سیدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ

December 09, 2019

ڈاکٹر سعید احمد صدیقی

دین کی دعوت اور قرآن و سنّت کی ترویج و اشاعت، آپ کا نصب العین تھا،اسلام کے پیغامِ امن و سلامتی کو عام کرنے میں آپ نے ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا

محبوبِ سبحانی ،سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ؒاٹھارہ سال کی عمر میں بغداد تشریف لائے ۔آپ کا وجود اس وقت کے مادّیت زدہ زمانے میں اسلام کا ایک زندہ معجزہ تھا۔ آپ کی ذات،آپ کے کمالات،آپ کی تاثیر اللہ تعالیٰ کے یہاں آپ کی مقبولیت کے آثار اور خلق خدا میں قبولیت و وجاہت کے کھلے ہوئے مناظر عام تھے،آپ کے تلامذہ اور تربیت یافتہ اصحاب کے اخلاق اور ان کی سیرت و زندگی،اسلام کی صداقت کی دلیل اور اس حقیقت کا اظہار تھا کہ اسلام میں سچّی روحانیت، تہذیب نفس اور تعلق پیدا کرنے کی سب سے بڑی صلاحیت ہے۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی علمی اوردینی خدمات کا ایک خاص حوالہ یہ ہے کہ آپ کی تبلیغ کی بدولت لاکھوں غیر مسلم دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے۔آپ کی تصنیفات نے اسلام کی تبلیغ و تائید میں بنیادی کر دار ادا کیا۔آپ کے وعظ دلوں پر بجلی کا اثر کرتے تھے اور وہ تاثیر آج بھی آپ کے کلام میں موجود ہے۔ ’’فتوح الغیب‘‘ اور ’’الفتح الربّانی‘‘ کے مضامین اور آپ کی مجالس کے وعظ کے الفاظ آج بھی دلوں کو گرماتے ہیں۔ایک طویل مدّت گزرجانے کے بعد بھی ان میں زندگی اور تازگی محسوس ہوتی ہے۔

حاضرین آپ کے ارشادات میں اپنے زخم کا مرہم، مرض کی دوا اور اپنے سوالات و شبہات کے جوابات پاتے اور تاثیر اورعام نفع کی بڑی وجہ یہ تھی کہ آپ زبان مبارک سے جو فرماتے ، وہ دل سے نکلتا تھا،اس لیے دل پر اثر کرتا تھا۔

سیّدنا شیخ عبدالقادرجیلانیؒ کی زندگی خلق خدا کا رشتہ خالق سے جوڑنے میں گزری۔انہوں نے اللہ کے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں لگادیا۔حضرت شیخ ؒ کے دورِ ولایت میں لوگوں نے مختلف انسانوں اور مختلف ہستیوں کو نفع وضرر کا مالک سمجھ لیا تھا، اسباب کو ارباب کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ قضا و قدر کو بھی اپنے جیسے انسانوں سے متعلق سمجھ لیا گیا تھا۔ ایک ایسی فضا میں حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی ؒفرماتے ہیں:’’کل مخلوقات کو اس طرح سمجھو کہ بادشاہ نے،جس کا ملک بہت بڑا اور حکم سخت اور رعب و ادب دل ہلادینے والا ہے، ایک شخص کو گرفتار کرکے اس کے گلے میں طوق اور پیروں میں کڑا ڈال کر صنوبر کے درخت میں ایک نہرکے کنارے،جس کی موجیں زبردست، پاٹ بہت بڑا،بہائو بہت زوروں پر ہے، لٹکا دیا ہے اور خود ایک نفیس اور بلند کرسی پر کہ اس تک پہنچنا مشکل ہے تشریف فرما ہے اور اس کے پہلو میں ہر طرح کے اسلحے کا انبار ہے، جن کی مقدار خود بادشاہ کے سوا کوئی نہیں جانتا،اس میں سے جو چاہتا ہے،اس لٹکے ہوئے قیدی پرچلاتا ہے، تو کیا یہ تماشا دیکھنے والوں کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ سلطان کی طرف سے نظر ہٹالے اور اس سے خوف و امید ترک کردے اور لٹکے ہوئے قیدی سے امید و پیہم رکھے۔ کیا جو شخص ایسا کرے، عقل کے نزدیک بے عقل، دیوانہ اور انسانیت سے خارج نہیں ہے۔ خدا کی پناہ،یہ عمل بینائی کے بعد نابینائی اور وصل کے بعد جدائی اور قرب و ترقی کے بعد تنزّل اور ہدایت کے بعد گمراہی اور ایمان کے بعد کفر ہے‘‘۔حضرت شیخ عبدالقادرجیلانیؒ نے ایک دوسری مجلس میں توحید واخلاق اور ماسویٰ اللہ سے ترک ِ تعلق کی تعلیم اس طرح دی:’’اسی پر نظر رکھو، جو تم پر نظر رکھتا ہے، اسی کے سامنے رہو، جو تمہارے سامنے رہتا ہے۔اسی سے محبت کرو،جو تم سے محبت کرتا ہے۔اسی کی بات مانو ،جو تمہیں بلاتا ہے۔ اپنا ہاتھ اسے دو،جو تمہیں گرنے سے سنبھالے گا اور تمہیں جہل کی تاریکیوں سے نکالے گا اور ہلاکتوں سے بچائے گا۔ نجاستیں دھوکر میل کچیل سے پاک کردے گا‘‘۔

