دو خواہشیں

November 30, 2019

رخسانہ

کریمو ایک غریب مچھیرا تھا۔ وہ دن بھر ندی کے کنارے بیٹھا مچھلیاں پکڑتا اور شام کو انہیں لے جا کر شہر میں بیچ کر کھانے پینے کا سامان خرید کر گھر لوٹتا۔ اس طرح غریب کریمو کے دن گزر رہے تھے۔ ایک دن کریمو ندی کے کنارے بیٹھا مچھلیاں پکڑ رہا تھا کہ اچانک تیز ہوائیں چلنے لگیں۔ سائیں سائیں کرتی ہوئی ہواؤں کے درختوں سے ٹکرانے سے عجیب سا شور پیدا ہو رہا تھا۔ ندی کا پانی ہوا کے زور سے اچھل رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے خوفناک طوفان آنے والا ہے۔ کریمو بڑا فکر مند تھا۔ اس کے تمام ساتھی طوفان سے گھبرا کر اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔ اب وہاں صرف کریمو رہ گیا تھا۔ اس کے ساتھیوں نے اسے بھی گھر چلنے کا مشورہ دیا تھا، لیکن وہ دوڑتا ہوا کھنڈروں میں جا پہنچا اور ایک جگہ بیٹھ گیا۔

کسی زمانے میں یہ بڑا محل تھا، جو کسی بادشاہ نے بنوایا تھا۔ اب صرف چار دیواریں باقی تھیں۔ ایک کمرہ تھا ،جس کی تھوڑی سی چھت تھی۔ اس میں کریمو بارش سے سر چھپائے بیٹھا تھا اور بارش کے ختم ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ بجلی چمک رہی تھی۔ بادل گرج رہے تھے۔ کریمو بڑبڑانے لگا، "اف! یہ بارش نہ جانے کب ختم ہو گی۔ میرے بچے بھوک سے تڑپ رہے ہوں گے۔ اے اللہ! تو نے مجھے غریب مچھیرا کیوں بنایا؟ یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ خود بھی فاقے کروں اور بچے بھی بھوک سے ترسیں۔ کاش میں بادشاہ ہوتا اور آرام سے زندگی گزارتا۔"

ابھی اس کی بڑبڑاہٹ ختم ہوئی تھی کہ قدموں کی آواز سن کر وہ چونک پڑا۔ آنے والا ایک بوڑھا آدمی تھا۔ اس کی گھنی داڑھی تھی جو برف کی طرح سفید تھی، لیکن بوڑھے کے کپڑے بارش سے بالکل محفوظ تھے۔ ان پر پانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ بوڑھے نے آتے ہی کریمو سے سوال کیا، "میں بھوکا ہوں مجھے کچھ کھانے کو دے۔"

کریمو کے پاس دو مچھلیاں تھیں۔ اس نے بوڑھے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، "لیجیے جناب! بس یہی ہیں میرے پاس۔"

بوڑھا ایک دم قہقہہ مار کر ہنسنےلگا۔ کریمو کو ایسا لگا جیسے کوئی شیر پوری طاقت سے دھاڑ رہا ہو۔ کھنڈر اس کے قہقہے سے گونج رہا تھا۔ بوڑھے کا قہقہہ ختم ہوا تو اس نے کریمو سے کہا، "تو بڑا قسمت والا ہے۔ اگر تو اس وقت کنجوسی کرتا تو یہ تیری زندگی کی آخری رات ہوتی۔ میں تجھے اپنے ہاتھوں سے ختم کر دیتا۔"

کریمو نے بوڑھے کے ہاتھوں کی طرف دیکھا تو کانپ اٹھا۔ بوڑھے کے ہاتھ شیر کے پنجوں کی طرح تھے۔ ان میں لمبے اور نوکیلے ناخن تھے۔ کریمو تھر تھر کانپنے لگا۔ کریمو کو کانپتے دیکھ کر بوڑھا پھر ہنسا اور بولا، "ڈرتا کیوں ہے؟ اب میں تجھے نہیں ماروں گا۔ تو نے مجھے دو مچھلیاں دی ہیں۔ میں تیری دو خواہشیں پوری کروں گا۔ جو چاہے مانگ لے۔"

کریمو خوش ہو کر بولا، "مجھے غریب مچھیرے کے بجائے بادشاہ بنا دو تاکہ میں کوئی محنت کیے بغیر محل میں رہ سکون۔ اچھے اچھے کھانے کھاؤں اور عیش کروں۔"

بوڑھے نے کہا، "اچھا، تو آنکھیں بند کر لے۔"

کریمو نے جھٹ آنکھیں بند کر لیں۔ اچانک اس کے کان میں آواز آئی، "جہاں پناہ! دن چڑھ آیا ہے۔"

کریمو نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو اس کی بیوی ملکہ کا لباس پہنے اس کے سامنے کھڑی تھی۔ کریمو نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا۔ بڑا شاندار محل تھا۔

"جہاں پناہ! آپ کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہیں کیا بات ہے؟ مچھیرن (ملکہ) نے کہا۔

کریمو کے دل میں آیا کہ اس سے کہہ دے کہ میں تو ایک غریب مچھیرا ہوں، مگر پھر اسے بوڑھے کا خیال آگیا۔ وہ خوش ہو کر بولا، "اچھا تو میری پہلی خواہش پوری ہو گئی۔ میں کتنا خوش نصیب ہوں۔ کہاں ہے وہ جھونپڑی، پھٹے پرانے کپڑے اور کہاں یہ محل۔ بادشاہ بنتے ہی ساری خوشیاں میرے قدموں میں آ گری ہیں۔ یہ زندگی کتنی اچھی ہے۔"

ملکہ بولی، "نہ جانے آپ کو کیا ہو گیا ہے۔ فوج آپ کا انتظار کر رہی ہے تاکہ حملہ آور دشمن کے مقابلے کے لیے روانہ ہو سکے۔"

کریمو گھبرا کر بولا، "فوج جا سکتی ہے۔"

اس کی بیوی نے جواب دیا، "فوج تو آپ کے بغیر نہیں جائے گی۔ ہر لڑائی میں آپ اس کی قیادت کرتے رہے ہیں۔ اب آپ کو کیا ہو گیا ہے؟"

کریمو آہستہ سے بولا، "برے پھنسے! اب تو جان کی خیر نہیں۔"

خیر ہتھیاروں سے لیس ہو کر وہ فوج کے ساتھ میدانِ جنگ پہنچا۔

جنگ شروع ہوئی۔ دونوں طرف کی فوجیں بہادری سے لڑ رہی تھیں۔ کریمو کی فوج کو شکست ہوئی اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔ دشمن ملک کے بادشاہ نے کریمو کو پھانسی پر لٹکانے کا حکم سنا دیا۔ کریمو آنکھیں بند کر کے چلایا، "مجھے بادشاہت نہیں چاہیے۔ اے بوڑھے! تو مجھے مچھیرا ہی بنا دے۔"

جب کریمو نے آنکھیں کھولیں تو وہ ندی کے کنارے تھا۔ بارش تھم چکی تھی۔ کریمو خالی ہاتھ گھر کی طرف جا رہا تھا اور دل ہی دل میں پچھتا رہا تھا کہ کاش میں پہلے ہی مناسب خواہش کرتا۔