حالات کی تبدیلی

November 18, 2019

کوئی مانے یا نہ مانے، میں نے تو کپتان کو مہان اور عظیم قائد تسلیم کر لیا ہے اور یہ تبدیلی چند روز قبل شہرِ اقتدار کی خاک چھانتے ہوئے برپا ہوئی۔

آپ اسے وارداتِ قلبی تسلیم کریں یا پھر جاہ طلبی کا نام دے لیں مگر سچ یہ ہے کہ کایا کلپ ہو چکی ہے بلکہ میں تو اب اس بات پر بھی سنجیدگی سے غور کر رہا ہوں کہ میں راستہ بھولا نہیں بلکہ شاید کسی حکمت کے پیش نظر مجھے بھٹکایا گیا ہے تاکہ صراطِ مستقیم پر آ سکوں اور رجوع کرنے کا موقع میسر آ سکے۔

وفاقی دارالحکومت کے راستے بھی اقتدار کی بھول بھلیوں کی طرح پُراسرار ہیں اور باہر سے آنے والے ان راہوں میں کھو جاتے ہیں۔ چند روز قبل میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ راولپنڈی مری روڈ سے اسلام آباد کی طرف آتے ہوئے فیض آباد پل کے نیچے سے گزریں تو دو سڑکوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔

ایک راستہ زیرو پوائنٹ اور آبپارہ کی طرف آتا ہے جبکہ دوسرا راستہ کدھر جاتا ہے، اس بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔ دھیان بٹ جانے کے باعث میں زیرو پوائنٹ کی طرف آنے والی سڑک کے بجائے دوسری شاہراہ پر مڑ گیا۔

فوراً غلطی کا احساس ہوا تو بائیں طرف ایگزٹ لیا تاکہ اسلام آباد ایکسپریس وے پر جاکر یوٹرن لوں اور پھر اسلام آباد کی طرف روانہ ہو جائوں۔ کچھ دیر گاڑی بھگاتا رہا مگر یوٹرن کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔

گاڑی روک کر کسی ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اسلام آباد ایکسپریس ہائی وے پر کوئی یوٹرن نہیں، آپ ناک کی سیدھ میں چلتے جائیں۔ کھنہ پل سے پہلے بائیں طرف مُڑیں، یوٹرن لیکر پُل پر آئیں اور پھر نیچے اُتر کر اسلام آباد کی طرف جائیں۔

یوں روات کی جانب کم وبیش 10کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد اسلام آباد کی طرف واپس مُڑا تو کپتان کی دور اندیشی، حکمت اور بصیرت پر ایمان لا چکا تھا۔

ایک پل کے لئے تصور کریں کہ اگر اسلام آباد ایکسپریس ہائی وے پر کوئی یوٹرن ہی نہ ہوتا تو میں چار و ناچار جی ٹی روڈ سے ہوتا ہوا واپس لاہور آ جاتا۔ میرا خیال ہے کہ وہ سب لوگ جو ناسمجھی میں کپتان کے یوٹرن وژن کا مذاق اُڑاتے رہے ہیں انہیں فی الفور اپنے کئے پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے بروقت رجوع کر لینا چاہئے وگرنہ ایک نہ ایک دن بھٹک جانے پر انہیں ضرور احساس ہوگا کہ وہ کتنا عرصہ گمراہی کا شکار رہے ہیں۔

مجھے ہدایت پا لینے کی خوشی تو ہے مگر ملال اس بات کا ہے کہ یہ راز پا لینے میں اس قدر تاخیر کیوں ہوئی اور تبھی یہ عقدہ کیوں کھلا جب زائچے بنانے والے بے پر کی اڑا رہے ہیں۔

