گُم نہیں ہوا خاموشی سے کام کر رہا ہوں

December 15, 2019

’’ وہ تاروں بھری راتیں، تیری پیار بھری باتیں…جب یاد مجھے آئیں، تو دل میرا دُکھائیں…تُو نے بھولا دیوانہ جان کر، تُو نے چھوڑا بے گانہ جان کر…اب ساون میں تم آنا، پھر برس برس کے جانا… کچھ ہم سے کہتے جانا، کچھ ہم سے سُنتے جانا…میرا تُو ہی تھا اِک سپنا، میرا تُو ہی تھااِک اپنا…میرا سپنا اب بھی تُو ہے، میرا اپنا اب بھی تُو ہے…اِک بادل بن کر آنا،میرے جیون میں چھا جا نا۔‘‘یقیناً نوّے کی دَہائی کا یہ نغمہ آپ میں سے کئی لوگوں کو بچپن، لڑکپن یا نوجوانی کے دِنوں میں واپس لے گیا ہوگا۔ واقعی کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ’’موسیقی میں وہ طاقت ہے ، جوماضی کے بند دریچے کھول ڈالتی ہے،جیسے پرانے دوست، پرانی تصویریں، پرانا محلّہ اورماضی کے قصّے، کہانیاں…‘‘ کچھ پَل کے لیے ہی سہی، موسیقی ہمیں ہماری مَن پسند ،کبھی نہ لَوٹنے والی زندگی میں واپس لے جاتی ہے۔

تو لیجیے،آج ہم جنگ، سنڈے میگزین کے مقبولِ عام سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ میں آپ کی ملاقات نوّے کی دَہائی کے ایسے ہی ایک مقبول گلوکار، عامر سلیم سے کروا رہے ہیں، جنہوں نے آج سے تیس برس پہلے اپنی زندگی کا پہلا البم ’’اجنبی‘‘ ریلیز کیا ، تو آتے ہی چھاگئے۔’’لاکھوں دِلوں پر راج کرنے والے عامر ،آج کل کہاں غائب ہیں، انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز کیسے کیا، کن کن نشیب و فراز کا سامنا رہا‘‘ یہ اور اِن جیسے کئی سوالات کے جواب جاننے کے لیےملاحظہ کیجیے، آج کی کہی، اَن کہی ۔

س: خاندان،ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: میرا تعلق ملتان سے ہے اور ہم چاربھائی، بہن ہیں۔مَیں نےتمام تعلیمی مراحل اولیاء کی نگری، ملتان ہی سے طے کیے۔پڑھائی لکھائی میں کچھ خاص دل نہیں لگتا تھا، پر بے حد ذہین تھا، تو ہمیشہ اچھے نمبرز سے پاس ہوتا۔ مَیں نے بہاؤالدّین زکریا یونی وَرسٹی سےپنجابی زبان میں ماسٹرز کیا ہوا ہے۔

س: گلوکاری کی دنیا میں کیسے قدم رکھا؟

ج: ملتان میری جائے پیدایش ہی نہیں، بلکہ ’’دی سنگر، عامر سلیم ‘‘ کا جنم بھی وہیں ہوا، جب ہم چند دوستوں نے زندگی کاپہلا بینڈ، ’’امیجز‘‘ بنایا۔ ہم شوز کرتے تھے، تو لوگ کہتے ’’آپ فیلڈ میں کیوں نہیں آتے؟‘‘بس وہیں سے دل میں ایک شوق ، ایک لگن پروان چڑھی کہ گلوکاری میں قسمت آزمانی چاہیے، مگر اس زمانے میں ملتان میں ٹی وی نہیں تھا۔پھر اللہ کا کرناایسا ہوا کہ مَیں ایک کمپنی کی ٹریننگ پر کراچی آیا، یہاں ایک بڑی شخصیت سے میری ملاقات ہوئی۔ مَیں نے سوچا،شاید یہ کسی اچھی جگہ مجھے نوکری دلوا دیں گے، مگر اُلٹا مجھے ٹریننگ سے نکال دیا گیا۔

