نگری نگری پھرنے والا مسافر ’میرا جی‘

November 27, 2019

پروفیسر سلیم الر حمٰن

اردو شعر و ادب کو بلند مرتبہ شعرائے کرام پر ہمیشہ ناز رہے گا، صف اوّل کے ان شعرا میں ایک اسم گرامی میرا جی کا ہے جن کا اصل نام ثناء اللہ ڈار تھا اور جنہیں دنیائے شعر و ادب اردو میں میرا جی کے نام سے جانا جاتا ہے، جب تک جدید اردو نظم کی تاریخ لکھی جاتی رہے گی تب تک ان کا نام ایک معتبر ترین حوالے کے طور پر رقم ہوتا رہے گا۔

اس میں بھی کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ان کی پراسرار حیران کن شخصیت پر مشاہیر ادب نے بہت کچھ لکھا ان کے فکر و فن پر بھی صف اول کے کچھ ناقدین محقیقن نے اعلیٰ اور معیاری مضامین بھی لکھے، تاہم ان کی تخلیقات پر ابھی بہت کچھ لکھنا باقی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی عجیب و غریب اور محیرانہ شخصیت پر جتنا کچھ لکھا بولا گیا وہ ان کے کسی دوسرے معاصر کا مقدر نہ بن سکا۔

میرا جی ایک ہمہ جہت تخلیقی شخصیت تھے۔ وہ ایک بلند پایہ نظم نگار، بےمثل گیت نگار، جید نقاد، اعلیٰ نثار، اعلیٰ سطح کے مترجم اور بڑے ہی منجھے ہوئے براڈ کاسٹر تھے۔ باکمال صداکار تھے اردو شعر و ادب بالخصوص نظم کا تذکرہ ان کے ذکر خیر کے بغیر تشنہ ہے۔ راشد، میرا جی اور مجید الجدید ایک ایسی بھرپور توانا تخلیقی مثلث ہے کہ اسے اگر بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے بعد آنے والے شعر و ادب کی آبرو کہا جاتے بجا ہوگا۔ میرا جی کی منظومات اور غزلیات(غزلیات کی تعداد اگرچہ بہت کم ہے) میں جو تضاد بلاغت پایا جاتا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے ۔میرا جی کے مقام و مرتبہ اور وسعت مطالعہ کے حوالے سے چند مشاہیر کے نہایت مختصر جامع اوربلیغ تبصرے یہاں نذر قارئین ہے۔

پروفیسر محمد حسن عسکری نے ان کے با رے میں لکھا ہے۔

’’میرا جی نے مغربی ادب براہ راست پڑھا تھا۔ اس سے زیادہ سے زیادہ اثر قبول کرنے کی کوشش بھی کی۔ ان کی تو تنقیدوں کا نئے ادب پر بڑا احسان ہے اگر میرا جی نہ ہوتے تو غالباً بہت سےنئے شاعر اور ادیب پیدا ہی نہ ہوتے یا کم سے کم اتنا نہ لکھتے جتنا انہوں نے لکھا ہےادیبوں کے لئے خصوصاً شاعروں کے لئے وہ بہت بڑا سہارا تھے۔‘‘میرا جی عالمی ادب کے بہت اعلیٰ اور بلند پایہ(منشور و منظوم) مترجم بھی تھے انہوں نے مشہور و معروف بلند مرتبت شعرائے مغرب کے منظور و منشور ترجمے کرکے ترجمہ نگاری کے دامن کو جو وسعت دی وہ خاص انہی کا حصہ ہے۔

مغربی ادب کے علاوہ انہوں نے فارسی، سنسکرت، بنگالی، جاپانی، روسی اور چینی زبانوں کی کچھ منظومات کو بھی ترجمہ کیا۔ جن مغربی شعراکے منظوم ترجمے کئے وہ معتبر اسمائے گرامی یہ ہیں۔ سیفو، کیٹولیس، فرانسان دلاں، فریڈرک ہولڈن، طاس مور، ہائنے، ایڈگرایلن پ، اطلی برونٹے، چارلس بودئیر، سوئن برن، جان مسفیلڈ، ڈی ایچ لارنس، میلارمے اور عظیم امریکی شاعر والٹ وٹمن ۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی میرا جی نے تخلیقی سطح پر شعوری ولاشعوری طور پر جرمنی شاعر ہدانتے، انگلستانی شاعر و ادیب ڈی ایچ لارنس اور امریکی شاعر ملک الشعرا والٹ وٹمن کے اثرات قبول کئے۔

