سیدُ الاولیاء، غوثُ الاعظم ’شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ‘

December 09, 2019

ڈاکٹر محمد زاہد اقبال آفریدی

آپ نے انسانیت کو اسلام کے زرّیں و اعلیٰ اصول سکھا کر امن ومحبت، ہمدردی و غمگساری کا درس دیا

غوثِ اعظم،محبوبِ سبحانی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فارس(ایران) کے شمال میں واقع جزیرہ خزر کے جنوبی ساحل سےملحق ایک چھوٹے سے قصبے ’’گیلان‘‘ میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کی ولادت 470ھ میں ہوئی، یہ یکم رمضان المبارک اور جمعۃ المباک کا دن تھا، جس رات حضرت غوث الاعظمؒ پیدا ہوئے، اس رات آپؒ کے والد ماجد حضرت سید ابو صالح نے خواب میں دیکھا۔ (جو کہ خود ایک ولی کامل اور مقربان خدا میں سے تھے) کہ سرور کائنات، فخر موجودات، باعثِ تخلیق کائنات حضرت محمد مصطفیٰﷺ ابو صالح موسیٰ ؒکے گھر میں تشریف لائے ہیں۔ پھر سرکارِ دوعالمﷺ نے ابو صالح موسیٰ کو خطاب کرکے ان الفاظ میں بشارت سے نوازا ’’ابو صالح! اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک عظیم فرزند عطا فرمایا ، جس کی عنقریب اولیاءاللہ اور اقطاب میں وہ شان ہوگی جو انبیاء و مرسلین میں میری شان ہے‘‘ اس بشارت کے خطاب فرمانے کے بعد سرکار دوعالمﷺ تشریف لے گئے۔ حضور غوث اعظمؒ کی والدہ ماجدہ بھی ایک ولی کاملہ تھیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو اپنی بارگاہ میں خاص مقام عطا فرمایا تھا ،جہاں حضور غوث اعظمؒ کے والد گرامی کو آپ کی پیدائش سے متعلق بشارتیں دی گئیں، وہاں آپؒ کی والدہ ماجدہ کو بھی آپ کی ولادت باسعادت سے قبل عالم خواب میں آپ کے فضائل کے ساتھ بشارتیں دی گئیں۔

شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا تعلق مشہور صوفی بزرگ حضرت جنید بغدادیؒ کے روحانی سلسلے سے ملتا ہے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکی خدمات و افکار کی وجہ سے آپؒ کو مسلم دنیا میں غوث اعظمؒ دستگیر کا خطاب دیا گیا۔ حضرت شیخ عقیل سنجی سے پوچھا گیا کہ اس زمانے کے قطب کون ہیں؟ فرمایا، اس زمانے کا قطب ،مدینہ منورہ میں پوشیدہ ہے، سوائے اولیا ءاللہ کے اسے کوئی نہیں جانتا۔ پھر عراق کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ اس طرف سے ایک عجمی نوجوان ظاہر ہوگا۔ اس کی کرامات کو ہر خاص و عام جان لے گا اور وہ کہے گا کہ میرا قدم تمام اولیاءاللہ کی گردن پر ہے۔

فرموداتِ غوث اعظمؒ:۔ آپ نے فرمایا: ’’اے انسان! اگر تجھے مہد سے لحد تک کی زندگی دی جائے اور تجھ سے کہا جائے کہ اپنی محنت، عبادت و ریاضت سے اس دل میں اللہ کا نام بسالے تو رب تعالیٰ کی عزت و جلال کی قسم، یہ ممکن نہیں، اس وقت تک کہ جب تک تجھے اللہ کے کسی کامل بندے کی نسبت و صحبت میسر نہ آئے‘‘۔