تب پہلی بار احساس ہوا کہ دنیا کتنی بے رحم اور مطلبی ہے۔ بار بار یہی خیال آرہا تھا کہ اب ملتان کس منہ سے واپس جاؤں گا۔تو بس،واپس نہ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ اُس کے بعد مَیں تھا، کراچی کی سڑکیں تھیں اور میری جدّو جہد۔سرچُھپانے کا کوئی ٹھکانا تھا،نہ دو وقت کی روٹی کےپیسے۔ بڑی مشکل سےرہنے کے لیے ایک کمرے کا مکان کرائے پر لیااور ایک فارماسوٹیکل کمپنی میں انٹرویو کے لیے گیا، جہاں کوئی ڈھائی سو افرادانٹرویو کے لیےآئے ہوئے تھے۔

خیر، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ کمپنی میں کُل چھے افراد کو ملازمت پر رکھا گیااور اُن میں سے ایک مَیں بھی تھا۔تو بس، ملازمت بھی مل گئی اور ٹھکانا بھی اور یوں زندگی کی گاڑی چل پڑی۔پر مَیں نے گلوکاری سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی۔

س: فیلڈ میں آنے کے بعد پہلا البم ریلیز کرنے میں 3 سال کا عرصہ لگا، کیوں؟

ج: ملازمت مل جانے کے بعد مَیں رات کے اوقات میں مختلف لوکل بینڈ ز کے ساتھ مل کر گانے گاتا۔ میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ البم ریکارڈ کرتا، بہر حال کوشش جاری رکھی، ایک ، ایک کرکے گانا ریکارڈ کرتا ۔البم کے لیے پیسےجمع کرتے کرتے تین سال کا عرصہ لگ گیا ،بالآخر اپنا البم ریکارڈکرلیا۔اُس زمانے میں ایک شالیمار ریکارڈنگ کمپنی ہوتی تھی، اس کے کرتا دھرتا ؤں کےپاس گیا، انہیں گانے سُنائے،تو انہوں نےکانٹریکٹ سائن کیا اور یوں میرے گانے مارکیٹ میں آنا شروع ہوگئے۔

پھر چینلز پرچلنا شروع ہوئے۔اُس زمانے میں ایک چینل تھا ’’ایس ٹی این‘‘ ، اُس پر میرا ایک گانا ’’وہ تاروں بھری راتیں، تیری پیار بھری باتیں‘‘نشر ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا۔ اس طرح میری پہچان بننی شروع ہوگئی۔ مین اسٹریم میں آیا اور لوگوں کوپتا چلنے لگا کہ عامر سلیم نام کا بھی ایک گلوکار ہے۔ویسے ہمیشہ ہی سے رومانی ، سافٹ میوزِک میری پہچان رہا ہے۔

یہی کوشش کرتا کہ میرے گانوں کی شاعری بہت ثقیل نہ ہو، تاکہ لوگ اُسے سمجھ سکیں، اُس سے محظوظ ہوسکیں۔بہر حال،پہلا البم ریلیز ہوتے ہی میرا شمار نوّے کی دَہائی کے مقبول ترین گلوکاروں میں ہونے لگا۔ مگر مَیں بڑا مُوڈی ہوں۔ تھوڑے عرصے بعد امریکا چلا گیا، کچھ عرصہ وہاں مقیم رہنے کے بعد وطن واپس لوٹااور ایک اورالبم ’’اجنبی ‘‘ ریلیز کیا، جو سُپر ڈُپر ہِٹ ہوا۔اب تک میرےچھے البمز ریلیز ہو چُکے ہیں۔

س: بچپن کیسا گزرا؟

ج: بچپن ملتان کے گلی، کُوچوں میں گھومتے پھرتے، نِت نئی شرارتیں کرتا گزرا۔میرا شمار محلّے کے شرارتی بچّوں میں ہوتا تھا۔ گانے کے ساتھ ساتھ بچپن ہی سے اسکیچنگ کا بھی شوق تھا۔ اسکول میں دوست فرمائش کرکرکے گاناسُنتے ۔

