سائنسی خبرنامہ: پودے بھی باتیں کرتے ہیں

November 30, 2019

محمد اویس

پیارے بچو! یہ تو آپ جانتے ہیں کہ پودے بھی جاندار ہوتے ہیں لیکن ان میں بھی کچھ خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں ۔ آئیے ہم آپ کو پودوں پیڑوں اور درختوں کے بارے میں بتاتے ہیں ۔اس کرہ ارض میں رنگ بھرنے والے خوبصورت پھول، ہرے بھرے درخت اور نازک پودے اس کائنات کو رنگین ہی نہیں بلکہ معطر بھی رکھتے ہیں اور کیسے ممکن ہے کہ خوشبو پھیلانے والے یہ پھول، پودے احساسات و جذبات سے عاری ہوں۔

اسٹاک ہوم سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے کہ پودے بھی آپس میں باتیں کرتے ہیں لیکن ان کی یہ باہمی گفتگو بے مقصد نہیں ہوتی بلکہ اس کے ذریعے وہ نہ صرف ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں بلکہ نشوونما میں مدد بھی دیتےہیں۔ تازہ تحقیق میں ماہرین نے دریافت کیا کہ پودے اپنی جڑوں سے خاص کیمیائی مادّوں کا اخراج کرتے ہیں جو ان کے قریب موجود، دوسرے پودوں تک پہنچ کر ان کی شناخت کرتے ہیں۔اور انہیں یہ بتاتے ہیں کہ ان کے پڑوس میں اُگنے والا پودا ان ہی جیسا ہے یا ان سے مختلف ہے۔

وسکونسن کے دار الحکومت میڈی سن میں واقع ’یونیورسٹی آف وسکونسن میڈیسن‘ میں کی گئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ پودے بھی جانوروں کی طرح خطرہ درپیش ہونے پر دوسرے حصوں کو فوری طور پر آگاہ کرتے ہیں۔ جانوروں میں اس کام کے لیے ایک مکمل اعصابی نظام موجود ہے لیکن پودوں میں یہی کام بغیر اعصابی نظام کے ہوتا ہے۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ نباتات انسانوں اور جانوروں کی طرح حس رکھتے ہیں یہ مسکراتے بھی ہیں اور تکلیف پر روتے بھی ہیں، یہ باتیں بھی کرتے ہیں اور مثبت و منفی اثرات کو محسوس بھی کرتے ہیں۔درختوں کی جڑیں جو زیر زمین دور دور تک پھیل جاتی ہیں ان درختوں کے لیے ایک نیٹ ورک کا کام کرتی ہیں جس کے ذریعے یہ ایک دوسرے سے نمکیات اور کیمیائی اجزا کا تبادلہ کرتے ہیں۔

درخت کسی بھی مشکل صورتحال میں اسی نیٹ ورک کے ذریعے ایک دوسرے کو ہنگامی پیغامات بھی بھیجتے ہیں۔اسی طرح اگر کبھی کوئی چھوٹا درخت، قد آور ہرے بھرے درختوں کے درمیان اس طرح چھپ جائے کہ سورج کی روشنی اس تک نہ پہنچ پائے اور وہ اپنی غذا نہ بنا سکے تو دوسرے درخت اسے غذا بھی پہنچاتے ہیں۔بڑے درخت ان نو آموز درختوں کی نشونما میں بھی مدد کرتے ہیں۔یہ پہلا موقع نہیں کہ جب ماہرین نے پودوں کے درمیان ’’کیمیائی گفتگو‘‘ کا ثبوت پیش کیا ہے۔

برسوں پہلے یہ معلوم ہوچکا ہے کہ کھمبیاں (مشرومز) ایک زیرِ زمین نیٹ ورک کے ذریعے کیمیائی مادّوں کا تبادلہ کرکے اپنی نشوونما بہتر بناتی ہیں اور بعض مرتبہ معمولی کھمبیوں میں جڑوں کا زیرِ زمین جال ایک مربع میل یا اس سے بھی زیادہ رقبے تک پھیلا ہوا دیکھا گیا ہے

تحقیق کے مطابق جب کوئی کیڑا پتے یا تنے پر حملہ آور ہوتا ہے تو اس مقام سے ایک قسم کا مالیکیول نکلتا ہے جو پودے کے دیگر حصوں کو بھی اس خطرے سے آگاہ کر دیتا ہے ،جس کے بعد پودے کے دیگر حصوں میں دفاعی نظام متحرک ہو جاتا ہے۔

سائنس دانوں نے اس حیرت انگیز عمل کے مشاہدے کے لیے فلوریسنٹ پروٹین کا استعمال کیا، جس کی مدد سے پودے کے اس حصے سے سگنلز کو نکلتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، جس پر کسی کیڑے نے حملہ کیا ہو۔ یہ سگنلز پودے کے دیگر حصوں تک جاتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پودے کے کسی حصے کو نقصان پہنچنے پر ایک برقیاتی چارج نکلتا ہے جو پودے کے دیگر حصوں تک پھیل جاتا ہے۔