روایت ہے کہ سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی ولادت کے وقت غیب سے پانچ عظیم الشان کرامتوں کا ظہور ہوا۔آپؒ کا بچپن لہو و لعب کے کاموں سے محفوظ تھا، آپؒ بہت صفائی پسند اور کم گو تھے۔ لوگوں نے کہا ’’ہم نے آپؒ کے بچپن میں کبھی بھی آپ کو نہ تو بے مقصد بات کرتے دیکھا اور نہ ہی کبھی کوئی دانائی سے خالی بات سنی‘‘ آپؒ کے بچپن کے متعلق کتب تاریخ میں ملتا ہے کہ آپؒ نے بچپن میں کوئی لغو کھیل نہ کھیلا۔

حضور غوث اعظمؒ فرماتے ہیں کہ بچپن میں جب میری والدہ ماجدہ نے مجھے مدرسے میں داخل کروایا تو میں دیکھتا کہ ایک اجنبی شخص روزانہ مجھے مدرسہ چھوڑنے آیا کرتا، پھر جب تک میں مدرسے میں رہتا اور تعلیم حاصل کرتا رہتا ،وہ شخص بھی میرے قریب رہتا ،جب چھٹی کا وقت آتا تو وہ مجھے گھر تک چھوڑنے آتا ،لیکن میں اس شخص کو نہیں جانتا تھا کہ وہ کون ہے؟ ایک دن میں نے اس سے پوچھا ’’آپ کون ہیں‘‘ تو وہ کہنے لگا میں اللہ کی طرف سے مامور ہوں اور انسانی شکل میں تیری خدمت کے لیے بھیجا گیا ہوں۔

سیدنا غوث اعظم ؒفرماتے ہیں ’’ویرانوں میں جب میں عبادت کیا کرتا تو شیاطین اور جنّ میری پاس آتے اور کئی کئی شکلوں میں مجھے ڈرانے کی کوشش کرتے اور کہتے یہ جگہ ہماری ہے ،تم اسے چھوڑ کر بھاگ جائو ،پھر میں ’’لاحول ولا قوۃ ‘‘کا ورد کرتا تو وہ چیختے اور روتے ہوئے بھاگتے‘‘ میرے پاس ایک شخص آیا جو کہ نہایت بدشکل تھا، وہ کہنے لگا ’’میں ابلیس ہوں‘‘ آپؒ نے مجھے اور میرے لوگوں کو کافی تنگ کیا ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں ’’میں نے اس سے کہا، تو یہاں سے چلاجا۔ پھر اچانک ایک غیبی ہاتھ نمودار ہوا تو میں نے اس کے سر پر ضربیں ماریں ، وہ زمین میں دھنس گیا۔ پھر کچھ دیر گزری تو ایک اور ہاتھ نمودار ہوا، اس میں آگ کے شعلے تھے ،یہ ہاتھ ابلیس کا تھا ،وہ مجھ سے جنگ کرنا چاہتا تھا ،لیکن اسی وقت ایک نقاب پوش گھڑ سوار آیا اور اس نے مجھے تلوار دی ،جب ابلیس نے میرے ہاتھ میں تلوار دیکھی تو وہ الٹے قدم بھاگا۔ (یہ واقعہ حضرت شیخ صیرنیؒ سے منقول ہے)

ایک مرتبہ خلیفۂ وقت نے ابوالوفا یحییٰ بن سعید کو قاضی کے عہدے پر مامور کردیا، یہ شخص بہت ظالم تھا۔ جب لوگوں نےآپؒ کو اس قاضی کی خبر دی۔ آپ خلیفۂ وقت کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپؒ نے خلیفہ وقت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’تم نے ایک ظالم شخص کو قاضی کے عہدے پر فائز کیا ہے۔ کیا تم اس وقت سے نہیں ڈرتے ،جب تمہیں قیامت کے دن اللہ کے روبرو پیش کیا جائے گا تو تم اس کے متعلق کیا جواب دوگے؟ خلیفہ ٔوقت آپؒ کی بات سن کر کانپ اٹھا اور فوراً قاضی کو عہدے سے معزول کردیا۔