پھر جب کالج گیا تو وہاں بھی فارغ اوقات یا کلاس رومز میں دوستوں کی فرمائش پر گانے گاتا۔ کچھ عرصے بعد ایک گٹار خرید لیا ، دل چسپ بات یہ ہے کہ گٹار بجانا نہیں آتا تھا، بس خود ہی کتابوں سے پڑھ کر اور دوسروں کو دیکھ کر گٹار بجانا سیکھا۔

س: سُنا ہے،گٹار خریدنے کے لیے ایک ہوٹل میں کام کیا تھا؟ اس بارے میں کچھ بتائیں۔

ج: اُس زمانے میں گٹار خاصا سستا ہوتا تھا، پر میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ سستا گٹار خرید پاتا۔ لہٰذا ، اپنے شوق کی تکمیل کے لیے ملتان کے ہوٹل میں دو ماہ کام کیا، جب مطلوبہ رقم جمع ہوگئی ، تو ان پیسوں سے گٹار خریدا۔

س: جب گھر والوں کو گلوکاری کے شوق کے حوالے سے بتایا، تو ان کا کیا ردّ ِ عمل تھا؟

ج: اُن لوگوں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ مَیں اس فیلڈ میں آؤں گا۔خاص طور پر والد صاحب بے حد پریشان تھے ، یہی کہتے رہتے کہ ’’نہ جانے میرا بچّہ کن چکّروں میں پڑگیا ہے۔اس کو پہلے پڑھائی کرنی چاہیے۔‘‘

س: فیلڈ میں آنے کے بعد گلوکاری کی باقاعدہ تعلیم لی؟

ج: ویسے تو مَیں نےزیادہ تر سُن سُن کر ہی سیکھا، لیکن ملتان ریڈیو اسٹیشن پرایک مشہور استاد عبد الباری صاحب تھے، اُن سے سرگم وغیر ہ سیکھی۔

س: نوّے کی دَہائی کا سُپر اسٹار، لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والا گلوکار، عامر سلیم،21 ویں صدی میں کہاں گُم ہے؟

ج: مَیں گُم نہیں ہوں، خاموشی سے اپنا کام کررہاہوں۔در اصل آج کا میڈیا با لکل بدل گیا ہے، پہلے زمانے میں پرنٹ میڈیا کا توتی بولتا تھا، انٹرویو چھپتاتو لوگ شوق سے پڑھتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں رہا۔پہلے الیکٹرانک میڈیا نے پرنٹ میڈیا کو ٹیک اوور کیااور اب ڈیجیٹل میڈیا یا سوشل میڈیا کا دَور ہے کہ چینلز وغیرہ پر تو زیادہ ٹاک شوز اور خبریں ہی آتی ہیں، تو لوگ یوٹیوب وغیرہ کی مدد سے گانے ریلیز کرتے ہیں اور مقبول ہوجاتے ہیں۔

مَیں بھی سوشل میڈیا پر اپنے گانے اَپ لوڈ کر تا ہوں ، اُس کے علاوہ بیرونِ ممالک کنسرٹس کے لیے جاتا ہوں ، بس ٹی وی چینلز پر زیادہ نظر نہیں آتا۔ ایک نجی اسکول میں بہ طورمیوزک انسٹرکٹر ہفتے میں ایک بار کلاس لیتا ہوں، اس کے علاوہ مختلف اسکولز میں میوزک ورک شاپس بھی کرواتا ہوں۔

س: فیلڈ میں اپنا استاد کسے تصوّر کرتے ہیں؟

ج: مَیں فیلڈ میں کسی کو اپنا استاد تصوّر نہیں کرتا۔مَیں نےجو کچھ کیا اپنی محنت، لگن اور ہمّت سے کیا۔ ہاں، دوست وغیرہ ضرور ساتھ دیتے ہیں، حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

