نیٹو کے 70 سال

December 15, 2019

یہ بات شاید ہی کسی کے لیے تعجب خیز ہو کہ گزشتہ دنوں نیٹو کے 70برس مکمل ہونے پر لندن میں منعقد ہونے والی تقریب رُکن ممالک کے درمیان یک جہتی سے زیادہ اختلافات منظرِ عام پر لانے کا موقع ثابت ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی وزیرِ اعظم، بورس جانسن کو نیٹو کے اس بنیادی اصول کا خاص طور پر ذکر کرنا پڑا کہ ’’One for all and all for one‘‘۔ تاہم، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ 29مغربی ممالک کا یہ اتحاد بکھرنے کے خطرے سے دوچار ہے، کیوں کہ تمام رُکن ممالک اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ نیٹو ہی ان کا وہ طاقت وَر بازو ہے، جس کی مدد سے وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے دُنیا پر اپنی برتری برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اختلافات کی نوعیت سیاسی و اقتصادی ہے۔ سیاسی اختلافات کا تعلق، تُرکی کی شمالی شام میں کُردوں کے خلاف فوجی کارروائی سے ہے، جب کہ اقتصادی اختلافات میں امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ مطالبہ سرِ فہرست ہے کہ نیٹو کے یورپی ارکان اپنے حصّے کی رقم ادا کریں۔ اس حوالے سے فرانسیسی صدر، ایمانوئیل میکرون کا کہنا ہے کہ یہ مطالبہ امریکا کا یورپی سلامتی سے عدم دل چسپی کا اظہار ہے۔ تاہم، برطانوی دارالحکومت میں منعقد ہونے والی نیٹو سربراہ کانفرنس کا مذکورہ بالا دونوں معاملات سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ اس کے ایجنڈے میں چین ، رُوس کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت اور سائبر حملوں جیسے چیلنجز سے نمٹنا شامل تھا۔

لندن میں منعقدہ سربراہ اجلاس میں شریک رکن ممالک کے رہنماؤں کا گروپ فوٹو

اسے حالات کی ستم ظریفی ہی کہا جا سکتا ہے کہ نیٹو کی 70ویں سال گرہ کے موقعے پر اظہارِ یک جہتی کے لیے برطانیہ کے دارالحکومت کا انتخاب کیا گیا، جو یورپی یونین سے الگ ہونے کا فیصلہ کرچکاہے۔ گرچہ یورپی یونین، یورپ کے ممالک کے درمیان اتحاد کی سب سے بڑی مثال ہے، لیکن 70برس تک 29ممالک کا ایک دفاعی معاہدے میں شامل رہنا بھی کوئی معمولی کارنامہ نہیں۔ یاد رہے کہ 1949ء میں جب نیٹو (نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن) وجود میں آئی، تو اُس وقت دُنیا غیر محفوظ اور تباہ حال تھی۔

اس سے قبل دوسری عالمی جنگ کے دوران لاکھوں افراد ہلاک اور کروڑوں بے گھر ہوئے، جب کہ جنگ و جدل سے ہونے والی معاشی تباہی نے دُنیا کے بیش تر ممالک کا دھڑن تختہ کر دیا۔ یہ ایک طے شُدہ حقیقت ہے کہ جنگ اُسی وقت ہوتی ہے کہ جب سیاست دان ناکام ہو جاتے ہیں یا انہیں ناکام کر دیا جاتا ہے، کیوں کہ سیاست میں لچک ہوتی ہے اور یہ آخری وقت تک ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کے اصول پر استوار ہوتی ہے، چاہے اسے ’’ڈِیل‘‘ کہا جائے یا کچھ اور نام دیا جائے، جب کہ جنگ کا آغاز ہی انسانی جانوں کے زیاں سے ہوتا ہے۔ یہ پہلی یا دوسری عالمی جنگ سے حاصل ہونے والا سبق نہیں، بلکہ اب تک دُنیا میں ہونے والی تمام جنگوں ہی سے یہ درس ملتا ہے۔

ملکۂ ایلزبتھ اور امریکی خاتونِ اوّل ، میلانیا ٹرمپ

اس بات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے دوسری عالمی جنگ کے بعد جو پہلا عالمی ادارہ قائم کیا گیا، وہ انجمنِ اقوامِ متّحدہ تھی۔ یہ ایک خالصتاً سیاسی ادارہ ہے، جو بات چیت اور مکالمے پر یقین رکھتا ہے۔ اقوامِ متّحدہ کی ہزاروں خامیوں اور اس سے لاکھ اختلاف کے باوجود جب بھی ریاستوں کے درمیان فوجی تصادم کا اندیشہ ہوتا ہے، تو اس کی سلامتی کائونسل سے رجوع کیا جاتا ہے۔ اقوامِ متّحدہ کے قیام کے ساتھ ہی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے مالیاتی ادارے بھی وجود میں آئے، جن کا مقصد ممالک کو مالی امداد کے ذریعے اپنے پیروں پہ کھڑا کرنا تھا۔

