برطانوی انتخابات: مسلم کمیونٹی کو کشمیریوں کے حقوق کی آواز بننا ہوگا

December 02, 2019

برطانیہ آئندہ عام انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے۔بارہ دسمبر کوتاج کس پارٹی کے سر سجے گا اور وزیراعظم بننے کا خواب کس لیڈر کا پورا ہوتا ہے، قبل از وقت اس پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن بارہ دسمبر کے انتخابات کے لیے تمام پارٹیوں نے اپنی اپنی کامیابی کے لیے سر توڑ کوششیں شروع کر دیں ہیں۔ ہر امیدوار اپنے اپنے حلقے سے کامیابی کے لیے انتخابی مہم کا آغاز کر چکا ہے ۔دو بڑی پارٹیاں کنزرویٹو اور لیبر آمنے سامنے کھڑی ہیں بلکہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے دن رات ایک کررہی ہیں ۔

انتخابی مہم میں کنزرویٹو پارٹی نے اپنی کامیابی کے لیے مقامی امیدواروں کو ہی اہمیت دی اور انھیں امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دیئے جو پہلے بھی امیدوار رہ چکے تھے یا وہ مقامی علاقے کے رہائشی ہیں ،جبکہ لیبر پارٹی نے میڈلینڈ کے علاقے میں لندن اور دوسرے علاقوں سے امیدواران لا کر کھڑے کیے ہیں،جس سے مقامی لوگوں میں تذبذب اور مایوسی کی سی کیفیت پائی جاتی ہیں۔

لیبر پارٹی چونکہ میڈلینڈ اور مانچسٹر کے گردو نواح کے علاقوں میں اکثریت رکھتی ہے، اس لیے وہ اپنی سیٹیں نکالنے میں کامیاب ہو جائےگی، جبکہ کنزوویٹو پارٹی اپنی مہم کا آغاز کچھ اس انداز میں کر رہی ہے ،جسے دیکھ کر پاکستانی طرز کی کمپین کا انداز محسوس ہوتا ہے۔ جس طرح پاکستان میں امیدوار ہر اس شخص کے گھر جاتے ہیں یا اس کے گھر سے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اپنے علاقے کا سردار ،چوہدری ، ملک ، راجہ ، نمبردار ہو۔ کنزرویٹو نے برطانیہ میں اسی انداز کو اپنایا اور اس کے امیدوار اور حمایتی ایسی ہی دبنگ شخصیات سے مل کر حمایت حاصل کر رہے ہیں جو اپنے اپنے علاقے یابرادری میں نمایاں حیثیت رکھتے ہوں ۔

یوں تو برطانوی انتخابات میں گرین پارٹی، لیبرل ڈیموکریٹ ، بریگزٹ پارٹی ، لیبر پارٹی ،کنزرویٹو پارٹی ،ا سکاٹش نیشنل پارٹی کے علاوہ دیگر پارٹیاں اپنا اپنا منشور واضح کر چکی ہیں ،لیکن بریگزٹ میں ناکامی کے بعد کنزرویٹو پارٹی نے عوام کو سہولیات فراہم کرنے اور ان کی زندگیوں کو خوشحال بنانے کا فارمولا پیش کر دیا ہے، جس سے بورس جانسن کو تقویت ملی ہے اور ویسے بھی گزشتہ دنوں مقامی ٹی وی پر دونوں پارٹی رہنماؤں کو اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کا موقع دیا گیا۔ دونوں رہنماؤں کو آمنے سامنے کھڑا کر کے اینکر کی طرف سے سوالات کیے گے ،جس سے برطانیہ کی عوام کو پارٹی اور لیڈر کو سمجھنے کا موقع ملا، جس سے عوام کے لیے اپنی پسند کی پارٹی کا انتخاب کرنا بھی آسان ہوگیا۔

جرمن کوربن نے بورس جانسن پر الزام لگایا ہے کہ ان کے معاہدے نے آئرش بحر کے نیچے ایک سرحد ڈال کر برطانیہ کی سالمیت کے لیےخطرہ پیدا کیاہے اور وزیر اعظم پر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ تجارتی معاہدے کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا ہے ،جس سے امریکی فرموں کو این ایچ ایس تک ’’مکمل مارکیٹ تک رسائی‘‘ ملے گی۔ لیبر لیڈر نے مزید کہا کہ برطانوی حکومت امریکی انتظامیہ کے ساتھ مل کر این ایچ ایس کے حوالے سے تجارتی معاہدے کر رہی ہے، جس پر بورس جانسن نے سختی سے تردید کرتے ہوئےکہا کہ وہ این ایچ ایس کو مزید مستحکم بنائیں گے اور ملک کو ترقی کی طرف لے کر جائیں گے ۔عوام کو خوشحال بنانا ان کی پارٹی کی ترجیح ہو گی۔

