’کمہار واڑے‘ مسلم کچھی برادری نے مٹی کے برتن بنانے کا آغاز کیا

November 14, 2019

عبدالغفور کھتری

جون جولائی کی سخت گرمی میں جب میں نے فرج سے ٹھنڈا پانی نکال کر پیا تو سکون اور فرحت کی ایک لہر میرے رگ و پے میں سما گئی فرحت کے ان لمحوں سے کچھ مزید لطف اندوز ہونے کے لئے میں نے آنکھیں بند کرلیں، آنکھیں موندتے ہی میرا تصور ماضی کی طرف دوڑنے لگا۔ حدیں پار ہوتی رہیں، سیکڑوں بلکہ ہزاروں سال ماضی کی جانب چلتے چلتے پتھر کے دور کے قریب یہ تصور ٹھہر گیا اور میں سوچنے لگا کہ اکیسویں صدی کا انسان تو پانی کو ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ ٹھنڈا بھی کرلیتا ہے، مگر ہزاروں سال قبل کا انسان کیا کرتا ہوگا۔

میرے اس سوال کا جواب مٹی نے دیا کہ پتھر کے آخری دور میں جب انسان جنگلوں کی زندگی چھوڑ کر تمدن کی طرف آنے لگا تو مٹی بلکہ چکنی مٹی نے اس کے پائوں جکڑ لئے، اس مٹی ہی نے اسے ایک مقام پر قیام اور گھرداری کے طور طریقوں سے آشنا کیا۔ اپنے اور اپنے بال بچوں کے لئے خوراک اور پانی کی ذخیرہ کرنے کے لئے اس نے مٹی سے برتن بنانے، اسے سکھانے اور پھر اسے آگ میں پکا کر مضبوط کرنے کا ہنر سیکھ لیا۔

اب وہ پتھر، خشک لکڑی اور جانوروں کی ہڈیوں سے بنے چھوٹے موٹے برتنوں سے آگے نکل گیا۔ مٹی کے برتنوں کا یہ سفر ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ دنیا بھر میں قدیم ترین تہذیبوں کی قدامت کی جانچ، وہاں کی زمین سے برآمد ہونے والے برتنوں کی ساخت، بناوٹ اور اس پر کئے گئے نقش و نگار سے ہی کی جاتی ہے۔

سندھ میں موئن جو دڑو اور آمری کی تہذیب ہو یا بلوچستان کی میرگڑھ کی تہذیب، اس سب کے دورانیے کو پرکھنے میں وہاں زمین سے برآمد ہونے والے مٹی کے ان برتنوں کی ساخت اور ان پر کئے گئے نقش و نگار نے رہنمائی کی۔

قبل از مسیح میں دھاتوں کی دریافت نے مٹی سے کچھ عمر عصری کی اور تانبے اور کانسی کے برتن مٹی کے برتنوں کے سنگ سنگ استعمال میں آنے لگے، لیکن بہت جلد دھاتوں نے اپنا راستہ جدا کرلیا اور وہ چھوٹی موٹی مشینی کلوں اور جنگی سازوسامان کی طرف لوٹ گئیں، تو مٹی اپنی قدیم نسبت کے سہارے دوبارہ اپنے تسلسل کی طرف لوٹ آئی۔

ہزارہا سالوں سے چلتی آرہی مٹی کے ظروف کی فنکاری اب بھی جاری ہے۔ یہ فن کار ہاتھ قدیم تہذیبوں کا ہو یا کراچی میں بسنے والی مسلم کچھی کمہار برادری کاہو، گویا ان تہذیبوں کے فن کا سفر اب بھی جاری ہے۔

گزشتہ تقریباً تین صدیوں سے کراچی میں مقیم کمہار برادری مٹی کے ظروف کی تیاری اور اس کے کاروبار کے ذریعے اپنے آپ کو منواتی آرہی ہے۔ اپنے کاروبار کی نوعیت کے سبب انہیں اپنی بسی بسائی بستیوں سے شہر کی حدود میں ہی تین بار ہجرت کا دکھ سہنا پڑا اور حیرت یہ ہے کہ دکھ کا یہ سفر اب بھی جاری ہے۔ اسی نقل مکانی کے سبب کراچی میں ایک سے زیادہ کمہار واڑے وجود میں آگئے۔

سترہ سو عیسوی میں ریاست کچھ سے ہجرت کرکے بدین کے راستے سندھ آنے والے مسلم کچھی کمہار برادری کے کئی خاندان کراچی آگئےاور رتن تلائو، گاڑی کھاتہ و کچھی گلی کے اطراف میں پڑائو ڈال کر اپنے کام کا آغاز کردیا۔ کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ انہیں یہاں سے بے دخلی کا نوٹس آگیا وجہ یہ بتائی گئی کہ یہاں قریب ہی سرکاری دفاتر تعمیر ہورہے ہیں اور برتنوں کو پکانے والی بھٹیوں سے نکلنے والا دھواں سرکاری ملازمین کے لئے آلودگی کا سبب بنے گا۔

انہیں رتن تلائو اور اطراف کے علاقوں سے لی مارکیٹ کے قریب (حالیہ جونا کمہار واڑہ) منتقل کردیا۔ مگر بھٹیوں سے نکلنے والے دھویں کی عفریت بھی ان کے سنگ سنگ چل رہی تھی۔