گرچہ ان سیاسی اقدامات کے فوراً بعد نیٹو جیسے دفاعی اتحاد کا قیام غیر معمولی حد تک متنازع فیصلہ لگتا ہے، لیکن یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہے کہ اُس وقت دُنیا دو بلاکس میں بٹی ہوئی تھی اور نظریاتی تقسیم خاصی گہری تھی۔ پھر نیٹو کے مقاصد سے واقفیت رکھنے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کے قیام کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ یورپ، جو مغربی تہذیب کا گڑھ ہے، کسی بھی قسم کی فوجی یا نظریاتی یلغار سے محفوظ رہے۔ گرچہ سوویت یونین بھی یورپ ہی کا حصّہ تھا، لیکن نیٹو نے امریکا پر انحصار کیا اور 1980ء کے عشرے میں اُس وقت اپنے قیام کا مقصد حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئی کہ جب اس نے ایک گولی چلائے بغیر ہی سوویت یونین کو پاش پاش کر دیا۔ یاد رہے کہ اقوامِ عالم کی عسکری تاریخ میں یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں۔

ڈونلڈٹرمپ اور ایمانوئیل میکرون مصافحہ کرتے ہوئے

اس موقعے پر مغرب نے ہتھیاروں کی بجائے پراپیگنڈے اور نظریات سے جنگ لڑی اور سوویت یونین کے اپنوں کے ہاتھوں ہی کمیونزم کو مٹا کر رکھ دیا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سوویت یونین کے آخری صدر، گوربا چوف نے یو ایس ایس آر کے منتشر ہونے کا اعلان کیا۔ گرچہ اُس وقت سوویت یونین کے پاس سب سے زیادہ جوہری ہتھیار اور بیلسٹک میزائلز تھے، لیکن وہ لانچنگ پیڈز سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اسے سوویت لیڈرز کا دُنیا پر احسان بھی کہا جا سکتا ہے، وگرنہ آج یہ سب لکھنے، پڑھنے کے لیے کوئی موجود نہ ہوتا۔

سوویت یونین کو رُوس میں بدلنے کے بعد نیٹو کی اگلی کام یابی یورپی خطّے، بلقانز میں کارروائی تھی۔ یہ 1990ء کے عشرے میں لڑی گئی اس کی پہلی جنگ تھی۔ تاہم، ان کام یابیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ نیٹو کی، جو بنیادی طور پر یورپ اور امریکا کے دفاع کے لیے قائم کیا گیا تھا، اسٹرٹیجی میں یک سَر تبدیلی رُونما ہوئی اور اس نے اپنی سرحدوں سے باہر نکل کر معرکہ آرائی شروع کر دی۔ سب سے پہلے اس نے عراق میں جنگ لڑی اور پھر افغانستان پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔ بعد ازاں، دوسری مرتبہ عراق میں جنگ لڑی اور اس پر قبضہ بھی کر لیا۔

لیبیا میں پیش قدمی کرتے ہوئے معمر قذافی کو شکست دی اور پھر نیٹو جنوبی ایشیا تک کی نگرانی پر مامور ہو گئی۔ یاد رہے کہ ابتدا ہی سے نیٹو کا کرداردُہرا رہا ہے۔ یعنی فوجی کردار کے ساتھ اس کا سیاسی کردار بھی ہے اور یہ حقیقت اس کے طاقت وَر ارکان نے کبھی نہیں چُھپائی۔ اُن کا کہنا ہے کہ جمہوریت، جو کہ مغربی طرزِ حُکم رانی ہی نہیں، بلکہ ایک نظریہ بھی ہے، نیٹو اس کی آب یاری اور نگہبانی کرتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد نیٹو نے مشرقی یورپ کے ممالک میں جمہوریت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر اس موقعے پر نیٹو ان ممالک کی حفاظت نہ کرتا، تو شاید ان ریاستوں کا جمہوری ڈھانچا جلد ہی ڈھے جاتا۔