ان کے منہ میں خاک، پتا نہیں کیوں یہ کپتان کے پیچھے پڑ گئے ہیں اور یہ بدشگونی پھیلا رہے ہیں کہ کپتان کے ستارے گردش میں ہیں۔ بتایا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ کپتان کے نجومی ان کو اس طوفان بلاخیز کی خبر دینے کے بعد مراقبے کی کیفیت میں ہیں اور نہ صرف ردِّ بلا کے وظائف کا سلسلہ جاری ہے بلکہ روحانیت کی مدد سے حالیہ مشکلات سے نجات پانے کی تدبیر بھی کی جا رہی ہے مگر یہ نجومی کہتے ہیں کہ اس بار کسی درگاہ پر ماتھا ٹیکنے، چادر چڑھانے یا کسی پہنچے ہوئے پیر سے تعویز لینے سے کام نہیں چلے گا۔

جب کوئی بڑی مصیبت سروں پر منڈلا رہی ہو تو پھر قربانی یا بھینٹ دیکر ہی حالات ٹھیک کئے جا سکتے ہیں۔ قربانی کی نوعیت کا تعین حالات اور درپیش مشکلات کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے۔

جس طرح ہمارے ہاں صدقہ کرتے وقت کالے بکرے قربان کرنے کا چلن ہے اسی طرح ہندو سماج اشومیدھ (گھوڑے کی قربانی) کو اعلیٰ و ارفع بھینٹ شمار کرتا ہے لیکن جب کوئی خوفناک بلا وارد ہوتی ہے یا پھر حالات خطرناک حد تک بگڑ جاتے ہیں تو پھر انسانوں کی بلی دینا پڑتی ہے۔

براعظم افریقہ عجیب و غریب رسوم و رواج اور روایات کے حوالے سے مشہور ہے۔ تنزانیہ، برونڈی، روانڈا، کینیا اور یوگنڈا میں ایسے افراد بکثرت دکھائی دیتے ہیں جن کی رنگت ہی بھوری نہیں ہوتی بلکہ ان کے سر کے بال، بھنویں اور پلکوں کے بال بھی سفید ہوتے ہیں۔

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ موروثی اور ناقابل علاج مرض ہے جس کا تعلق جینیاتی پیچیدگیوں سے ہے مگر افریقی معاشرہ ایسے افراد کو ’’البائنو‘‘ کے نام سے جانتا ہے۔ جب بھی کسی آتش فشاں کے پھٹ پڑنے کا خطرہ ہو، کسی طوفان کی آمد کا امکان ہو یا کسی اور قدرتی آفت کا خطرہ سروں پر منڈلا رہا ہو تو پہاڑوں کے دیوتا کو خوش کرنے کیلئے البائنو افراد کو بَلی چڑھایا جاتا ہے۔ افریقی قبائل کا عقیدہ ہے کہ ان البائنو افراد کی بھینٹ دینے سے دیوتائوں کی ناراضی دور ہو جاتی ہے اور معاشرہ بہت بڑی تباہی و بربادی سے بچ رہتا ہے۔

بھینٹ، بَلی یا صدقہ دینے کا طریقہ کار بھلے مختلف ہو لیکن ہر ملک اور معاشرے میں یہ تصور کسی نہ کسی انداز سے پایا اور نبھایا ضرور جاتا ہے۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ کچھ عرصہ سے ہمارا ملک مصیبتوں کی زد میں ہے اور ملکی معیشت کی حالت ناگفتہ بہ ہے، سیاسی عدم استحکام بڑھتا چلا جارہا ہے اور عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

حالات سنوارنے کے لئے اب تک جتنی تدبیریں کی گئیں وہ سب اُلٹ ہو گئیں اور ڈور سلجھنے کے بجائے الجھتی چلی گئی۔ ستارے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اب ملک کو مصیبتوں کے منجدھار سے نکالنے کے لئے بڑی قربانی بلکہ قربانیاں دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور یہ سلسلہ اسی ماہ شروع ہو جائے گا۔

ایسے میں عام آدمی ماسوائے یہ دعا کرنے کے اور کیا کر سکتا ہے کہ خدا کرے اس بھینٹ سے سب بلائیں ٹل جائیں اور ملکی حالات سنور جائیں۔