گنوادی ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی تھی

November 23, 2019

محمد ریاض علیمی

تحقیق کے مراحل کبھی ختم نہیں ہوتے، آج جس موضوع پر تحقیق ہوئی ہے ممکن ہے مستقبل میں اس پر کوئی نئی تحقیق سامنے آجائے۔ انسان اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق تحقیق کے میدان میں اپنا کردار ادا کرتا اور نت نئی تحقیقات سے دنیا کو روشناس کراتا رہتا ہے۔ تاریخ نویسوں کے مطابق چند صدیوں قبل تحقیق کا میدان مسلم طلبہ کے ہاتھوں میں تھا۔

انہوں نے سائنس سمیت متعدد شعبوں میں انتہائی اہم دریافتیں اور ایجادات کیں، بعدازاں ان دریافتوں میں مزید پیش رفت کی کوششیں نہیں کی گئیں اور نہ ہی اب کی جارہی ہیں، جس کی وجہ سے ان کا تعلیمی عروج، زوال کی طرف گامزن ہے، تعلیم و تحقیق کے شعبہ سے عدم دلچسپی کے باعث ہماری نسل نو کو مغربی ممالک کی غلامی کا طوق پہننا پڑا ہے۔ جن شعبہ جات میں مسلم طلبہ اپنی شناخت رکھتے تھے، آج بدقسمتی سے ان شعبہ جات میں وہ اپنی شناخت کھو چکے ہیں۔

تاریخی آثار و احوال سے اس کی متعدد وجوہات سامنے آئی ہیں۔ اوّل یہ کہ ہمارے طلبہ کا رجحان تعلیم و تحقیقی سرگرمیوں سے ہٹ کر غیر ضروری سرگرمیوں کی جانب ہو گیا ہے۔ دوسرے انہوں نے آباء واجداد اور اکابرین کی تحقیقات کو حرفِ آخر سمجھ کر اسی پر اتفاق کر لیا اور ان تحقیقات میں مزید پیش رفت کرنے کی کوششیں نہیں کی گئیں۔

ایک وقت تھا کہ نوجوان دورانِ تعلیم اپنی قابلیت کا لوہا منوانے کی کوشش و جدد جہد میں مصروف رہتے تھے۔ لیکن آج تعلیم کا اصل مقصد ناپید ہوچکا ہے اور تعلیم کی اصل روح مفقود ہوکر رہ گئی ہے۔ نسل نو میں تحقیقی صلاحیتوں کا فقدان ہے، تعلیمی جستجو محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ تعلیمی اداروں میں مروجہ نصاب تحقیقی اور جدید زمانے کے اصولوں سے مزین نہیں ہے۔ بعض اساتذہ کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کی وجہ سے ذہین طلبہ بھی اپنی صلاحیتوں کو تحقیقی میدان میں بروئے کار لانے سے محروم رہ جاتے ہیں، جس سے ان کی صلاحیتیں ماند پڑجاتی ہیں۔

بلاشبہ اساتذہ کا طریقہ تدریس طلبہ میں تحقیقی و تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بد قسمتی سے ہماری درسگاہوں میں اساتذہ بھی طلباء کو غورو فکر کرنے کی دعوت نہیں دیتے، صرف چند مخصوص اسباق پڑھانے کا روایتی طریقہ ٔ تدریس جاری ہے۔ جس سے ایک جانب طلبہ میں غور و فکر کرنے کی صلاحیت ختم ہورہی ہے تو دوسری جانب روایتی طریقۂ تدریس کے باعث تعلیم کا اصل مقصد فوت ہوکر رہ گیا ہے۔ اساتذہ میں تعمیری و تخلیقی سوچ کے فقدان کی وجہ سے طلباء بھی اعلیٰ سوچ و فکر سے محروم ہیں۔

درسگاہوں میں نصاب سے ہٹ کر غیر نصابی کتابوں کے مطالعہ کا نہ تو رجحان ہے اور نہ ہی اس جانب رغبت دلائی جاتی۔ رٹا لگا کر امتحان پاس کرنے کو اصل کام یابی سمجھ لیا گیا ہے۔ نوجوانوں میں نقل کا کلچر بھی عام ہو رہاہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ تعلیم کا اصل مقصد صرف ڈگری کا حصول اور پیسہ کمانا رہ گیا ہے۔

گلوبلائزیشن کے اس جدید دور میں بذریعہ انٹرنیٹ دنیا کے کسی بھی کونے سے معلومات حاصل کرنا کوئی مشکل نہیں ہے، یقیناً تحقیق کے لیے موبائل، لیپ ٹاپ اور انٹر نیٹ وغیرہ کا استعمال بہت مفید اور کارآمد ہے، لیکن وموماً نوجوان جدید ٹیکنالوجی کے منفی استعمال کو ترجیح دیتے ہیں۔ طلباء اپنا قیمتی وقت غیرضروری سرگرمیوں بالخصوص سوشل میڈیا پر ضائع کرتے ہیں، جس کے باعث ان کی ذہنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال ختم ہوگیا ہے۔ انٹرنیٹ کے منفی استعمال نے نوجوانوں کی ذہنی و فکری استعداد کو بانجھ کرکے رکھ دیا ہے، وہ جتنا وقت طلباء انٹرنیٹ پر غیر ضروری سرگرمیوں میں ضائع کرتے ہیں، اگر اس کا آدھا وقت ہی تعلیم کے مقصد میں لگائیں تو اس کے نتائج زیادہ بہتر ثابت ہوں گے۔