مشرقِ وسطیٰ میں اس کی فوجی پیش قدمی اور اس سر زمین پر جمہوریت کا پودا لگانے کے پیچھے بھی یہی فلسفہ کار فرما ہے۔ سب سے پہلے اس نے عراق کو تجربہ گاہ کے طور پر منتخب کیا۔ تاہم، مشرقِ وسطیٰ میں دو وجوہ کی بنا پر نیٹو کو اس طرح کام یابی نہ مل سکی، جس طرح سوویت یونین میں ملی تھی اور اس کے ثمرات مشرقی یورپ میں نظر آئے۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں اسلامی ممالک واقع ہیں، جن کے لیے اسرائیل کے سرپرست کسی صُورت بھی قابلِ قبول نہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کے ہاتھوں چار جنگوں میں شکست نے عرب نوجوانوں میں امریکا اور یورپ کے لیے نفرت بھر دی تھی اور وہ مغرب سے آنے والے کسی بھی اچھے یا بُرے نظریے کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے اور اسے قبضے کی سازش قرار دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عرب نوجوانوں نے پہلے یاسر عرفات کی قیادت میں فلسطین کی آزادی کے لیے جدوجہد کی اور پھر امریکا کے عراق پرحملے کے بعد وہاں القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں نے جنم لیا۔

نتیجتاً، جمہوریت کی خاطر معرکہ آرائی کرنے والی نیٹو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے دوچار ہو گئی۔ یہ تنظیم گزشتہ18برس سے یورپ سے لے کر افغانستان تک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے، جسے کبھی تہذیبوں کے تصادم کا نام دیا جاتا ہے، تو کبھی نظریات کی جنگ کا۔ فوجی ماہرین کا ماننا ہے کہ گرچہ اس وقت نیٹو کے ارکان کی تعداد دُگنی ہو چکی ہے، لیکن اس کی قوت میں کمی واقع ہوئی ہے۔

تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ اس عرصے میں نیٹو نے اپنے زیرِ اثر علاقے کو وسیع کیا اور اب یہ رُوس سے ایک ہزار میل کے فاصلے تک پھیل چکا ہے۔ نیز، جو ممالک پہلے وارسا پیکٹ میں شامل تھے، وہ اب نیٹو کا حصّہ ہیں۔ تاہم، دوسری جانب آج نیٹو کو ایک انتہائی قوم پرست رُوسی لیڈر کا بھی سامنا ہے۔ ولادی میر پیوٹن کو، جو گزشتہ 20برس سے رُوس کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں، نیٹو کے اقدامات قطعاً پسند نہیں اور وہ اس مغربی اتحاد کو ہزیمت سے دوچار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ شام میں صدر، بشار الاسد کی کام یابی، یوکرین کے علاقے کریمیا پر قبضہ اور تُرکی کو میزائل دفاعی نظام کی فروخت اسی حکمتِ عملی کا حصّہ ہے۔

اکثر فوجی ماہرین اس اَمر پر متّفق ہیں کہ اب نیٹو اور رُوس کے درمیان ایک نئی قسم کی سرد جنگ جاری ہے۔ دوسری جانب تُرکی، جو ہمیشہ نیٹو کے ’’شمالی دروازے‘‘ کا نگہبان رہا ہے، اب اس سے برگشتہ نظر آتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ ’’سب ایک کے لیے‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے یورپ، کُردوں کے مقابلے میں اس کا ساتھ دے، جب کہ فرانس سمیت کئی رُکن ممالک کُردوں کی داعش کے خلاف جنگ کے اعتراف کے طور پر ان کی پُشت پناہی کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ کُرد اور تُرکی دونوں ہی مغرب کے دیرینہ حلیف رہے ہیں، لیکن اب تُرکی کُردوں کو باغی قرار دیتا ہے اور یہ تقسیم بھی نیٹو کے لیے چیلنج بن چکی ہے۔ پھر رُوس نے پیوٹن کے دَور میں جہاں اپنے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ کیا، وہیں سائبر وار اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی اس نے بہت ترقی کی۔

رُوس اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ سوویت یونین کو گولی چلائے بغیر شکست ہوئی تھی اور اب وہ بھی ان ہی طریقوں کو استعمال کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ سائبر حملوں اور ہیکنگ کے الزامات ثابت کرنا خاصا مشکل ہے۔ مغربی ماہرین رُوس پر اس نوعیت کے حملوں کے ساتھ مغربی ممالک کے انتخابات میں مداخلت کے الزامات بھی عاید کرتے ہیں۔ اس حوالے سے بریگزٹ ریفرنڈم اور امریکا میں 2016ء میں ہونے والے انتخابات کا ذکر عام ہے، جن میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کام یابی حاصل کی تھی۔ علاوہ ازیں، سیلس بری میں ہونے والے کیمیائی حملے بھی قابلِ ذکر ہیں۔

