برطانیہ میں انتخابی وعدے وعید

November 13, 2019

خیال تازہ … شہزادعلی
برطانیہ کے قبل ازوقت عام انتخابات میں ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت حتیٰ کہ بعض جگہوں پر آزاد امیدوار بھی ووٹروں کو لبھانے کے لیے پرکشش وعدے وعید کر رہے ہیں ۔تاہم پاکستان کے برعکس برطانیہ میں امیدواروں بلکہ پارٹی سربراہوں کو مخالف جماعتوں اور پھر ذرائع ابلاغ کی کڑی سکروٹنی سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس لیے انتخابی عمل میں شریک مختلف سٹیک ہولڈرز نہایت سوچ سمجھ کر ہی انتخابی وعدہ کرتے ہیں ۔ بڑی خبر یہ ہے کہ لیبر پارٹی نے ایک قومی تعلیمی سروس کی تجویز پیش کی ہے ۔ بلیک پول میں ایک انتخابی مہم کے دوران لیبر لیڈر جیر می کوربن نے ایک ایسی تعلیمی پالیسی کے خدوخال کو پیش کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ تعلیم زندگی کے ہر سٹیج پر تمام افراد کے لیے مفت طور پر دستیاب ہو ۔ لیبر لیڈر کے تعلیم کو ترجیح دینا اس تناظر میں نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔کہ کنزرویٹیو حکومتوں نے خاص طور پر اعلیٰ تعلیم میں بھاری ٹیوشن فیس متعارف کرا کر تعلیم کو طبقہ امراء تک محدود کرنے کی پالیسی اپنائے رکھی ۔ اسی طرح ماضی میں جب کنزرویٹیو پارٹی کی لب ڈیم کے ساتھ مخلوط حکومت بنی تھی تو اس وقت یونیورسٹی طلباء کی سالانہ بھاری فیس متعارف کی گئی تھی اس پالیسی میں لب ڈیم کا ہاتھ تھا یا نہیں مگر لب ڈیم کو اس کا سخت خمیازہ بھگتنا پڑا تھا ۔ حکومت کا حصہ ہونے کے باعث عام لوگ ان کی وضاحتوں کو قبول نہیں کر رہے تھے آج لیبر کی جو اپروچ جو سامنے آئی ہے تو سو فیصد لائق تحسین ہےمگر ناقدین یہ سوال اٹھائیں گے کہ اس پالیسی پر عمل در آمد کے لیے فنڈز کہاں سے آئیں گے۔بی بی سی کے مطابق ، لیبر برطانیہ کے بالغ افراد کے لیے انگلینڈ میں ملازمتوں کے مواقع بڑھانے کے لیے 3 بلین ری ٹریننگ کے لیے مختص کرنے کا وعدہ کر رہی ہے تاکہ سکلز شارٹیجز ، یعنی کام کے لیے درکار ہنر اور مہارت کی کمی کو دور کیا جاسکے۔ اس متعلق لب ڈیم سکلز والٹ کے طورپر ہر بالغ شخص کو دس ہزار پونڈ دینے کا وعدہ کر رہی ہے ۔ اسی طرح کنزرویٹیو کا بھی ایک پروگرام ہے مگر بعض ووٹرز کو حکومت سے ہٹ کر پارٹیوں کی کسی پالیسی پر زیادہ کشش محسوس ہوتی ہے یعنی کہ یہی رسم دنیا ہے کہ آزمائے ہووں کو پھر آزمانے کے بجائے کیوں نہ جو جماعتیں اقتدار میں نہیں ہیں ان کی ترغیب کو پرکھنے کے لیے ان کو موقع دیا جائے ۔ ابھی لیبر نے اپنا منشور شائع ہی نہیں کیا مگر کنزرویٹیو نے لیبر کی معاشی پالیسیوں پر بی بی سی کے مطابق ہی تازہ حملہ کیا ہے ۔ کنزرویٹیو کو لیبر کی اکنامی پالیسیوں میں بلیک ہول دکھائی دے رہا ہے، ٹوریز نے کوشش کی ہے کہ ان اضافی ٹیکسوں کی جمع تفریق کر کے اعدادوشمار کے گورکھ دھندے سے لیبر ووٹروں کو کنفیوز کیا جاسکے ۔ البتہ لیبر نے ٹوری ہیڈ کوارٹر کے اعداد وشمار کو جعلی نیوز سے تعبیر کرتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔شیڈو چانسلر کا اصرار ہے کہ لیبر حکومت وی اے ٹی VAT یا نیشنل انشورنس میں اضافہ نہیں کرے گی جبکہ پچانوے فیصد لوگ کوئی اضافی ٹیکس اپنی اِنکم ٹیکس کی مد میں ادا نہیں کریں گے لیکن کنزرویٹیو حکومت کے چانسلر کا تخمینہ ہے کہ لیبر اپنے ٹیکس پروگرام کے ذریعے ہر ٹیکس ادا کرنے والے پر سالانہ چوبیس سو پونڈ کا اضافہ کر دے گی لیکن بعض سیاسی پنڈت یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ لیبر پر تنقید کرنے والے ذرا اپنے بارے میں بھی تو ووٹروں کو اطلاع دیں کہ وہ اگر پھر پاور میں آگئے تو وہ عوام پر مزید کتنے ٹیکسوں کا بوجھ لادیں گے؟جبکہ بعض اطلاعات کے مطابق دونوں بڑی سیاسی جماعتیں انفراسٹرکچر کی بہتری کیلئے رقوم قرضہ پر لینے کے منصوبہ جات بنا رہی ہیں جبکہ ہماری رائے میں دیگر مسائل کے علاوہ برطانوی سیاسی جماعتوں کو برطانوی معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم تفریق کی روک تھام کیلئے بھی سنجیدہ پالیسیز ترتیب دینا ہوں گی ، نوٹ کیا جارہا ہے کہ برطانیہ میں دولت کاارتکاز اس کا پھیلاؤ ہموار نہیں، جنوب اور شمال کی خلیج وسیع ہوتی جارہی ہے، جنوبی حصے یعنی لندن میں تو دولت اور لوگو ں کا طرززندگی مختلف ہو اور شمال یعنی مانچسٹر اور اس کے اردگرد زندگی کا معیار مختلف منظر پیش کرے یہ درست نہیں۔اس پر مزیدبات انشاء اللہ آئندہ کے کالم ہوگی۔