چند دہائیاں گزرنے پر لی مارکیٹ جیسے تجارتی علاقے کی قربت کی بناء پر یہ علاقہ مکمل رہائشی صورت اختیار کرتا گیا اور بھٹیوں سے نکلنے والا دھواں رہائشی علاقے میں آلودگی کی سبب بننے لگا، تو پھر وہی بے دخلی کا نوٹس آگیا۔

چار وناچار کمہار برادری اس علاقے کو ’’جونا کمہار واڑہ‘‘ کے نام کی سند دے کر آگے بڑھ گئی، اس بار ان کا پڑائو چاکی واڑہ سے آگے بکرا پیڑی کے قریب کے تقریباً بے آباد علاقے میں رہا اور اس علاقے کو ’’نیا کمہار واڑو’’ کا نام دیا گیا۔

مٹی کے ظروف کی صدیوں پرانی یہ صنعت آج اکیسویں صدی میں بھی وہی پرانی ڈگر پر چل رہی ہے۔ آج بھی ان برتنوں کو پکانے کے لئے بجلی یا گیس کی بجائے لکڑی کے بھوسے یا کاٹھ کباڑ پر ہی اکتفا ہے اور آج گنجان آباد شہر لکڑی کے دھوئیں کا متحمل نہیں ہوسکتا اور دھوئیں کی اس تلوار نے ان کو پھر پریشان کردیا اور پھر ایک نئی بستی بسانے کی فکر دامن گیر ہوگئی۔ اب نئی بستی کا قرعہ فال مہاجر کیمپ نمبر 2کا نکلا اور یہ ’’کمہار واڑہ مہاجر کیمپ‘‘ کہلایا۔

آج سے پچاس سال قبل اس بستی سے آگے سنسان اور ویران جنگل تھا۔ اس بار یہ پوری کی پوری بستی مہاجر کیمپ منتقل نہیں ہوئی بلکہ کچھ خاندان یہاں آکر آباد ہوئے اور برتن سازی کے کام کا آغاز کردیا رفتہ رفتہ جب یہاں بھی آبادی کا دبائو بڑھا تو پھر وہی دھواں،اب جائیں تو جائیں کہاں کا معاملہ درپیش تھا۔ خوش قسمتی سے نیوکراچی میں وافر زمین موجود تھی، جہاں ان کی بھٹیاں لگ گئیں۔ دھواں اب بھی ان بھٹیوں سے نکل رہا ہے اور یہ دھواں پھر ایک نئی نقل مکانی پر انہیں مجبور کردے گا۔ فی الحال تو یہ آخری کمہار واڑہ ہے۔

مٹی کے ایک بدنما گولے کو فن پارے کی شکل دے دینا، شاید یہ تاریخ میں انسانی ہاتھوں کی پہلی فنکاری ہے۔ اس روایت کو سنبھالے ہوئے کمہار برادری کے فنکار ہاتھ آج بھی مٹی کو گوہر بنا رہے ہیں۔خریدار کے ہاتھ پر رکھا ہوا مٹی کا ایک شہہ پارہ اپنی انتھک محنت کی ایک طویل داستان رکھتا ہے۔چکنی مٹی کو نوری آباد یا حب سے لانا، اسے کوٹنا، بھگونا، پھر کئی گھنٹے تک اسے ہاتھوں سے مسلتے رہنا۔

چاک پر رکھ کر اسے شہہ پارے کی شکل دینا، اسے چار دن تک سوکھنے کے لئے رکھ کر اس کی حفاظت کرنا۔ ان سب کے بعد آخری اور کٹھن مرحلہ آتا ہے اور وہ ہے اسے بھٹی میں پکانا۔ بس یہی مرحلہ ایک کمہار کے لئے صبر آزما بھی ہے اور اتنی محنت کے صلے کا جواب، جو مثبت بھی ہوتا ہے اور کبھی کبھار منفی بھی۔

ہوتا یہ ہے کہ ان برتنوں کو بھٹی (جیسے آوا بھی کہا جاتا ہے) کے حوالے کرنے کے بعد سخت نگرانی اور دیکھ بھال کی ضرورت پیش آجاتی ہے کہ بھٹی کا ایندھن کہیں بجھ نہ جائے اور سارا مال کچا رہ کر کچرے کا ڈھیر نہ بن جائے، یا بھٹی کی حدت تیز ہوجانے پر تمام برتن جل نہ جائیں اور یوں آوا بگڑ جاتا ہے۔ شاید آوے کا آوا بگڑنے کا محاورہ یہیں سے اخذ کیا گیا ہے۔

اور جب کبھی قسمت ناراضگی کی انتہائی حدود کو چھو رہی ہوتی ہے تو پوری بھٹی یا آوا بیٹھ جاتا ہے، یعنی بھٹی کی چھت برتنوں پر گر جاتی ہے۔ بس پھر کف افسوس ملنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مٹی کا ایک چھوٹا سا برتن کمہار کی جاں گسل محنت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اور اسے ساری عمر یہ شکوہ ہی رہتا ہے کہ اسے اس کی محنت کا صلہ نہیں ملتا۔اور یہ شکوہ شاید درست بھی ہے