س:آج کل جو میوزک بن رہا ہے، کام ہورہا ہے، اُس کے بارے میں کیا کہیں گے؟

ج: مَیںنے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ نئے دور سے اپنے دور کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ہمارا وقت زیادہ اچھا تھا، کام بہترین ہوتا تھا، آج کل ایسا کچھ نہیں ۔‘‘ پر مَیں نہیں مانتا۔ہمارے زمانے میں بھی بہترین، بد ترین میوزک بنتا تھا اور آج بھی یہی حال ہے۔بہت سے سنگرز، میوزک کمپوزرز بہت معیاری کام کر رہے ہیں، جب کہ بہت سے بس ایسے ہی کام چلا رہے ہیں۔ عاطف اسلم، راحت فتح علی خان، علی ظفر جیسے گلو کار ہمارا سرمایہ ہیں۔پڑوسی مُلک میں انہوں نے جو عزّت، نام کمایا اس کی مثال نہیں ملتی۔

س: آج سے پانچ سال بعد خود کو کہاں دیکھتے ہیں؟نیزمستقبل کے حوالے سے کیا پلانز ہیں؟

ج: پاکستان میں بالکل دل نہیں لگ رہا، خود کو پاکستان سے باہر دیکھ رہا ہوں۔یہاں کے حالات سے بہت دل برداشتہ ہوں، پلانز کیا بتاؤں۔ در اصل میرے ساتھ یکے بعد دیگرےکچھ ایسے حادثات ہوگئے کہ اب یہاں دل نہیں لگتا۔

س: کیافیلڈ کی وجہ سے ذاتی زندگی بھی متاثر ہوئی؟

ج: جب آپ شو بز میں ہوتے ہیں،تو ذاتی زندگی تومتاثر ہوتی ہی ہے۔ مَیں بھی جب شوز کے لیے مُلک سے باہر جاتا ، تو بیگم، بچّے پریشان ہوجاتے تھے، مگرپھر انہیں بھی عادت ہوگئی ۔ پر اب تو شوز بھی زیادہ نہیں ہو رہے، تو اتنا مسئلہ نہیں ہوتا۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ جب آپ کے پاس پیسا ہوتا ہے تو تمام مسائل خودبخود حل ہو جاتے ہیں۔

س:کسی بھی فیلڈ میں مقام بنانے کے لیےکن لوازمات کا ہوناضروری ہے؟

ج: ’’قابلیت، محنت ، قسمت، روابط‘‘۔ اوراگر مَیں گلوکاری کی بات کروں تو صرف آواز کا اچھا ہونا ضروری نہیں ، آپ کو اس شعبے سے متعلق مکمل معلومات بھی ہونی چاہئیں۔

س:ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں فن کاروں کو وہ عزت و احترام نہیں دیا جاتا، جس کے وہ حق دار ہیں۔آپ اس حوالے سے کیا کہیں گے؟

ج: ہاں، فن کاروں کو وہ احترام نہیں ملتا، جو ملنا چاہیے لیکن فن کاروں کو بھی یہ علم و ادراک ہونا چاہیے کہ شہرت، دولت، نام سب آنی جانی چیزیں ہیں۔ وقت ایک سا نہیں رہتا۔

زمانے کے ساتھ لوگوں کی پسند بھی بدل جاتی ہے، لہٰذا فن کاروں کو خود ہی اپنے مستقبل اور بُرے وقت کے لیے کوئی منصوبہ بندی کرنی چاہیےتاکہ بعد میں کسمپرسی کی زندگی نہ گزارنی پڑے۔ خود مَیں نے بھی کئی غلطیاں کیں، جن کا اب احساس ہوتا ہے۔

س: جیو نیوز کے مشہورِ زمانہ پروگرام ، ’’ہم سب اُمید سے ہیں‘‘ کا ٹائٹل سونگ آپ نے گایا۔ وہ تجربہ کیسارہا؟

ج: بہت سے لوگوں کوتو معلوم ہی نہیں کہ ’’ہم سب اُمید سے ہیں‘‘ کا ٹائٹل سونگ مَیں نےگایا ہے۔ در اصل جیو میں ہمارے بڑے اچھے دوست ہوتے تھے، شہزاد نواز، تو انہوں نے کہا کہ ایک ایسا پروگرام آن ائیر ہونے والا ہے، اس کا ٹائٹل سونگ آپ کردیں، تو بس دوستی میں گا دیا۔

