سابقہ حکومت کے اچھے کاموں کا اعتراف

November 18, 2019

قومی معیشت کی ابتری کی ذمہ داری موجودہ حکمراں اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد سے پچھلی حکومتوں پر ڈالتے چلے آرہے ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ سال حکومت کرنے کے بعد بھی وزیراعظم اور ان کے بیشتر ساتھیوں کا کہنا عموماً یہی ہوتا ہے کہ بے قابو مہنگائی، روز افزوں بیروزگاری، علاج معالجے کی سہولتوں کا فقدان اور وہ تمام مسائل جن سے پاکستانی شہری آج ملک بھر میں دوچار ہیں، سابقہ حکومت کا وِرثہ ہیں تاہم موجودہ دور میں پہلی بار ایسی بنیادی اصلاحات عمل میں لائی جا رہی ہیں جو پائیدار اور مستقل بہتری کا ذریعہ بنیں گی۔ وفاقی حکومت کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے گزشتہ روز بھی یہی موقف اختیار کرتے ہوئے کراچی میں اوور سیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی ایک تقریب سے اپنے خطاب میں کہا کہ موجودہ حکومت سابقہ حکومتوں کی جانب سے منصوبہ بندی نہ کرنے کے نتائج بھگت رہی ہے، حکومت نے تاجروں کیلئے بہت سی مراعات کی پیشکش کی ہے لیکن معیشت کو دستاویزی بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ معیشت کی بحالی کیلئے حکومتی کوششوں کے مثبت اثرات نظر آنا شروع ہو گئے ہیں اور برآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کی بنا پر آئی ایم ایف نے بھی معاشی استحکام کیلئے کیے جانے والے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ تاہم گزشتہ روز کراچی ہی میں وفاقی حکومت کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے اسلامک چیمبر آف کامرس سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت کے اس عمومی موقف کے بالکل برعکس اعتراف کیا کہ ’’عالمی بینک کی کاروباری اصلاحاتی رپورٹ میں پاکستان کی بہتری پچھلی حکومت کی پالیسیوں کو جاری رکھنے کی وجہ سے ممکن ہوئی‘‘۔ مشیر تجارت نے اس موقع پر مزید کہا کہ پچھلی حکومت نے بجلی کے منصوبوں اور کاروباری اصلاحات جیسے جو اچھے کام کیے ہیں انہیں سراہا جانا چاہئے۔ معاشی اصلاحات کے اقدامات اور ان کے مثبت نتائج کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ آج پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے ماحول بہت سازگار ہے۔ مشیر تجارت نے سابقہ حکومت کے اچھے کاموں کا برملا اعتراف کرکے نہ صرف کشادہ دلی کا ثبوت دیا ہے بلکہ ان حقائق کو تسلیم کرنے کا تعمیری رویہ بھی اپنایا ہے جن کی پوری قوم شاہد ہے۔ سابقہ حکومت نے 2013ء کے وسط میں اقتدار سنبھالا تو ملک بھر میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ روز کا معمول تھی۔ خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے ملک کا کوئی گوشہ محفوظ نہیں تھا۔ زرمبادلہ کے ذخائر تین ارب ڈالر سے نیچے آچکے تھے۔ روپے کی قدر میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی تھی۔ لیکن اسی سال کی آخری سہ ماہی سے ہی معاشی بہتری کے آثار نمایاں ہونا شروع ہوگئے جبکہ جنوری 2018ء میں ورلڈ بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ مالی سال 2017-18ء میں پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح ساڑھے پانچ فی صد اور اس کے بعد چھ فی صد تک جا پہنچے گی اور فی الواقع جون 2018ء کے اعداد و شمار کے مطابق ہماری معاشی ترقی کی شرح ایک دہائی کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی لیکن اسی سال نئے دور حکومت میں جولائی تا دسمبر کی ششماہی معاشی ابتری کی پیغامبر ثابت ہوئی۔ دنوں اور ہفتوں میں ملک کی کایا پلٹ دینے کے دعوے اور وعدے کرنے والے حکمرانوں نے بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کی تمام تر ذمہ داری پچھلے حکمرانوں پر ڈالنے کی آسان روش اپنائی۔ سابقہ حکمرانوں کے اچھے کاموں کو باقی رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کے بجائے ’’ہر کہ آمد عمارت نو ساخت‘‘ کے مصداق پچھلی حکومت کے ہر کام کو غلط قرار دینا ہی ذمہ داروں کا وتیرہ بن گیا۔ تاہم کوئی بھی تعمیری عمل حقائق کا اعتراف کیے بغیر ممکن نہیں۔ مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے ایسا کرکے اس دور میں ایک امید افزا روایت کا آغاز کیا ہے، یہ روایت آگے بڑھی تو ان شاء اللہ قومی ترقی کی راہیں تیزی سے ہموار ہوں گی۔