میرا جی کی ترجمہ نگاری پر فیض احمد فیض کا جامع اور بلیغ تبصرہ

’’ میرا جی کے ترجمے ایک گراں قدر تخلیقی کارنامہ ہیں میرا جی نے جس انداز سے ادب عالم کے حسین نمونے ہم تک پہنچائے وہ محض ترجھہ نہیں ایجاد ہیں۔‘‘

ثناء اللہ ڈار المعروف میرا جی25مئی 1912میں لاہور میں پیدا ہوئے والد کا نام منشی مہتاب دین والدہ کا زینیب بیگم عرف سردار بیگم تھا۔ آغاز سخن میں ساحری پھر میرا جی تخلص کرتے رہے۔ شباب کی دہلیزپر قدم رکھا تھا کہ ایک بنگالی دوشیزہ میراسین کے عشق کے اسیر ہوگئے اور اس نام سے اپنا تخلص رکھ لیا گویا عشق کی کرامت کہیے کہ یہی نام اردو شعر و ادب کی دنیا میں زندہ جاوید ہوگیا۔ تعلیم تو میٹرک تک بھی مکمل نہ کرسکے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وسعت مطالعہ اور ریاضت تصنیف اس قدر پختہ اور قابل رشک ہوچکی تھی کہ مشاہیر ادب انگشت بدنداں تھے۔

لاہور سے نکلنے والے اپنے عہد کے بڑے جید اور موقر جریدے اور ادبی دنیا میں بطور نائب مدیر کام کرتے رہے۔ 1938تا 1941یہاں اپنی تخلیقی خدمات انجام دیں۔ مولانا صلاح الدین احمد کے اس جریدنے نے ایک عہد میں دنیائے شعر و ادب میں ایک تہلکہ مچائے رکھا۔ 1942تا 1945آل انڈیا ریڈیو میں اپنی قلمی خدمات کے ساتھ اپنی خوبصورت اور بھرپور آواز میں ڈراموں میں بڑی جاندار صداکاری بھی کرتے رہے۔ وہاں سے بھی چلے گئے اور 1945میں آنے والے ساڑھے تین برس تک ’’خیال‘‘ جریدے کی ادارت کی۔ فلمی دنیا سے بھی گاہے گاہے وابستگی رہی۔ معاشی تنگی کے سبب ایک فلم میں ڈاکئے کا کردار بھی کیا۔تین نومبر 1949کو37 برس میں کی عمر میں قفس عنصری سے رہائی پائی۔ جنازے میں صرف چار آدمی شریک تھے۔

میرا جی نہایت زود نویس تھے مختصر سی عمر میں اردو ادب کو وہ کچھ دے گئے جو شاید کئی شاعر و ادیب دہائیوں کام کرنے کے بعد بھی نہ دے سکیں۔ ان کی نظم طرفہ، گیت دلنشین، تنقید بھرپور اور توانا اور تراجم بےپناہ تخلیقی قوت کے حامل ہیں۔شاہد احمد دہلوی کا یہ تبصرہ ملاحظہ ہو گویا کوزے میں دریا بند کردیا ہے’’ہائے کیسا کڑیل جوان تھا، کیسے لوٹ گیا، ہو نہ ہو اسے زمانے کی نظر کھاگئی، رونا اس کا ہے کہ وہ عظیم شاعر، وہ عظیم نثار، وہ عظیم حسن کار اب ہم میں نہیں ہے اب وہ وہاں ہے جہاں ہماری آرزوئیں رہتی ہیں۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

……٭٭……٭٭……

ترا دل دھڑکتا رہے گا

مرا دل دھڑکتا رہے گا

مگر دور دور

زمیں پر سہانے سمے آتے جاتے رہیں گے

یونہی دور دورستارے چمکتے رہیں گے

یونہی دور دور

لیکن محبت

یہ کہہ رہی ہے

ہم دور ہی دور

اور دور ہی دور چلتے رہیں گے