تعلیم و تحقیق کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک کوئی بھی قوم علم کے بغیر ترقی نہیں کرسکی۔ مہذب اور متمدن معاشرے کا قیام تعلیم ہی کے ذریعے ہوتا ہے۔ عصر حاضر میں تعلیم و تحقیق کا شعبہ انحطاط اور تنزل کا شکار ہے۔ نوجوانوں میں تحقیقی و تخلیقی عمل جمود کا شکار ہے۔ ان کی سوچ و فکر محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ طلبہ نے مروجہ قدیم تعلیمی نصاب کو ہی اپنی منزلِ مقصود سمجھ لیا ہے۔ درحقیقت تعلیم کا حصول آخری منزل نہیں ہے بلکہ تعلیم تو تحقیق و تخلیق کی منزل تک پہنچنے کی پہلی سیڑھی ہے۔

علم حاصل کرنے کا مقصد محض امتحان میں کامیابی حاصل کرکے ملازمت کا حصول نہیں بلکہ سیکھنا، عمل کرنا اور اس پر غور و فکر کرنا ہے۔ غور و فکر کرنے سے ہی راہیں کھلتیں اور مثبت سوچیں پروان چڑھتی ہیں۔ تعلیم کے بعد تحقیق اور تخلیق کے مراحل آتے ہیں۔ ہمیں نوجوانوں کا مائنڈ سیٹ بدلنے کی ضرورت ہے، ان میں تعمیری اور تخلیقی سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو ابتداء ہی سے جدید علوم سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک وقوم کی ترقی اور خوشحالی تعلیم و تحقیق پر منحصر ہے۔ جب نوجوان اپنی سوچ و فکر کو مثبت دائرے میں لے جائیں گے تو تحقیق کے میدان میں بھی پیش رفت ہوگی، جس کے سبب تخلیقی اور تعمیری میدان میں قدم رکھنے کے مواقع ملیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیمی میدان بہت وسیع اور لامحدود ہے۔ اس کی حدوں کا تعین کرنا ممکن ہے۔ انسان جتنی زیادہ تحقیق کے میدان میں پیش قدمی کرتا رہے گا، اس کے لیے علم کے نت نئے گوشے اور پہلو سامنے آتے چلے جائیں گے۔ علم کی دنیا میں تحقیق کا میدان عبور کرنے کے بعد تخلیق کا میدان شروع ہوتا ہے، لہٰذا علم کے شعبہ پر توجہ دینے کے بعد نوجوانوں میں تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتوں کا رجحا ن پیدا کرنے کے لیے، حکومتی سطح پر اقدامات ہونا ضروری ہیں۔

یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ دیگر شعبہ جات کی طرح تعلیم کے شعبہ کے لیے بھی بجٹ میں بڑا حصہ مقرر کرے۔ تعلیم کے شعبے میں فنڈز کی کمی ملک و قوم کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ حکومتی سطح پر تعلیمی اداروں میں جدید سہولیات کی فراہمی ضروری ہے، تاکہ طلبہ تھیوری کے ساتھ ساتھ عملی تجربے بھی کرسکیں اور تحقیقی میدان میں ان کی راہیں ہموار ہوسکیں۔ بعض طلبہ میں آگے بڑھنے کی صلاحیت اور جذبہ تو ہوتا ہے، مگر وہ معاشی تنگی اور سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث پیچھے رہ جاتے ہیں۔ لہٰذا ایسے ذہین و قابل طلبہ کی سرپرستی حکومتی سطح پر ہونی چاہیے۔

اگر ہم ملک و قوم کی ترقی چاہتے ہیں تو سنجیدگی سے تعلیم و تحقیق کے شعبہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی تعلیمی پالیسی ان خطوط پر کرنی چاہیے جو ہمارے قومی مزاج کے مطابق اور ہماری تاریخ اور اسلامی ثقافت سے ہم آہنگ ہوں، نیز دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق اپنا نظام تعلیم اور نصاب مرتب کرنا چاہیے۔ ہماری تنزلی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اسلاف کی تحقیقات و تخلیقات کی قدر نہیں کی اور ان کے علمی سرمایہ کو گنوادیا، بقول شاعر مشرق علامہ اقبال،

گنوا دی ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی تھی

ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

یاد رہے کہ اسلاف کی میراث کی قدر صرف گن گانے سے نہیں ہوتی کہ، ہمارے اکابرین نے فلاں فلاں کارنامے انجام دیے ہیں اور ہمیں ان پر فخر ہے، وہ ہمارا سرمایہ ہیں۔ بے شک وہ ہمارا سرمایہ ہیں ، ان کے کارنامے قابلِ فخر ہیں لیکن اس طرح وقت کے تقاضوں کو پورا نہیں کیاجاسکتا ۔

اگر پچھلے ادوار میں ہمارے آباء و اجداد اور اکابرین نے تحقیقات میں لوہا منوایا تو ہم اس تحقیق میں مزید پیش رفت کرنے کی بجائے اسی لکیر کو پیٹ رہے ہیں کہ ہمارے آباء و اجداد نے بہت کام کیا اور ہمیں اس پر فخر ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ، جس طرح انہوں نے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا، نسل نو بھی اپنے جوہر دکھائیں۔ تعلیم کے میدان میں اپنی سوچ و فکر کو آگے بڑھا کر اپنی قابلیت کا لوہا منوائیں اور ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