بھارتی جارحیت اور پاکستانی حکومت

November 17, 2019

انڈیا کی جانب سے لائن آف کنٹرول کے قریب وادی نیلم میں حالیہ فائرنگ سے شہادتیں افسوسناک عمل اور لمحہ فکریہ ہیں۔ بھارت نے غیر اعلانیہ جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ ہماری عسکری قوت اور تیاری صرف اور صرف بھارت کے لئے ہے۔اس کو ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔پاکستان کو تر نوالہ سمجھنے والے درحقیقت احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ کشمیر کے لئے ہم ہر حد تک جا سکتے ہیں۔ پاکستان کے22کروڑ عوام پاک فوج کی پشت پر کھڑے ہیں۔ہندوستان کو مقبوضہ جموںو کشمیر میں شرانگیزی کا منہ توڑ جواب دیاجاناچاہئے۔ بھارتی پارلیمنٹ سے آرٹیکل 370اور 35اے کے خاتمے کے بعدجنوبی ایشیا میں ایٹمی جنگ کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ دنیا کو دکھانے کے لیے سیکولرازم کانعرہ لگانے والی ہندوستان کی نسلی عصبیت کاشکار قیادت مسلسل جنوبی ایشیاکے امن کے لیے سنگین خطرہ بنی ہوئی ہے۔امریکہ اوریورپی ممالک کومسلمانوںکے حوالے سے اپنے دوہرے معیارات بدلنے ہوںگے۔1989سے اب تک ایک لاکھ کشمیر ی شہید اور 20,000ہزار خواتین بیوہ ہو چکی ہیں۔ لاکھوں بچے یتیم ہو گئے ہیں۔ بھارتی مظالم کا سلسلہ ختم ہو نے کا نام نہیں لیتا۔ عالمی برادری جلد اس مسئلے کا ایسا پائیدار حل نکالے جو 3کروڑ کشمیریوں کو قابل قبول ہو۔ بھارت اگر کشمیری عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے تو اس میں اصل قصور ان عالمی اداروں اور طاقتوں کا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ دوہرا معیاراور معاندانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت تین ماہ سے گھروں میں بند 80لاکھ کشمیریوں کو بھلا چکی ہے۔محض بیان بازی اور زبانی جمع خرچ سے کام لیا جارہا ہے۔ حکومت پاکستان کاان کے ساتھ سوتیلی اولاد جیسا سلوک تشویشناک ہے۔ بھارت نے ہر حد عبور کرلی ہے اور ہمارے وزیر اعظم عمران خان کنٹرول لائن پار نہ کرنے کے فوائد اور نقصان بتاکر قوم کو بزدلی کی راہ دکھارہے ہیں۔ عالمی برادری کا اس حوالے سے کردار افسوسناک رہا ہے۔ پاکستان کے 22کروڑ عوام پورے جذبہ ایمانی کے ساتھ نہتے کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ نااہل حکومت کی بد ترین کارکردگی کے باعث عوام میں اس وقت شدیداضطراب ہے۔ ملک میں افراتفری اور انتشار کی فضا قائم ہوچکی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ہر محاذ پر بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ملک میں سیاسی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔عوام کے ووٹوں سے برسر اقتدار آنے والے حکمرانوں نے عوام سے اپنا رشتہ ناطہ ختم کردیا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے بابری مسجد کے حوالے سے 6 اکتوبر کا اپناسیاہ فیصلہ سنایا ہے۔ اس افسوسناک فیصلے سے سار ی دنیا میں بھارتی نظام عدل اور حکومت دونوں پر تعصب، جانبداری اور اقلیتوں کے حقوق پر شب خون مارنے کا تاثر مزید گہرا ہو گیا ہے۔ بابری مسجدکو 6دسمبر1992میں انتہا پسند ہندوؤں نے شہید کردیا تھا۔ ہندوستانی سپریم کورٹ نے کرتار پور راہدری کو سبوتاژ کرنے کے لیے مودی حکومت کے دباؤ پر چھٹی کے روز فیصلہ سنا کر ثابت کردیا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے حقوق محفوظ نہیںہیں۔ مسئلہ کشمیر سے لے کر اقلیتوں کی آزادی تک بھارت نے شرمناک کردار ادا کیا ہے۔ گریٹر بھارت کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کی خاطر مودی حکومت نے ظلم و ستم کی انتہا کردی ہے۔ بھارت میں مسجد، چرچ، گوردوارے کچھ بھی محفوظ نہیں ہیں۔ دنیا کو بھارت کی انتہا پسندی کا نوٹس لینا چاہیے۔ کہاں ہیں آج عالمی امن کا راگ الاپنے والے ممالک، این جی اوز اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹیاں؟۔

ہمارے لئےبھارت کو بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی حالات کو بھی بہتر بنانا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ پاکستان ریلوے میں حادثات بھی اب معمول بنتے جارہے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں80سے زائد ٹرین کے حادثات ہوچکے ہیں جبکہ ریلوے کے اپنے ریکار ڈ کے مطابق جولائی 2018سے جولائی 2019ءتک ان ٹرین حادثوںمیں سینکڑو ں افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ وزیر ریلوے اپنی وزارت پر توجہ دینے کی بجائے باقی سب کام کرتے ہیں۔ ہر دور حکومت میں ریلوے میں انقلابی اقدامات کا دعویٰ کیا جاتا ہے مگر نظام میں کسی قسم کی کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔ نئی ٹرینیں چلانے کی بجائے سسٹم کو درست کیا جائے۔ اس شعبے کا مجموعی خسارہ32ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ہر سال 38سے42ارب روپے کا سالانہ مین آڈٹ پیکیج دینے کے باوجود ریلوے کی حالت میں بہتری نہیں آئی۔ گزشتہ 25برس سے ریلوے کو غیرسنجیدگی سے چلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور بد قسمتی سے یہ سلسلہ ہنوز بھی جاری ہے۔ سانحہ تیز گام ایکسپریس میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے رنج و غم ٹرین میں سلنڈر پھٹنے سے 70سے زائد افراد کی موت بہت بڑا سانحہ ہے۔ حکومت فوری طور پر زخمی افراد کی ہر ممکن طبی اور جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کی مالی امداد کی جائے۔ وزیر ریلوے اپنی نااہلی چھپانے کے لیے واقعے کے ذمہ دارعوام کو ٹھہرارہے ہیں۔ ٹرین میں سلنڈر لے جانے کی کس نے اجازت دی۔ اس واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داران کو مجرمانہ غفلت پر سخت ترین سزا ملنی چاہیے۔ عوام کے جان و مال کا تحفظ حکومت وقت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں اس حوالے سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے۔ ہر دلخراش واقعے کے بعد حکمرانوں کی جانب سے بڑے دعوے اور وعدے قوم کے سامنے کیے جاتے ہیں۔ مگر عملاً کچھ نہیں ہوتا اور لوگوں کی زندگی کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ بد انتظامی کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہوسکتی ہے۔