س: س: زندگی میں جوچاہا،پالیایا کوئی خواہش باقی ہے؟

ج: مَیں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اللہ پاک مجھے اتنی دولت، شہرت، نام سے نوازے گا۔ ناہمواریاں تو زندگی کی علامت ہیں، لیکن مَیں خود کو بہت خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ مجھے میرے مالک نے بہت نوازا۔خواہش تو بس یہی ہے کہ اپنے بچّوں کو بہتر مستقبل دے سکوں۔

س: عشق و محبّت کا زندگی میں کس حد تک دخل ہے؟خود کبھی عشق کیا؟

ج: (ہنستے ہوئے)جی، بڑے عشق کیے ہیں۔کچھ محبتیں کام یاب ہوئیں، مگر کچھ ناکام رہ گئیں۔اصل میں ایک آرٹسٹ بہت حسّاس ہوتا ہےاور یہ بھی ضروری نہیں کہ عشق صرف عورت ہی سے ہو، موسم ، کام، کائنات کسی بھی چیز سے عشق ہو سکتاہے۔ اورپھر ایک بات یہ بھی ہے کہ عشق نام ہی لاحاصل کا ہے، وہ عشق ہی کیا، جو مل جائے۔عشق تو ایک جستجو ہے، جس کی چاہ میں انسان لگا ہی رہتا ہے ۔

س: شادی سے پہلے کی زندگی بہتر ہوتی ہے یا شادی کے بعد کی؟

ج: شادی سے پہلے کی زندگی بہت زبردست ہوتی ہے اور شادی کے بعد اُس وقت خُوب صُورت ہوجاتی ہے، جب بچّے زندگی میں آتے ہیں۔بچّوں کو دیکھ کر ایک انرجی، جینے کا حوصلہ ، کام کرنے کی اُمنگ ملتی ہے۔لیکن مَیں نے زندگی سے یہ سیکھا ہے کہ شادی جلدی کرلینی چاہیے، تاخیر سے نہیں۔

س: شادی اپنی پسند سے کی یا گھر والوں کی پسند سے؟

ج:گھر والوں کی پسند سے۔میری شادی کو 13 سال ہو چکے ہیں اور اللہ نے ہمیں دو بیٹے عطا کیے ہیں۔ اہلیہ شادی سے پہلے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ تھیں ، مگر اب ہاؤس وائف ہیں۔

س: کس بات پر غصّہ آتا ہے؟اورآئے تو ردّ ِعمل کیا ہوتا ہے؟

ج: ویسے مجھے غصّہ بہت کم آتا ہے، لیکن جب آئے تو ردّ ِ عمل شدید ہوتا ہے۔ مجھے عام طور پر لوگوں کی دوغلی باتوں، منافقت پر غصّہ آتا ہے۔زیادہ غصّہ آئے تو خاموش ہوجاتا ہوں۔

س: سخت پریشانی کے عالم میں کس کے کاندھے پر سر رکھ کر رونے کو جی چاہتا ہے؟

ج:دل تو کرتا ہے، زور سے رو، رو کر سب کو چیخ کے بتاؤںپر عموماً مَیں چُپ ہوجاتا ہوںیا کہیں باہر نکل جاتا ہوں۔

س: انسان قسمت کو بناتا ہے یا قسمت انسان کو؟

ج:انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے۔

س: والدین کی محبت کو کن الفاظ میں بیان کریں گے؟خصوصاً ماں کی محبت کو؟

ج: والدین سرمایۂ حیات ہوتے ہیں۔ تمام کام یابیاں انہی کے دَم سے ہیں،پر افسوس کہ ہمیں اس بات کا احساس تب ہوتا ہے، جب وہ اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔

س: خود کو کس عُمر کا تصوّر کرتے ہیں؟

ج:خود کو ہمیشہ ہی جوان تصوّر کرتا ہوں، اب ذیابطیس ہوگئی ہے، تو تھوڑا کمزور محسوس کرنے لگا ہوں۔

س: ایک دُعا جو ہمیشہ لبوں پر رہتی ہے؟

ج: میرے بچّے خُوب ترقّی کریں اور نام کمائیں۔

س: اپنے مدّا حوں کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟

ج: خواب دیکھیں اور انہیں پورا کرنے کے لیے مستقل مزاجی سے محنت کرتے جائیں۔