالتّرتیب کارڈیالوجی اور انجیو پلاسٹی میں فیلو شِپس کیں۔

کئی تحقیقی مقالوں کے مصنّف اور پاکستان کارڈیک سوسائٹی اور پاکستان ہائپرٹینشن لیگ کے تاحیات رُکن ہیں۔ 1994ء میں پاکستان واپسی کے بعد 1995ء میں سینئر رجسٹرار کی حیثیت سے این آئی سی وی ڈی سے منسلک ہوئے۔ بعد ازاں، اسی ادارے میں 6برس تک بہ طورپروفیسر خدمات انجام دیں اور فروری 2015ء میں ایگزیکٹیو ڈائریکٹر مقرّر ہوئے۔ ادارے سے متعلق بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ’’جب مَیں نے یہ عُہدہ سنبھالا، اُس وقت ہم ہارٹ اٹیک کے مریض کودوا دینے پر اکتفا کرتے تھے، جب کہ ترقّی یافتہ ممالک میں پرائمری انجیو پلاسٹی کی جارہی تھی، جس کے نتائج کئی گُنا بہتر تھے، تو سب سے پہلے تو مَیں نے ہارٹ اٹیک کے مریضوںکی انجیو پلاسٹی متعارف کروائی۔

پھر ایسے بچّوں کے علاج معالجے پر فوری توجّہ دی، جن کے دِل میں سوراخ تھے۔ ان میں سے بیش تر کا تعلق اندرونِ سندھ کے دُور دراز، پس ماندہ علاقوں سے تھا۔ اوّل تو یہ بچّے علاج معالجے کی سہولت سے محروم رہتے اور اگران کے مفلس والدین کسی نہ کسی طرح انہیں کراچی لانے میں کام یاب بھی ہو جاتے ،تو ان کی ساری جمع پونجی سفراور مختلف ٹیسٹوں میں خرچ ہو جاتی۔ ہم نے ایسے بچّوں کو ٹریٹمنٹ کی سہولت اُن کے گھر کی دہلیر پر فراہم کرنے کے لیے سندھ کے مختلف شہروں میں سیٹلائٹ سینٹرز قائم کیے۔

سیٹلائٹ سینٹرز قائم کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ہارٹ اٹیک کے مریض کی جان بچانے کے لیے 90مِنٹس کے اندر اندر پرائمری انجیو پلاسٹی ضروری ہوتی ہے اوراندرونِ سندھ سے تعلق رکھنے والا مریض اس عرصے میں کراچی نہیں پہنچ سکتا۔ اس وقت کراچی سمیت سندھ بھر میں امراضِ قلب کے 10مراکز قائم ہیں، جب کہ 2015ء میں صرف ایک مرکز خدمات انجام دے رہا تھا۔ علاوہ ازیں، ہم نے اہلِ کراچی کو بر وقت طبّی سہولت فراہم کرنے کے لیے شہر کے 10مختلف مقامات پرکنٹینرز میں چیسٹ پین یونٹس قائم کیے ، جو پوری دُنیا میں اپنی نوعیت کا منفرد منصوبہ ہے۔

اگر گُل بائی فلائی اوور کے نیچے قائم کیا جانے والا یونٹ دو آئل ٹینکرز ٹکرانے کے نتیجے میں نذرِ آتش نہ ہوتا، تو چیسٹ پین یونٹس کی تعداد11ہوتی۔ تاہم، اب ہم اس مقام پر دوبارہ کنٹینر نہیں رکھیں گے، البتہ علاقے کے آس پاس واقع آبادی کے لیے لیاری جنرل اسپتال میں حال ہی میں ایک سیٹلائٹ سینٹر قائم کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ یہ تمام یونٹس آبادی کی گنجانیت، ٹریفک کے رَش اور اسپتال سے فاصلے کو دیکھتے ہوئے قائم کیے گئے ہیں۔ یاد رکھیے، ہارٹ اٹیک کے مریض کو بروقت علاج کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ٹریٹمنٹ میں جتنی تاخیر ہو گی، مریض کے دِل کے عضلات اُتنے ہی زیادہ متاثر ہوجائیں گے۔ گرچہ علاج میں تاخیر کے باوجود بھی مریض کی جان تو بچ جاتی ہے، لیکن دِل کے عضلات کو اس قدر نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے کہ وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔‘‘

گزشتہ چند برسوں کے دوران مریضوں کی شرحِ اموات میں کمی سے متعلق پروفیسر ندیم قمرکا کہنا تھا کہ’’ہمارے پاس کارڈیک سرجری کے مستند اعدادوشمار موجود ہیں۔2014ء میں ہمارے اسپتال میں کارڈیک سرجری میں شرحِ اموات23فی صدتھی، جو اب کم ہو کر4فی صد رہ گئی ہے۔ اسی طر ح سکھر کے سیٹلائٹ سینٹر میں تقریباً 350بائی پاس کیے جا چکے ہیں ، جن میں سے 345کام یاب ہوئے ۔

