بے حسی کہیں بے بسی نہ بن جائے

November 18, 2019

ہمارے معاشرے کا بڑا المیہ بے حسی کے ساتھ یہ ہوتاجارہا ہے کہ روڈ پہ ایکسیڈنٹ ہوجانے کے بعد شخص یا اشخاص سڑک پہ تکلیف سے تڑپتے رہتے ہیں ۔مگران کو ابتدائی امداد پہچانے کے بجائے سوشل میڈیا پہ ان کی بے بسی وائرل کرنے کے لیے لوگ ویڈیوبنانے اور تصویر کھینچے میں مصروف رہتے ہیںاور یوں وہ بے بس شخص ایسے میںبے بسی سے تڑپتاان کی بے حسی دیکھ رہاہوتا ہے۔کچھ دور نہ جایئے معروف قوال امجدصابری کو گولی لگنے کے بعد بجائے فوراًاسپتال لے جانے کے اس کی آخری سانسوں کی ویڈیو بنائی جارہی تھی کیا بہتر نہیں تھا کہ ان کو فوری طبی امداد فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی۔مزید اس کی مثال یہی ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں سانحہ ساہیوال کے چشم دیدگواہ معصوم انسانوں کو قتل ہوتے دیکھ رہے تھے اور بچوں کے اغوا ہونے کی ویڈیوبنارہے تھے ۔لیکن ان سے یہ نہ ہوسکاکہ قریب جاکر ان تین چار ظالموں کو رنگے ہاتھوں پکڑلیتےکیونکہ بہرحال سینکڑوں افراد چند افراد پہ بھاری ہی رہتے۔اس کے بعد سوشل میڈیا پہ ویڈیووائرل کرنے کے بعد جب انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ان چشم دیدگواہوں کو بلایا گیا تو انہوں نے ظالموں کو پہچانے سے انکار کردیا اور دباؤ کے تحت لواحقین بھی انصاف کا مطالبہ نہ کرسکے۔یوں وہ معصوم بچےانصاف کے بجائے لوگوں کی بے حسی کا شکار ہوگئے۔ ان بڑے واقعہ کے باوجود بھی سینکڑوں کی تعداد میں چشم دیدگواہوں کی حس نہ جاگ سکی اور اپنی بے حسی کی وجہ سوشل میڈیا پہ وائرل نہ کرسکے۔اسی طرح جب چلتی ٹرین میں 70 سے زائد معصوم انسان لقمہ اجل بن گئے اور معصوم وزیرصاحب کے بدولت کے مرنے میں ان لوگوں کا اپنا ہاتھ تھا۔یعنی کے وہ جان بوجھ کے اپنے آپ کو جلانے کے لیے ٹرین میں سوار ہوئے تھے اور یوں کارروائی بند ہوجاتی ہے۔ذرااپنے ذہن پہ خودہی زور دیں کہ کیسے ممکن ہےکہ ایک سلینڈر کی وجہ سے تین بوگیاں جل جائیں اور ٹرین میں تکنیکی خرابی کوئی نہ ہو۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے سرکاری ادارے کس قدر " انسان دوست" اور عوام کا خیال رکھنے والے ہیں۔ دوسری طرف ان جلنے والے لواحقین نے بھی حکومت کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں کیااور اللہ کی رضامانتے ہوئے صبر کرلیا۔لیکن کیا وزیرموصوف نے بھی اس کو اللہ کی رضا ہی سمجھاہےاور ادارے کی ناقص کارکردگی نہیں ۔کیا سچے اور اچھے لوگ اب حکومت میں نہیں رہیں گے؟ جب معصوم بچوں کو بربادکرکے بے دری سے قتل کیا جاتا ہےاور ایسے میں کوئی شواہد نہیں ملتے جبکہ معلوم سب کو ہوتا ہے لیکن کوئی آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔کوئی نہیں ہوتا جو ان کو انصاف دلائے۔ انسانیت ہی بے بسی سے انسانوں کی بے حسی دیکھتی ہے اور سوچتی ہے کاش کوئی ان کو سمجھائےکہ آج اگر ان کے ساتھ نہیںہوا، ان کا معصوم بچہ برباد نہیں ہوا،وہ بے رحمی سے قتل نہیں ہوا۔لیکن اگران ظالموں کے خلاف آواز نہیں اٹھائی گئی تو کل یہ واقعہ ہمارے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔کیونکہ انفرادی غلطیاں ہی اجتماعی نقصان کا سبب بنتی ہیں۔ جس کی تلافی قوم کے لیے بہت مشکل ہوجاتی ہے۔تمام مظلوموں کی پکار شعر میںڈھل جائےاور دل سےپھرشاید آواز نکلے" قاتل کو مسیحا لکھ رہے ہیں۔۔۔خود اپنا قصدہ لکھ رہے ہیں"افسوس کی بات یہ ہے کہ اب انصاف کے اوپر بے تحاشہ این جی اوز ،سول سوسائٹیزاور اسی طرح کی اور انجمنیں موجود ہیں لیکن کسی ایک طرف سے بھی ان تکلیف دہ اور دلخراش واقعات پر " انصاف کے لیے" کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ غالب نےکیا خوب کہاہے " باغیچہ اطفال دنیا میرے آگے ۔ہوتا ہے شب وروز تماشہ میرے آگے" ابھی بھی پانی سرسے نہیں گزرا ہے ۔معاملہ فہمی، احساس ذمہ داری،تھوڑی سی کوشش کرکے اس بے حسی کو کم کیا جاسکتا ہے جس سے اور کچھ نہ بھی ہو ۔مگر معصوم انسانوں کی جان اور مال کی حفاظت ہوسکے اور دوسری طرف انصاف کا بول بالا ہو۔عوام کو سوچنا ہوگا اور ہر ایک شخص کو خود ذمہ داری لینی ہوگی چونکہ یہ ملک ہمارا ہے اور اس کی ترقی، خوشحالی اور مضبوطی میںہم سب کا کردار ہوگا اور وہ تب ہوگا کہ جب ہم دوسروں کا درد سمجھیںگے ، بھائی چارے کا مظاہرہ کریںگے، ایک دوسرے کا سہارا بنیں گے،اور سب مل کے ترقی کریں گے ۔ ہر تکلیف کی ویڈیو بناکے وائرل کرنے سے نہیں۔

minhajur.rabjanggroup.com.pk