حضرت ابوالفرح ؒبیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے بغداد کسی کام کے سلسلے میں جانا پڑا۔ واپسی پر میں غوث اعظمؒ کے مدرسے کے قریب سے گزرا تو عصر کی اذان ہورہی تھی، چناںچہ میں نے سوچا یہیں کچھ دیر قیام کروں، نماز عصر ادا کروں اور آپ کی زیارت کا شرف بھی حاصل کروں۔ جب میں مدرسے میں داخل ہوا تو جماعت کھڑی پائی۔ جلدی میں مجھے وضو کا خیال بھی نہ رہا اور میں جماعت میں جا ملا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں غوث اعظمؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؒ نے فرمایا ’’بیٹا! تمہیں نسیان کا مرض بہت غالب ہے ،تم نے وضو کے بغیر ہی نماز ادا کرلی ۔ یہ بات سن کر حیران ہوگیا کہ اس بات کا مجھے خود بھی علم نہ تھا۔

شیخ عمر بزاز ؒکا بیان ہے کہ میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے ساتھ نماز جمعہ کے لیے جارہا تھا، راستے میں کسی نے آپ کو سلام نہ کیا، حالاںکہ جس راستے سے گزرتے ، زیارت کے لیے لوگوں کا ہجوم ہوجاتا ۔ میں حیران تھا ، آپؒ نے میری طرف مسکراکر دیکھا۔ اتنے میں چاروں طرف سے لوگوں کا ہجوم اُمڈ پڑا۔

سرکار غوث اعظمؒ کے فضائل و کمالات کو احاطہ تحریر میں لانا ناممکن ہے۔ جس وقت غوث اعظمؒ نے بغداد شریف میں ارشاد فرمایا ’’قدمی ھٰذا علیٰ رقبۃ کل ولی اللہ‘‘ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒعین شباب کے عالم میں ملک خراسان کے ایک پہاڑ میں مجاہدہ و ریاضت کی منزلیں طے فرمارہے تھے۔ بغداد میں یہ اعلان ہوتے ہی آپ نے اپنا سر جھکالیا اور وہیں سے جواب دیا، آپ کے قدم مبارک میری آنکھوں اور سر پر۔ اس نیاز مندی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سلطان الہندحضرت غریب نوازؒ یہاں کے سارے ولیوں کے بادشاہ مقرر ہوئے۔

شیخ ابوالقاسم بن احمد بن محمد بغدادی ؒبیان کرتے ہیں کہ سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادرؒ رمضان 560ھ میں بیمار ہوئے، ہم آپ کے پاس موجود تھے کہ ایک صاحب وقار شخص آپ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا۔ اے اللہ کے ولی ،السلام علیکم، میں ماہ رمضان ہوں۔ آپ سےاس امر کی معافی چاہتا ہوں ،جو آپ پر مجھ میں مقدر کیا گیا ہے اور آپ سے جدا ہوتا ہوں، آپ سے یہ میری آخری ملاقات ہے۔ آپ نے آئندہ رمضان نہ پایا اور ربیع الثانی 561ھ میں وصال فرمایا۔ کسی نے ایک ہی بیت میں آپ کی تاریخ ولادت ، تاریخ وفات اور عمر کو کس خوبی سے بیان کیا ہے۔

انّ باذن اللہ سلطان الرجال

جاء فی عشق و مات فی کمال

آپ کا حلیہ مبارک یوں مذکور ہے۔ رنگ گندم گوں، لاغر جسم، میانہ قد، سینہ کشادہ، گھنی داڑھی، آنکھیں سیاہ، آواز بلند، روش نیک، قدبلند، علم کامل۔ حیاتِ مبارکہ کا اکثر و بیش تر حصہ بغداد میں گزرا، وہیں آپ کا وصال ہوا اوروہیں مزار مبارک ہے، جس کےارد گرد عام لوگوں کے علاوہ بڑے بڑے مشائخ اور اقطاب آج بھی کمال عقیدت کے ساتھ مصروف زیارت رہتے ہیں۔