کشمیر کی صورتحال پر سوالات سے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر غصہ، جرمن خاتون صحافی کو مزید پوچھنے سے روکدیا

November 18, 2019

لاہور(خالد محمود خالد)بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں تعینات جرمن خاتون صحافی سے ایک انٹرویو کے دوران بھارتی وزیر خارجہ سبرامینیم جے شنکر انتہائی غصہ میں آگئے ۔اس کے باوجودنئی دہلی میں ایک جرمن اخبار کی نمائندہ خاتون صحافی لارا ہوف لنگرنے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے بھارتی وزیرخارجہ سے انتہائی تیکھے سوالات جاری رکھے۔ بھارتی وزیرخارجہ نے جرمن خاتون صحافی کو پاکستان اور کشمیر کے حوالے سے مزید سوالات کرنے سے روک دیا ۔انہوں نے اپنے انٹرویو کے آغاز میں جے شنکر سے پوچھا کہ تین ماہ سے بھی زائد عرصہ ہو چکا ہے کہ کشمیر میں خود مختاری ختم کر کے سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا جب کہ وہاں کے لوگ اب بھی بھارت سمیت باہر کی دنیا سے مکمل طور پر کٹ چکے ہیں۔کیا اس کے باوجود بھارت اب بھی گاندھی کی اقدار کا پابند ہے؟ بھارتی وزیر خارجہ اس غیر متوقع سوال پر پہلے تو خاموش رہے اور پھر تلملا کر جواب دیتے ہوئے خاتون صحافی سے کہا کہ لگتاہے کہ کشمیر کے بنیادی مسائل کے حوالے سے ان کی انڈر سٹینڈنگ کچھ مختلف ہے۔گزشتہ 30سال کے دوران 40ہزار سے زیادہ کشمیری دہشت گردی کا شکار ہوئے اور اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جب کہ اگر بھارت ایسا نہ کرتا تو آئندہ 30سالوں میں صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہو سکتی تھی اور ایسی صورتحال گاندھی سمیت کسی کے لئے بھی قابل قبول نہ ہوتی۔بھارتی وزیرخارجہ سے پوچھا گیا کہ اس دہشت گردی کے حوالے سے ان کا اشارہ پاکستان کی طرف ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا کہ کشمیر کے اندر ایسے لوگ موجود تھے جن کی مدد پاکستان کر رہاتھا۔جرمن صحافی نے سوال کیا کہ کشمیر میں سیاستدانوں خصوصاً سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو بھی ان کے گھروں میں نظر بند کیا گیا آخر کیوں؟بھارتی وزیر خارجہ نے جواب دیا کہ ہماراخیال تھا کہ سیاستدان ایسی کسی بھی سرگرمی میں ملوث نہیں ہوتے جو دہشت گردی سے جڑی ہوتی ہے۔ہم نے سیاستدانوں کو اس لئے نظر بند کیا کہ ہم کشمیر میں خون خرابہ نہیں کرانا چاہتے تھے۔جرمن صحافی نے پوچھا کہ بھارت نے لینڈ لائن فون طویل عرصہ تک کیوں بند کئے لوگ ایک دوسرے سے رابطہ کرنے سے کافی عرصہ قاصر رہے۔ جے شنکر نے جواب دیا کہ لینڈ لائن فون بند کرنے کا مقصد یہ تھا کہ دہشت گرد آپس میں رابطہ نہ کر سکیں۔ سوال کیا گیا کہ لوگوں کو طبی ایمرجنسی بھی ہوئی ہو گی ایسے میں فون بند ہونے کے باعث وہ ایمبولنس کیسے منگوا سکتے تھے؟وزیر خارجہ نے جواب دیا تو پھر ہم دہشت گردوں کو کیسے روکتے۔سوال: تو کیا دہشت گردی روکنے کے لئے بنیادی انسانی حقوق کا گلا گھونٹ دینا چاہئے؟ بھارتی وزیرخارجہ نے تلملا کر جواب دیا کہ مغربی پریس بلاوجہ ایسے الزامات لگا رہا ہے۔ دہشت گرد کئی ہفتوں سے سیب کے کئی تاجروں کو مار رہے تھے جب کہ بازاروں میں دستی بم پھینکے گئے آخر آپ جیسے مغربی صحافیوں کو یہ کیوں نظر نہیں آتا۔مغربی پریس کا رویہ غیر منصفانہ رہااور یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے۔