ٹی وی مباحثے پر 51 فیصد جواب دہندگان کا خیال تھا کہ مسٹر جانسن نے مباحثے میں کامیابی حاصل کی جبکہ ، 49 فیصد نے مسٹر کوربین کو فاتح قرار دیا، بحرحال یہ رائےحتمی نہیں ،نتیجہ تو بارہ دسمبر کو ہی نکلے گا جب ووٹ ڈالے جائیں گے۔ برطانیہ میں ہونے والے ان عام انتخابات میں کشمیری، پاکستانی، بنگالی اور بھارتی کمیونٹی کو سوچنا ہو گا کہ کہ ان کی زندگیاں گزارنے اور دیگر سہولیات ماڈرن بریٹین کے شایان شان نہیں ۔

برطانیہ کے اندرونی شہروں میں وہ سہولیات میسر ہیں جو لندن ویلز کے مضافاتی علاقوں میں دستیاب نہیں ہیں ۔این ایچ ایس کی طرف سے علاج معالجہ کرانا بھی کسی آزمائش سے کم نہیں۔ ہماری کمیونٹی کو سوچنا ہو گا کہ کس طرح اپنے حقوق حاصل کیے جا سکتے ہیں اور کس طرح ماڈرن برٹش کی طرز پر ہم اپنے لیے آسائشیں حاصل کر سکتے ہیں ۔

کشمیری اور پاکستانی متحد ہوں اور دیگر مسلم کمیونٹی کے افراد کو اپنے ساتھ شامل کر کے مسئلہ کشمیر پر مضبوط آواز اور رائے عامہ ہموار کی جائےاور انتخابات کے موقعے پر انتخابی مہم میں اس آواز کو بلند کیا جائے، اپنے امیدواران کو قائل کیا جائے کہ وہ معصوم کشمیریوں کے لیے آواز بلند کریں اور انھیں بھارت کے جیل سے آزادی دلوائیں جو سترسال سے بھارت کی قید میں ہیں اور بلا جواز، بلاوجہ سزا کاٹ رہے ہیں۔

انھیں یہ باور کرانے کی کوشش کی جائےکہ بھارت ہی جنوبی ایشیاء میں ترقی کا دشمن ہے اور انسانیت کا قاتل ہے ،جو اپنے ناپاک ارادوں سے خطے میں امن کو سبوثاز کر رہا ہے۔ بھارت کو لگام دینے کے لیے بین الاقوامی سطح پر کاوشوں کی ضرورت ہے ۔انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواران کو مسئلہ کشمیر کی حقیقت سے آگاہ کیا جائےتاکہ وہ اپنی کامیابی کے بعد برٹش اسمبلی میں جا کر مسئلہ کشمیر پر بات کریں۔

ایک اطلاع کے مطابق لیبر پارٹی نے کھل کر مسئلہ کشمیر کی حمایت کا اعلان کیا ہے جوایک اہم پیش رفت ہے ،لیکن نریندر مودی کے متوالوں نے لیبر کی مخالفت کا آغاز کر دیا ہے ایسے حالات میں کشمیری اور پاکستانیوں کا کردار واضح ہونا چاہئے اور ایسے امیدواران کا کھل کر اور پوری توانائی کے ساتھ تعاون کرنا چائیے، جو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ساتھ دینے اور آواز بلند کرنے کا یقین دلا چکے ہیں ۔

پاکستانی اور دیگر مسلم کمیونٹیوں کو بچوں کی تعلیم کے نظام پر بھی رائے عامہ ہموار کرنا ہو گی ۔موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئےہماری کمیونٹی کو چاہیے کہ وہ اپنے مسائل اور مطالبات منوانے کے لیے اپنے اپنے امیدواران سے ملیں ۔ان کی انتخابی مہم چلائیں ،انھیں کامیاب کریں تاکہ مسائل حل ہوں۔