اس اعتبار سے شرحِ اموات محض 1.5فی صد بنتی ہے، جو ایک غیر معمولی اَمر ہے۔‘‘ این آئی سی وی ڈی کے دائرۂ کارکو مُلک کے دیگر حصّوں تک وسعت دینے کے حوالے سے کیے گئے سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ’’اگر حکومت ہمیں گلگت بلتستان میں بھی مرکز قائم کرنے کے لیے فنڈز فراہم کرے، تو ہم وہاں بھی خدمات انجام دینے کو تیار ہیں، کیوں کہ ہمارے پاس اعلیٰ صلاحیتوں کی حامل ہُنرمند افرادی قوت موجود ہے۔ گرچہ مُلک میں ہیومن ریسورس کی کمی بڑا مسئلہ ہے، مگر ہماری کام یابی کا راز یہ ہے کہ ہم اپنی افرادی قوت خود تیار کر رہے ہیں۔

ہم اس وقت مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے تقریباً ایک سو فیلوز کو تربیت فراہم کر رہے ہیں۔ انہیں ایف سی پی ایس، کارڈیالوجی کے علاوہ انٹروینشنل کارڈیالوجی، الیکٹرو فزیالوجی اور کارڈیک سرجری میں بھی فیلوشپ کروائی جا رہی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ دُنیا بَھر میں ٹریننگ کے دوران کارڈیالوجسٹس 300انجیو پلاسٹیز کرتے ہیں، جب کہ ہمارے ہاں مریضوں کا حجم زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ تعداد 700سے 750تک پہنچ جاتی ہے۔ پھر یہی کارڈیالوجسٹس ہمارے پاس اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیتے ہیں۔

ہم نے یہ ماڈل ایس آئی یو ٹی سے متاثر ہو کر اپنایا ہے، کیوں کہ ڈاکٹر ادیب رضوی کا ماننا ہے کہ آپ کو تربیت یافتہ عملہ باہر سے نہیں ملے گا، آپ کو خود ہی اپنے لیے انسانی وسائل کا بندوبست کرنا ہوگا اور ہم اس وقت پورے مُلک کے لیے ہارٹ سرجنز تیار کر رہے ہیں۔ ہم نہ صرف ہر ایک کو اپنی مہارتیں دینے پر آمادہ ہیں، بلکہ کسی نئے ادارے کو ابتدائی خدمات بھی فراہم کر سکتے ہیں۔‘‘ ایک سوال کے جواب میںاُن کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے ہاں 15سے 20فی صد مریض دوسرے صوبوں سے آتے ہیں۔

چوں کہ ہم مکمل طور پر مفت علاج کرتے ہیں، تو ہم پر مریضوں کا بوجھ بھی زیادہ ہے۔ او پی ڈی اور ایمرجینسی میں ایک جمِ غفیر ہوتا ہے، لہٰذا سرجری کے مریضوں کی ویٹنگ لسٹ بڑھتی جا رہی ہے۔ اگر ہمیں واٹر پمپ پر واقع بلدیہ عظمیٰ کے زیرِ انتظام اسپتال، کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز مل جائے، تو ہم اپنے مریض وہاں شفٹ کر سکتے ہیں، جس کی وجہ سے ویٹنگ لسٹ مختصر ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں ہماری میئر کراچی، وسیم اختر سے بات چیت جاری ہے۔‘‘

سیٹلائٹ سینٹرز قائم ہونے کے باوجود این آئی سی وی ڈی میں مریضوں کی آمد میں اضافے کی وجوہ کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر ندیم قمر نے بتایا کہ ’’دراصل، ایک چھت تلے علاج کی جدید ترین سہولتوں اور مفت علاج معالجے کی وجہ سے مریضوں کا رَش بڑھتا جا رہا ہے ۔پھرہمارےمُلک کی آبادی میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، تو مریضوں کا تناسب بھی بڑھ گیا ہے۔

بہرحال، اب ہم امراضِ قلبسے بچائوپر زیادہ زور دے رہے ہیں، کیوں کہ صرف اسی طریقے سے ہم پر مریضوں کا دبائو کم ہو سکتا ہے۔دِل کے عوارض سے بچنے کے لیے شہریوں کو تمباکو نوشی کی عادت ترک کرنا ہو گی، کیوں کہ31سے 40برس کے زیادہ تر اُن افراد کو ہارٹ اٹیک ہوتا ہے، جو سگریٹ پیتے ہیں۔ نیز، مُرغّن کھانوں کی بہ جائے سبزیوں ، پھلوں کو اپنی غذا کا حصّہ بنانا ہو گا۔ علاوہ ازیں، شہریوں کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پیدل چلیں۔ امریکا میں صرف احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے امراضِ قلب کے مریضوں کی تعداد میں 17فی صد کمی واقع ہوئی ۔

اگر ہمارے مُلک میں بھی اس تناسب سے تخفیف ہو، تو امراضِ قلب کے ایک کروڑ مریض کم ہو جائیں۔ ہمیں امریکی ماہرین سے رہنمائی لے کر اپنی ثقافت کے اعتبار سے حکمتِ عملی اپنانا ہوگی، کیوں کہ ہماری قوم احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر آمادہ نہیں۔ مثال کے طور پرمَیں اسی اسپتال میں مریضوں کے ساتھ آنے والوں کو چٹ پٹی ، مُرغّن غذائیں کھاتے دیکھتا ہوں، حالاں کہ اُن کے گرد دِل کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہزاروں افراد موجود ہوتے ہیں۔

