اسلامک اور ECO چیمبرز کے اجلاس

November 18, 2019

اسلامک چیمبرز آف کامرس انڈسٹری اور ایگریکلچرل (ICCIA) اور اقتصادی تعاون تنظیم (ECO) چیمبر آف کامرس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس کا فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI) کو 25سال بعد میزبانی کا شرف حاصل ہوا ہے۔ اسلامک چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کا باقاعدہ قیام 1979ء میں عمل میں آیا جس کا ہیڈ کوارٹر ملک کے صنعتی و تجارتی حب کراچی میں قائم کیا گیا۔ اسلامک چیمبرز آف کامرس، OICکا ذیلی ادارہ ہے جس کے 57ممبر ممالک ہیں۔ چیمبر کے مقاصد میں ممبر ممالک کے مابین صنعت و تجارت اور زراعت کو فروغ دینا ہے۔ اسلامک چیمبرز کے موجودہ صدر سعودی عرب کے شیخ صالح عبداللہ کامل اور سیکریٹری جنرل یوسف حسن خلاوی ہیں جبکہ پاکستان سے عطیہ نوازش علی اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل ہیں۔ چیمبرز کے دو نائب صدور میں ترکی سے رفعت حصار چغلو اور مصر سے احمد الوکیل ہیں۔

یہ بات نہایت خوش آئند ہے کہ 15اور 16نومبر 2019ء کو اسلامک چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے 29ویں بورڈ آف ڈائریکٹرز اور ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس کراچی میں منعقد ہوا جس میں وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق دائود نے خصوصی طور پر شرکت کی جبکہ اجلاس میں 29اسلامی ممالک کے اعلیٰ سطحی 90سے زائد مندوبین، فیڈریشن اور چیمبرز کے صدور بھی شریک تھے۔یہ تاریخی موقع تھا کہ اسلامک چیمبر کے ساتھ اقتصادی تعاون تنظیم چیمبر کے 27ویں ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بھی 13اور 14نومبر کو کراچی میں منعقد ہوا جس میں 12سے زائد ECOممالک نے بھی شرکت کی۔ اقتصادی تعاون تنظیم کے وفد کی سربراہی ECOکے صدر ازراکش حافظی کر رہے تھے جس کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر ہادی سلومانپور ہیں۔ دونوں اجلاسوں اور دیگر سرگرمیوں کیلئے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس کے صدر انجینئر دارو خان نے مجھ سمیت ایک اعلیٰ سطح کمیٹی تشکیل دی تھی۔ فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل اقبال تھیم نے اپنی ٹیم کے ساتھ دن رات محنت کرکے دونوں اجلاسوں اور سرمایہ کاری کانفرنس کو کامیاب بنایا۔ کانفرنس میں مسلم ممالک کے ممتاز بزنس مین اور اسپیکرز نے حصہ لیا اور اپنے اپنے ملک میں سرمایہ کاری کے مواقع پر پریزنٹیشنز دیں جبکہ پاکستان کی طرف سے سرمایہ کاری کے مواقع پر میں نے پریزنٹیشن دی۔ تقریب کے مہمان خصوصی بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال تھے۔

2018ء میں ECO ممالک کی مجموعی تجارت 65ارب ڈالر تھی جس میں سے پہلے نمبر پر ترکی ہے جس کی ای سی او ممالک کے ساتھ تجارت 17.6ارب ڈالر (27فیصد) ہے۔ دوسرے نمبر پر ایران 11ارب ڈالر (17فیصد) اور تیسرے نمبر پر افغانستان 9.4ارب ڈالر (14.5فیصد)ہے جبکہ پاکستان کی ای سی او ممالک کو تجارت صرف 3.1ارب ڈالر (4.8فیصد) ہے۔ ای سی او ممالک کے درمیان مجموعی سرمایہ کاری 2018ء میں 27ارب ڈالر تھی جس میں ترکی کی 13ارب ڈالر، قازقستان کی 3.8ارب ڈالر اور ایران کی 3.5ارب ڈالر تھی جبکہ ای سی او ممالک میں پاکستان کی سرمایہ کاری صرف 2.3ارب ڈالر ہے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم برائے تعاون (OIC) میں شامل مسلم ممالک کی مجموعی آبادی 1.8ارب نفوس پر مشتمل ہے جس کا جی ڈی پی 6ٹریلین ڈالر ہے جو دنیا کے مجموعی جی ڈی پی کا تقریباً 8فیصد ہے۔ اسلامی ممالک کی دنیا میں مجموعی برآمدات 12فیصد اور درآمدات 10فیصد ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں اسلامی ممالک کا جی ڈی پی گروتھ اوسطاً 5سے 6 فیصد رہا ہے۔

اسلامک چیمبرز اور اقتصادی تعاون تنظیم کے 80سے زائد مندوبین کی ایک طویل عرصے بعد پاکستان آمد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس نے 15نومبر کو ایف پی سی سی آئی ایکسپورٹ ایوارڈ کی تقریب گورنر ہائوس کراچی میں منعقد کی جس کے مہمان خصوصی صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی تھے۔ ایکسپورٹ ٹرافی ایوارڈ کا مقصد پاکستان کے کامیاب ایکسپورٹرز کا بیرون ملک سے آئے ہوئے ممتاز بزنس مینوں سے ملاقات کرانا تھا۔ میں نے سرمایہ کاری کے حوالے سے بتایا کہ 21کروڑ آبادی کا ملک پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے خطے میں نہایت اہمیت رکھتا ہے جس نے حال ہی میں ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق بزنس کرنے میں آسانیوں کے انڈیکس میں 28درجے بہتری حاصل کی ہے۔ اسلامی ممالک پاکستان کے موجودہ پوٹینشل سے فائدہ اٹھا کر افرادی قوت اور دفاعی خدمات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ سیاحت، آئی ٹی، کنسٹرکشن اور دیگر صنعتی شعبوں میں سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔ آئی ٹی، حلال فوڈ، میڈیکل اور مذہبی ٹورازم، تعلیم، بینکنگ، انشورنس اور پورٹ اینڈ شپنگ وہ شعبے ہیں جس میں پاکستان میں تجارت اور سرمایہ کاری کا بے انتہا پوٹینشل ہے۔ اسلامی ممالک کے مابین تجارت بڑھانے کیلئے ضروری ہے کہ ممبر ممالک کے مابین ترجیحی تجارتی نظام (PTA) جلد از جلد سائن کیا جائے۔ اسلامی دنیامیں تیل کے ذخائر میں کمی اور دنیا میں توانائی کے متبادل ذرائع کے بڑھتے ہوئے استعمال کے پیش نظر اسلامی دنیا کو تجارت میں تنوع پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان ممالک کا تیل پر انحصار کم ہوسکے۔ اس سلسلے میں حلال فوڈ کا فروغ، مذہبی و میڈیکل ٹورازم اور اسلامی ممالک کے مابین تجارت و سرمایہ کاری بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