پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا گوردوارہ؟

November 17, 2019

سکھ مذہب کے بانی بابا گورو نانک نے 1521ء کو موجودہ تحصیل شکر گڑھ، ضلع نارووال میں دریائے راوی کے مغرب کی جانب کرتارپور گائوں آباد کیا۔ جہاں وہ زندگی کے آخری 18برس قیام پذیر رہے۔ شور و غوغا سے دور دھان کی سرسبز شاداب فصل میں گھرے دربار کرتارپور کو اس وقت جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی اور دربار کو نہیں کیونکہ یہ دنیا کا سب سے بڑا گوردوارہ ہے۔ جہاں بابا گورو نانک کے 550ویں جنم دن کی تقریبات منائی جا رہی ہیں۔ اس دربار کی قدیم عمارت تو سیلاب میں بہہ گئی تھی۔ موجودہ عمارت 1920ء سے 1929ء کے درمیان پٹیالہ کے مہاراجہ سردار پھوبندر سنگھ نے تعمیر کروائی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد پاک بھارت کشیدگی کی وجہ سے طویل عرصہ تک یہ ویران رہا۔ 1988ء میں پہلی مرتبہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی مشاورت ہوئی پھر ایک لمبا سکوت طاری ہو گیا۔ 1995ء میں حکومت پاکستان نے اس کی ضروری مرمت کروائی اور پھر 1997ء میں نواز حکومت نے بھارت کے ساتھ بات چیت کی مگر بھارتی رویے کی وجہ سے معاملہ ادھورا رہ گیا۔ اگست 2018ء میں وزیراعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں نوجوت سنگھ سدھو بطور مہمان آئے تو اس تقریب میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے انہیں جپھی ڈالتے ہوئے کہا کہ کیوں نہ ہم آپ کے لئے کرتارپور کھول دیں اور پھر وزیراعظم عمران خان نے 28نومبر 2018ء کو دربار صاحب کرتارپور کے کمپلیکس اور راہداری کا سنگِ بنیاد رکھا۔ آج گیارہ ماہ کی ریکارڈ مدت میں نہ صرف اس کی تعمیر مکمل ہوئی بلکہ 9نومبر 2019ء کو باقاعدہ افتتاح بھی کر دیا گیا جبکہ 12نومبر کو بابا گورو نانک کی 550ویں جنم دن کی تقریبات بھی منائی گئیں جس کے لئے پوری دنیا سے دس ہزار سے زائد سکھ یاتری آئے۔ کینیڈا، امریکہ اور لندن سے آنے والے سکھ اپنے ساتھ سونے کی بنی پالکی بھی لائے جو یہاں نصب کر دی گئی ہے۔ پہلے یہ کمپلیکس 4ایکڑ پر مشتمل تھا، اب یہ 823ایکڑ تک پھیل چکا ہے جس میں کئی کلومیٹر کارپیڈ سڑکیں اور زیرو پوائنٹ پر کلیئرنس کے لئے 80امیگریشن کائونٹر قائم کئے گئے ہیں جس کے ساتھ 150فٹ اونچا پاکستانی پرچم لہرایا گیا ہے۔ زائرین کو زیرو پوائنٹ سے دربار صاحب تک لانے کے لئے بسوں کا خصوصی انتظام بھی ہے جبکہ پیدل آنے والوں کے لئے فٹ پاتھ تعمیر کئے گئے ہیں۔ گوردوارہ میں لنگر خانے، سرائے، تالاب اور عبادت گاہ کے لئے ہال بنائے گئے ہیں۔ اس کی مین انٹری اور عمارتوں کی تعمیر میں سکھوں کے مذہبی عقائد اور اسٹرکچر کو مدنظر رکھ کر ڈیزائننگ کی گئی ہے۔ وسیع وعریض صحن میں زیارت کا سفید پتھر اور تمام عمارتوں کو سفید رنگ اور گولڈن ڈیزائن دیا گیا ہے۔ زیرو پوائنٹ سے دربار صاحب آنے کے لئے دریائے راوی پر 8سو میٹر لمبا پل تعمیر کیا گیا اور سیلاب سے بچائو کے لئے پتھر سے بند بنایا گیا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کرتار پور راہداری کے حوالے سے تقریباً دس ماہ مذاکرات جاری رہے اور آخرکار 24اکتوبر 2019ء کو ایک معاہدہ پر دستخط کئے گئے اس کے مطابق داخلہ کے لئے پاسپورٹ کی مستند دستاویز ضروری ہے جبکہ شق 5کے مطابق جو یاتری یہاں آنا چاہتے ہیں، بھارت دس روز قبل ان کی معلومات فراہم کرے گا جبکہ پاکستان آنے سے چار دن قبل فہرست کنفرمشین کی اطلاع بھارت کو دے گا۔ شق چھ کے مطابق فی یاتری 20ڈالر فیس ہو گی، شق بارہ کے تحت معاہدے کی خلاف ورزی پر آپریشن معطل ہو سکتا ہے اور شق 15کے تحت فیصلے کا اطلاق یکطرفہ کے بجائے دو طرفہ ہوگا۔ معاہدے میں یہ بھی طے پایا کہ سروسز چارجز کی مد میں فیس فارن کرنسی اکائونٹ میں لی جائے گی اور نقد یا انفرادی وصولی کے بجائے انڈین حکومت ازخود وصول کرکے پاکستان کے اکائونٹ میں منتقل کرے گی۔ پراسیس مکمل ہونے تک وزارت خزانہ کی ہدایت کے مطابق متروکہ وقف املاک بورڈ نقد وصول کرے گا۔ گو کرتارپور راہداری کھولنے کے اقدام پر مودی حکومت کا کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا مگر وزیراعلیٰ بھارتی پنجاب، کانگریس رہنما مہاراجہ کیپٹن امریندر سنگھ نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان چار کلومیٹر کا جو امن راستہ کھولا گیا ہے، وہ مزید آگے بڑھے گا اور ماضی کی تلخیاں دفن کر دے گا۔ ادھر پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ راہداری خیر سگالی کا پیغام ہے جو تقسیم ِ ہند کی تلخیوں اور زخموں پر مرہم رکھتا ہے اور سکھ برادری کو سہولت دینے کا مقصد بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔

افتتاح سے ایک ہفتہ قبل وزیراعظم عمران خان نے ٹویٹ کے ذریعے سکھ یاتریوں کے لئے دو دن یعنی 9اور 12نومبر کو فیس معافی کا اعلان کیا اور کہا کہ پاسپورٹ کے بجائے شناختی کارڈ سے بھی شناخت ممکن ہو گی۔ گو اس فیصلہ کی کابینہ نے توثیق بھی کر دی لیکن پھر بھی مختلف رائے سامنے آتی رہیں اور اب بھی تنقید کی جا رہی ہے کہ یہ معاہدے کے برعکس ہے کیونکہ پاسپورٹ سے بھی سیکورٹی خدشات رہتے ہیں۔ ابھی کینیڈا، امریکہ اور لندن سے جو سکھ یاتری آئے وہ بغیر رجسٹریشن سکھوں کے مختلف مذہبی مقامات پر گھومتے رہے جس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں کھلبلی مچ گئی۔ انٹیلی جنس اداروں نے سخت تحفظات کا اظہار کیا کہ ہمسایہ ملک ان جتھوں کی آڑ میں انٹیلی جنس کے لوگ بھیج سکتا ہے۔ اس لئے کسی سکھ کو بغیر رجسٹریشن گھومنے پھرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں مگر یہ یکطرفہ نہیں ہو سکتے۔ یہ وقت اس حوالے سے بھی نازک ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں تشدد کی انتہا کی ہوئی ہے، دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہو جہاں پاسپورٹ کے بغیر دوسرے ملکوں کی انٹری ہو۔ چنانچہ ہر کام کو ایک ضابطہ کے مطابق ہی چلنا چاہئے ورنہ یہ آزادی کل ہمارے لئے پھندہ بن جائے گی۔ ہمیں ملک کی سلامتی کے لئے اس آزادی کو ذمہ داری سے استعمال میں لانا چاہئے اور ملک کی سیکورٹی اور سلامتی مقدم رہنی چاہئے نہ کہ گینز بک ورلڈ ریکارڈ میں نام لکھوایا جائے کہ پاکستان میں سب سے بڑا گوردوارہ ہے؟