پھر شہریوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سرکاری اسپتالوں کے اخراجات اُن کے ٹیکسز ہی سے پورے کیے جاتے ہیں۔ اگر وہ حفظانِ صحت کے اصولوں کا خیال رکھتے ہوئے زندگی گزاریں ، تو اُن کے ٹیکسزسے حاصل ہونے والی رقم دیگر فلاحی منصوبوں پر خرچ ہوسکتی ہے۔‘‘ سالانہ بجٹ کے بارے میں بتاتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’’ ہمارا مجموعی بجٹ 10ارب 30کروڑ روپے ہے، جو سندھ حکومت فراہم کرتی ہے۔

تاہم، معیشت سُکڑنے اور سرکاری وسائل کم ہونے کے نتیجے میں اب ہم اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے عطیات کے حصول پر غور کر رہے ہیں۔ نیز، ہم ایسے سرکاری اداروں سے بھی رجوع کی کوشش کر رہے ہیں کہ جو اپنے ملازمین کے علاج معالجے کے اخراجات خود برداشت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، ایگزیکٹیو کلینک سے بھی اسپتال کو کچھ آمدنی ہو جاتی ہے ،تو ہم اس سلسلے کو مزید توسیع دینا چاہتے ہیں۔ ‘‘

نجی اسپتال ہماری سروسز سے خائف ہیں،ایڈمنسٹریٹر،ڈاکٹرملک حمیداللہ

قومی ادارہ برائے امراضِ قلب کے ایڈمنسٹریٹر ، اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کے حامل، ڈاکٹر ملک حمیداللہ نے انتظامی سہولتوں سے متعلق بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’نجی اسپتالوں میں امراضِ قلب کا علاج اس قدر منہگا ہوچکا ہے کہ غریب تو درکنار، متوسّط طبقے کا آدمی بھی اخراجات کامتحمل نہیں سکتا۔ اسی سبب ہمارے ہاں مریضوں کا حجم بڑھتا جا رہا ہے۔

گرچہ ایڈمنسٹریٹر ہونے کے ناتے مجھ پر بھی خاصا دباؤ ہوتا ہے، لیکن دُکھی افراد کی دُعاؤں سے تمام معاملات خوش اسلوبی سے نمٹالیتا ہوں۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’’اس علاج گاہ کے تمام اخراجات حکومتِ سندھ برداشت کر رہی ہے۔ گزشتہ دنوں وزیرِ اعلیٰ، سیّد مُراد علی شاہ کو مالی اعانت کے لیے کچھ چارجز عاید کرنے کی تجویز دی گئی تھی، جسے انہوں نے یہ کہتے ہوئے یک سَر مسترد کر دیا کہ اگر اسپتال کو مزید فنڈز کی ضرورت ہے، تو حکومت دینے پر آمادہ ہے، لیکن کسی مریض سے ایک پیسا بھی نہ لیا جائے۔‘‘

ڈاکٹر ملک حمیداللہ نے مزید بتایا کہ ’’این آئی سی وی ڈی کی ترقّی و توسیع میں ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کے وِژن اور سندھ حکومت کا اہم کردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تھر پارکر جیسےپس ماندہ علاقے میں بھی ہر وقت انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی کی سہولت دست یاب ہے، جس سے مقامی باشندے مستفید ہو رہے ہیں۔‘‘ این آئی سی وی ڈی کے خلاف نیب میں جاری انکوائریز پر بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’’یہ سلسلہ گزشتہ 8برس سے جاری ہے، لیکن اب تک کچھ ثابت نہیں ہو سکا۔

دراصل، بعض نجی اسپتال ہمیں بد نام کرنے کے لیے ہم پر بے بنیاد الزامات عاید کر تے ہیں۔وہ ہماری بڑھتی ہوئی خدمات اورمقبولیت سے خائف ہیں، چوں کہ وہ کارڈیک سروسز ہی سے پیسا کماتے تھے اور اب اُن کی 80فی صد کارڈیک سروسز بند ہو چکی ہیں۔ ہم طلب کرنے پر نیب کو سارا ریکارڈ پیش کر تے ہیں اوراپنے خلاف انکوائریز کابھرپور دفاع بھی کر رہے ہیں۔

ہمیں امید ہے کہ یہ معاملات جلد نمٹ جائیں گے۔‘‘ ایگزیکٹیو کلینک سے متعلق ایڈمنسٹریٹر نے بتایا کہ ’’بعض صاحبِ ثروت افراد نجی اسپتالوں کی بہ جائے این آئی سی وی ڈی سے علاج کو ترجیح دیتے ہیں۔ تاہم، وہ قطار میں لگنا پسند نہیں کرتے، تو اُن کے لیے یہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ البتہ اسپتال کی انتظامیہ کسی کو بھی اس بات کی ترغیب نہیں دیتی کہ وہ ایگزیکٹیو کلینک سے اپنا علاج کروائے۔‘‘