آپ نے ایک مجلس میں توحید کے مضمون کو اس طرح واشگاف الفاظ میں بیان فرمایا! ’’ساری مخلوق عاجز ہے، نہ کوئی تجھے نفع پہنچا سکتا ہے، نہ نقصان، جو کچھ تیرے لیے مفید ہے یا مضر ، اس کے متعلق اللہ کے علم میں ہے ،اس کے خلاف نہیں ہوسکتا جو موحّد اور نیکوکار ہیں، وہ باقی مخلوق پر اللہ کی حجت ہیں، بعض ان میں سے ایسے ہیں جو ظاہر اور باطن دونوں اعتبار سے دنیا سے دور ہیں، گو دولت مند ہیں مگر حق تعالیٰ ان کے اندر دنیا کا کوئی اثر نہیں پاتا۔ یہی قلوب ہیں، جو صاف ہیں، جو شخص اس پر قادر ہو، اسے بادشاہت مل گئی، وہی بہادر پہلوان ہے، بہادر وہی ہے جس نے اپنے قلب کو ماسویٰ اللہ سے پاک بنایا اور قلب کے دروازے پر توحید کی تلوار اور شریعت کی شمشیر لے کر کھڑا ہوگیا کہ مخلوقات میں سے کسی کو بھی اس میں داخل نہیں ہونے دیتا۔ اپنے قلب کو مقلّب ا لقلوب سے وابستہ کرتا ہے، شریعت اس کے ظاہر کو تہذیب سکھاتی ہے اور توحید و معرفت باطن کو مہذب بناتی ہیں‘‘۔

محبوب سبحانی، حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی ؒکو اللہ تعالیٰ نے گوناگوں صفات سے نوازا تھا۔ اگر آپ کی صفات حسنہ اور کمالات کو اولیاء اللہ کی ایک جماعت پر تقسیم کردیا جائے تو وہ سب مالا مال ہوجائیں گے۔ آپ حسن اخلاق، علوّحوصلہ، تواضع و انکساری، سخاوت و ایثار اور اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا نمونہ تھے۔ حافظ ابو عبداللہ الاشبیلیؒ ان الفاظ میں آپ کی تعریف کرتے ہیں:’’آپ مستجاب الدعوات تھے۔ اگر کوئی عبرت اور رقّت کی بات کی جاتی تو جلد ی آنکھوں میں آنسو آجاتے، ہمیشہ ذکر و فکر میں مشغول رہتے۔ آپ بڑے رقیق القلب تھے۔

