جوانوں کو پیروں کا استاد کر

November 17, 2019

کیا خوبصورت سماں تھا حضوری باغ میں۔ اقبال کے مزار پر جشن بپا تھا، جس میں تاریخ کا شاہانہ عکس اور حال کا ثقافتی وقار قمقموں کی روشنی میں مزید اجاگر ہو رہے تھے۔ چاروں طرف سے سنہری دور کی علامتوں میں گھرا حضوری باغ دلکشی کا وہ نمونہ ہے جس نے آج کے اہل حکومت اور ماضی کی بادشاہت کے درمیان ایک کڑی کی مانند موجود ہے۔ دیگر ملکوں کے سربراہوں کے اعزاز میں یہیں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں تاکہ ایک ہی وقت میں انھیں اپنی تاریخ اور ورثے سے روشناس کرایا جا سکے۔ شاہی قلعہ اور شاہی مسجد کے در و دیوار میں بہت سے راز پنہاں ہیں۔ تنگ و تاریک عقوبت خانوں، چھوٹے چھوٹے روشن دانوں، اکھڑی ہوئی اینٹوں کے نیچے، دروازوں کی درزوں میں ابھی تک کچھ رقعے اور پیغامات محفوظ ہیں۔ خوشی اور چہل پہل کے ساتھ خوف کے سائے بھی منجمد ہو چکے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر یہ مقام ماضی میں جھانکنے اور تاریخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا دریچہ محسوس ہوتا ہے۔ جب بھی وہاں جانے کا موقع ملا ان در و دیوار میں مقید ہیں، سازشیں اور ان کہی رہ جانے والی سرگوشیاں سننے کی کوشش ضرور کرتی ہوں۔ تہہ خانوں میں سر پٹکتی چیخیں اور سرنگوں میں پھنس جانے والی کہانیاں بھی مجھے پکارتی ہیں۔ وہاں بہت سی اشیا ابھی تک امانتاً پڑی ہوئی ہیں۔ یہ امانتیں اس دور کے دانشور نے آنے والے زمانے کی سبق آموزی کے لئے محفوظ کی تھیں۔ جاہ و جلال اور شاہانہ اطوار سے پھسلتی نظر اقبال کے مزار تک آتی ہے تو عجیب سا سکون محسوس ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے عہد رفتہ کی داستان سنا کر جذبہ حریت پیدا کرنے والا، دوبارہ کھوئے ہوئے مقام کی بازیابی کے نسخے لکھنے والا، نظر کی محدود استطاعت اور عقل کی حد بندی سے آگاہ کرکے وجدان کی طرف راغب کرنے والا، یہ ڈاکٹر روحانی تعویذ بھی عنایت کرتا تھا۔ دونوں ہاتھوں میں دونوں دنیاؤں کے رازوں سے بھرے بریف کیس لے کر گھومتا رہا۔ مگر ذاتی طور پر درویشانہ طرزِ حیات کا چاہنے والا۔ اقبال کو یہاں سپرد خاک کرنے کافیصلہ یقیناً دو مکتبِ فکر کا موازنہ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک طرف لوہے کی تلوار سے علاقے اور دوسری سمت لکڑی کی قلم سے دلوں کو جیتنے والا۔ یوں یہ مقام ہمارے گزشتہ کل، آج اور مستقبل سے وابستہ ہے۔ آج وہاں بادشاہ کی سواری کے ہٹو بچو سائرن نہیں بجتے، سر جھکائے غلاموں کی قطاریں نظر نہیں آتی، شہزادیوں کے پیچھے چلنے والی کنیزوں کا دیدار نہیں ہوتا، اس لئے کہ قلعے پر سبز اور سفید پرچم لہراتا ہوا ایک مختلف روایت کا امین ہے۔ اقبال کے یوم پیدائش پر ثقافتی ورثے کی سنبھال اور آرائش میں بے پناہ خدمات سر انجام دینے والے کامران لاشاری اور نانا کے لفظوں کو وجد آفریں دھنوں سے مزین کرکے سماعتوں میں بسانے کی جدوجہد میں ہر لمحہ مصروف یوسف صلاح الدین نے حضوری باغ میں عالیشان محفل منعقد کی۔ راحت فتح علی خان، حدیقہ کیانی، علی ظفر، ساحر علی بگا، شفقت امانت علی، صنم ماروی اور حنا نصراللہ نے دلوں کے ساتھ روح سے مکالمے کا سماں پیدا کیا۔ اب بھی یہاں موسیقی کی محفلیں جمتی ہیں لیکن اب ان سے محضوظ ہونے کے لئے کلچر، میوزک اور شاعری سے محبت کرنے والے لوگ شامل ہوتے۔ بڑا آئینی دروازہ دن بھر کھلا رہتا ہے۔ سیاحت اور سبق ساتھ ساتھ۔ اس محفل میں گرو نانک کے 550ویں جنم دن کے لئے آنے والے سکھ یاتری بھی موجود تھے۔ جنہیں شائستہ لودھی نے خصوصی طور پر خوش آمدید کہا۔ علی ظفر کا تہبند اقبال کی درویشی اور پنجابی ثقافت کی علامت تھا۔ فارسی کلام بھی گایا گیا اور انگریزی ترجمے بھی، جرمنی، ایران، ترکی اور دیگر ممالک کے سفیروں کی گفتگو اقبال کی ہمہ گیر دانش اور فلسفے کی گواہی تھی۔ اقبال ہر دور کا شاعر ہے۔ جوانوں کو پیروں کا استاد کر۔ ترقی یافتہ فلسفیانہ اور سائنسی فکر ہے۔ ٹیکنالوجی کی برکتوں سے فیض یاب ہونے والے نوجوان زیادہ پُراعتماد، سچے اور فیصلہ سازی میں تیز ہیں۔ اس لئے ریاست کو انھیں آگے کر کے ان کی صلاحیتوں سے فیض یاب ہونے کی ضرورت ہے۔ ہماری آج کی نوجوان نسل قابلیت اور صلاحیتوں میں تو بے مثال ہے مگر ہمارے موجودہ تعلیمی نظام نے ہزاروں سال پرانی علمی میراث اور ثقافت سے اس کا تعلق منقطع کر دیا ہے۔ اب اقبال کے الفاظ اس کے لئے اجنبی ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر یہی عالم رہا تو یہ متروک بھی ہو سکتے ہیں۔ اپنی زمین اور ثقافتی اقدار سے جڑت کے بغیر کسی قوم کا مورال بلند نہیں ہو سکتا۔ انھیں کوے اور ہنس کی صورت حال کا سامنا رہتا ہے۔ آپ صرف اپنی بنیاد پر کھڑے ہوکر جداگانہ تشخص پر ناز کر سکتے ہیں۔ ضروری ہے کہ اقبال کے پیغام کو نوجوان نسل کا اعزاز بناکر انھیں حریت، خودی اور خود اعتمادی کی رہ گزر پر گامزن کیا جائے اور اس کے لئے اقبال کی شاعری کی تفہیم ضروری ہے۔ ترجمے میں وہ بات کبھی ادا نہیں ہوسکتی جو شاعر کے دل سے نکلے لفظوں میں ہوتی ہے۔

خرد کو غلامی سے آزاد کر

جوانوں کو پیروں کا استاد کر

ہری شاخِ ملت ترے نم سے ہے

نفس اس بدن میں ترے دم سے ہے

تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے

دلِ مرتضیٰ سوزِ صدیق دے

جگر سے وہی تیر پھر پار کر

تمنا کو سینوں میں بیدار کر