امریکی دھمکیوں کے بعد ہواوے نے نیا مسکن ڈھونڈ لیا

December 03, 2019

Your browser doesnt support HTML5 video.

امریکی دھمکیوں کے بعد ہواوے نے نیا مسکن ڈھونڈ لیا

امریکا کے ساتھ چین کے تجارتی تعلقات میں تناؤ پیدا ہونے اور واشنگٹن کے الزامات کے بعد چینی ٹیکنالوجیکل کمپنی ہواوے نے امریکا کو چھوڑ کر ریسرچ میں اب اپنا نیا مسکن تلاش کرلیا۔

غیر ملکی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق ہواوے ٹیکنالوجیز کارپوریشن لمیٹڈ نے اپنا ریسرچ سینٹر امریکا سے کینیڈا منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

ان خیالات کا اظہار چینی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے بانی رین ژنگفی نے کینیڈین اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔

مزید پڑھیں:ٹرمپ پر امریکا میں ہواوے کے ساتھ کام کرنے کے لائسنس کی تجدید روکنے کا دباؤ

خیال رہے کہ ہواوے کمپنی کے مالک کے ریمارکس ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب گزشتہ ماہ ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی کمپنیوں کو چینی کمپنی کے ساتھ کام کرنے کے لیے مزید 90 روز کی اجازت دے دی تھی۔

رین ژنگفی نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ کمپنی کا ریسرچ سینٹر بہت جلد امریکا سے باہر منتقل ہوجائے گا اور جسے اب کینیڈا لایا جارہا ہے۔

ہواوے کے بانی نے یورپ میں بھی نئی فیکٹری لگانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے کہ تاکہ ففتھ جنریشن (5G) ٹیکنالوجی کے کچھ آلات وہاں بھی تیار کیے جاسکیں جس کی مدد سے کمپنی پر جاسوسی کے لیے استعمال ہونے کے امریکی الزام کی شدت کو کم کیا جاسکے۔

مزید پڑھیں: ہواوے کو امریکا سے مزید 90 روز کی مہلت مل گئی

امریکی حکومتی اراکین کا ماننا ہے کہ ان کے لیے ہواوے کے آلات بالخصوص فائیو جی نیٹ ورک ان کے لیے سیکیورٹی رسک ہے کیونکہ اس کمپنی کے چینی حکومت کے ساتھ قریبی مراسم ہیں۔

ادھر ہواوے متعدد مرتبہ امریکی حکام کے اس دعوے کو مسترد کرچکی ہے اور اس کا ہمیشہ سے یہی کہنا ہے کہ کمپنی کے معاملات میں چینی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔

یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی میں امریکی کمپنیوں پر چینی کمپنی ہواوے کے ساتھ کام کرنے پر پابندی عائد کردی تھی۔

مزید پڑھیں: ہواوے کا ملازمین میں 44 ارب بانٹنے کا اعلان

ہواوے کے بانی کے بیان پر کمپنی ترجمان نے کوئی تبصرہ نہیں کیا، جبکہ وہ متعدد مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ کمپنی امریکی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں ہے۔

گزشتہ برس رین ژنگفی کی بیٹی کو امریکی وارنٹ پر کینیڈا میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

رین ژنگفی کی بیٹی اس وقت ضمانت پر رہا ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ ایران مخالف پابندیوں کی خلاف ورزی کے الزام میں امریکا منتقل کیے جانے کے معاملے سے نبرد آزما ہیں۔