مفتیِ عراق حضرت محی الدین ابو عبداللہ محمد بن حامد البغدادی ؒ لکھتے ہیں: ’’غیر مہذب بات سے انتہائی دور، حق اور معقول بات سے قریب، اگر احکام خداوندی اور حدود الٰہی پر کسی سے دست درازی ہوتی تو آپ کو جلال آجاتا، خود اپنے معاملے میں کبھی غصّہ نہ آتا اور اللہ عزوجل کے علاوہ کسی چیز کے لیے انتقام نہ لیتے ،کسی سائل کو خالی ہاتھ واپس نہیں کرتے، خواہ تن کا کپڑا ہی اتار کر کیوں نہ دینا پڑے۔آپ کی کرامت کی کثرت پر مورّخین کا اتفاق ہے۔ شیخ الاسلام عزالدین بن عبدالسلام اور امام ابن تیمیہ ؒ کا قول ہے کہ شیخ کی کرامات حد ِ تواتر کو پہنچ گئی ہیں۔ ان میں سب سے بڑی کرامت مُردہ دلوں کی مسیحائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلب کی توجہ اور زبان کی تاثیر سے لاکھوں انسانوں کو نئی ایمانی زندگی عطا فرمائی۔عالم اسلام میں ایمان و روحانیت کی ایک نئی لہر پیدا کردی ۔

آپ کی کوئی مجلس ایسی نہ ہوتی تھی جس میں بہ کثرت یہودی اور عیسائی اسلام قبول نہ کرتے ہوں اور رہزن، خونی اور جرائم پیشہ توبہ سے مشرف نہ ہوتے ہوں، غلط عقائد سے توبہ نہ کرتے ہوں۔

حضرت شیخ نے ایک روز فرمایا کہ میری تمنا ہوتی ہے کہ زمانہ سابق کی طرح صحرائوں اور جنگلوں میں رہوں ،نہ مخلوق مجھے دیکھے، نہ میں اسے دیکھوں، لیکن اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کا نفع منظور ہے۔ میرے ہاتھ پرکئی ہزار سے زائد یہودی اور عیسائی مسلمان ہوچکے ہیں،جرائم پیشہ لوگوں میں سے ایک لاکھ سے زائد توبہ کرچکے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔مؤرّخین کا بیان ہے کہ بغداد کی آبادی کا بڑا حصّہ حضرت کے ہاتھ پر توبہ سے مشرف ہوا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم زبانی اور قلبی عقیدت کے ساتھ عملی طور پر بھی اپنے کردار کے ذریعے اولیاء اللہ کے طریقوں کو اپنائیں تو آج ہمارے معاشرے میں ہر طرف محبت کے پھول مہک جائیں۔ نفرت، تعصّب، فرقہ واریت اور نسلی تفاخر کے بجائے ایک دوسرے کے لیے مر مٹنے کا جذبہ ہمارے اندر موجزن ہو۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ امتِ مسلمہ پر رحم فرمائے۔ اپنے خاص فضل و کرم سے نوازے اور ہمیں اولیاء اللہؒ سے عقیدت کے ساتھ ساتھ ان کے طریقوں اور تعلیمات پر عمل کرنے والا بنادے۔(آمین)

’’محی الدین‘‘دین کے محافظ

کسی نے غوث ِ اعظم علیہ الرحمہ سے پوچھا کہ آپ کے محی الدین نام کا کیا سبب ہے؟تو فرمایا:511ھ کو جب کہ میں پاپیادہ عازم حج تھا،میرا گزر ایک بیمار پر ہوا ،جس کا رنگ متغیر تھا، اس نے مجھے دیکھ کر کہا:السلام علیکم یا عبدالقادر، میں نے سلام کا جواب دیا ۔اس نے کہا: آپ مجھے بٹھادیں۔میں نے اسے بٹھادیا ۔تب اس کا بدن بڑھنے لگا اور اس کی صورت (بھی) اچھی ہوگئی اور اس کا رنگ بھی صاف ہوگیا، میں اس سے ڈرا تو وہ کہنے لگا کہ آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا،نہیں ۔تو وہ بولا، میں دین ہوں، میں خستہ حال ہوگیاتھا، جیسا کہ آپ نے مجھے دیکھا، بلاشبہ، اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کے سبب زندہ کردیا اور آپ محی الدین ہیں ۔(بہجۃ الاسرار)

ہر حال میں اللہ عزوجل کا شکر ادا کرو

سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے شکر کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: شکر کی حقیقت یہ ہے کہ عاجزی کرتے ہوئے نعمت دینے والے کی نعمت کا اقرار ہو اور اس طرح عاجزی کرتے ہوئے اللہ کے احسان کو مانے اور یہ سمجھ لے کہ وہ شکر ادا کرنے سے عاجز ہے۔(بھجۃ الاسرار)