اس پس منظر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نیٹو کے 70سال مکمل ہونے پر، ہونے والے سربراہ اجلاس میں رُکن ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرنا چاہیے تھا، کیوں کہ اسی پلیٹ فارم کے ذریعے یہ رُوس اور چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی و فوجی قوّت کا مقابلہ کرسکتے ہیں، لیکن اجلاس کے آغاز میں مطلوبہ اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس وقت مالی معاملات یورپی ممالک کے لیے دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ یورپ سے اُس کے حصّے کا مطالبہ ٹرمپ کی اخترع نہیں ، بلکہ امریکی صدور ایک عرصے سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم، یورپ ان پر کان دھرنے سے انکاری ہے اور اب فرانسیسی صدر نے نیٹو کو ’’مُردہ دماغ‘‘ کے لقب سے نواز کر اس تنازعے کی شدّت مزید بڑھا دی ہے۔ ایمانوئیل میکروں کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نیٹو نے دفاعی و سیاسی حکمتِ عملی کی جانب توجّہ مرکوز رکھنے کی بجائے مالی معاملات کو موضوعِ بحث بنا لیا ہے۔

فرانسیسی صدر اپنے امریکی ہم منصب کے رویّے کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور اُن پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ نیٹو کو غیر مؤثر کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ بھی ردِ عمل ظاہر کرنے سے بالکل نہیں چُوکتے۔ یہی وجہ ہے کہ اجلاس میں شرکت کے لیے لندن پہنچتے ہی انہوں نے ایک طویل پریس کانفرنس میں اپنی فرانسیسی ہم منصب پر جی بھر کر تنقید کی اور پھر اپنی بعد از اجلاس پریس کانفرنس بھی ملتوی کر دی۔ یاد رہے کہ کچھ اسی قسم کی صورتِ حال کینیڈا میں بھی پیش آئی تھی۔ اس موقعے پر ٹرمپ اور کینیڈین وزیرِ اعظم، جسٹن ٹروڈو کے درمیان تلخ بیانات کا تبادلہ ہوا اور امریکی صدر قبل از وقت روانہ ہو گئے۔

لندن میں برطانوی وزیرِ اعظم، بورس جانسن نے نیٹو کے رُکن ممالک کے درمیان اختلافات کم کروانے میں کردار ادا کیا، تو وہیں یورپی ممالک اور کینیڈا بالآخر اپنے حصّے کی رقم نیٹو کو ادا کرنے پر رضامند ہو گئے۔ اس موقعے پر بالخصوص جرمن چانسلر، اینگلا مِرکل نے یورپ کی جانب سے سب سے زیادہ رقم ادا کرنے کا وعدہ کیا۔ یاد رہے کہ اس وقت جرمنی کا شمار یورپ ہی نہیں، بلکہ دُنیا کی طاقت وَر معیشتوں میں ہوتا ہے اور اس کے پاس سرمائے کی بھی کمی نہیں۔ علاوہ ازیں، نیٹو کے رُکن ممالک نے مزید مالی وسائل فراہم کرنے کے منصوبوں کی ہامی بھی بھری ہے، جن سے جدید دفاعی نظاموں کی تنصیب ممکن ہو گی اور یوں ڈونلڈ ٹرمپ کی شکایات کا ازالہ ہو گا۔

امریکا کی جانب سے بارہا مطالبے سے یورپ میں یہ احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ اُسے اپنے دفاع و سلامتی کے لیے زیادہ رقم دینے اور مزید کوششوں کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔ البتہ جہاں تک تُرکی کا معاملہ ہے، تو اس سلسلے میں ابھی انتظار کیا جا سکتا ہے، کیوں کہ اس سے نیٹو کو براہِ راست کوئی خطرہ نہیں اور پھر تُرک صدر، طیّب اردوان بھی امریکی افواج کی واپسی کے بعد مطمئن نظر آتے ہیں۔ نیٹو کے سربراہ اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں بھرپور یک جہتی کا مظاہرہ کیا گیا اور رُوس اور چین جیسے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں پر زور دیا گیا۔ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر ’’ہمیں خطرات سے محفوظ رہنا ہے، تو ساتھ رہنا ہوگا۔‘‘