جامعہ کراچی: امکانات کا جہاں

December 15, 2019

1947ء میں جب پاکستان ایک آزاد و خود مختار ریاست کے طور پر وجود میں آیا، تو مملکتِ خداداد میں اعلیٰ تعلیمی و تحقیقی ادارے نہ ہونے کے برابر تھے۔ سو، مستقبل میں اعلیٰ تعلیم کی ضرورت و اہمیت کے پیشِ نظر متعلقہ تعلیمی اداروں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ ان اداروں میں جامعہ کراچی یا دی یونی ورسٹی آف کراچی بھی شامل تھی، جسے جون 1951ء میں ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے قائم کیا گیا۔ تب یہ ایک وفاقی یونی ورسٹی کی حیثیت رکھتی تھی ،پھر 1962ء میں اسے صوبۂ سندھ کی یونی ورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ جامعہ کے پہلے وائس چانسلر پروفیسر اے بی اے حلیم تھے۔

ابتدائی دو برسوں تک یہ الحاق شدہ کالجز کی ایگزامینیشن یونی ورسٹی تھی۔ 1953ء سے یہاں فیکلٹی آف آرٹس اور فیکلٹی آف سائنس میں درس و تدریس اور تحقیق کا سلسلہ شروع ہوا اور ابتدا میں 50طلبہ نے داخلہ لیا۔ آغاز میں یونی ورسٹی کی عمارت سِول اسپتال سے ملحق تھی۔ تاہم، تیزی سے وُسعت اختیار کرنے اور ارد گرد کا علاقہ تنگ و آلودہ ہونے کے سبب اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے لیے موافق نہ ہونے کی وجہ سےشہر کے مرکز سے 12کلو میٹر کی دُوری پر واقع کنٹری کلب روڈ (موجودہ یونی ورسٹی روڈ) پر جامعہ کے لیے 1,279ایکڑ اراضی حاصل کی گئی، جہاں 18جون 1960ء کو یونی ورسٹی کیمپس منتقل کیا گیا۔

کراچی یونی ورسٹی سے وابستہ رہنے والی نام وَر شخصیات میں سابق صدرِ مملکت، سیّد ممنون حسین، سابق گورنر سندھ، محمد زبیر اور عالمی شُہرت یافتہ سائنس دانوں، ڈاکٹر عطاء الرحمٰن اور ڈاکٹر اقبال چوہدری کے علاوہ ڈاکٹر آئی ایچ قریشی، ڈاکٹر محمد حسین، ڈاکٹر سلیم الزّماں صدیقی، ڈاکٹر افضل حسین قادری، ڈاکٹر ایم ایم احمد، ڈاکٹر مجتبیٰ کریم، پروفیسر ایم الیاس، پروفیسر کیو فرید، ڈاکٹر عباد الرحمٰن خان، پروفیسر منتخب الحق، پروفیسر میمنی، ڈاکٹر ایس ایم یوسف، ڈاکٹر ایم اے ولی، پروفیسر منظور الدّین احمد اورڈاکٹر کیرا والا وغیرہ شامل ہیں۔

کراچی یونی ورسٹی طلبہ کی تعداد کے اعتبار سے مُلک کی سب سے بڑی جامعہ ہے۔ اسے برِصغیر اور تیسری دُنیا میں بھی نمایاں مقام حاصل ہے۔ یہاں سے فارغ التّحصیل ہونے والے متعدد سائنس دان اور اسکالرز اندرون اور بیرونِ مُلک اہم عُہدوں پر خدمات انجام دینے کے علاوہ عالمی شناخت بھی رکھتے ہیں۔ یونی ورسٹی میں قائم بعض تحقیقی مراکز کو تیسری دُنیا میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد غیر مُلکی طلبہ بھی یہاں سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔علاوہ ازیں، جامعہ کے اعلیٰ تعلیمی و تحقیقی معیارات کے سبب کراچی سمیت مُلک کے دوسرے حصّوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ یہاں داخلے کو ترجیح دیتے ہیں۔

امیدواروں کی ایک بہت بڑی تعداد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہی جامعہ نے 1995ء میں گریجویشن اور ماسٹرز لیول پر متعدد شعبہ جات میں ایوننگ کلاسز کا آغاز کیا اور اسے چلانے کے لیےایک باقاعدہ ڈائریکٹوریٹ آف ایوننگ پروگرام قائم کیا گیا۔ اس وقت جامعہ میں فیکلٹی آف آرٹس، فیکلٹی آف سائنس، فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز، فیکلٹی آف مینجمنٹ اینڈ ایڈمنسٹریٹو سائنسز، فیکلٹی آف انجینئرنگ ، فیکلٹی آف فارمیسی،فیکلٹی آف لا اور فیکلٹی آف ایجوکیشن کے تحت تعلیم دی جارہی ہے۔

جامعہ میں مجموعی طور پر 54شعبہ جات اور 19تحقیقی مراکز قائم ہیں، جو 40ہزار سے زاید طلبہ کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں۔ جامعہ کے اساتذہ کی تعداد کم و بیش 750ہے، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ہیں۔ ان میں سے کئی اساتذہ نے بیرونِ مُلک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رکھی ہے اور بین الاقوامی طور پر شُہرت یافتہ ہیں۔ جامعہ کا غیر تدریسی عملہ 3,500سے زاید افراد پر مشتمل ہے، جن میں ایک سے 17سے زاید گریڈ تک کے ملازمین شامل ہیں۔ اس وقت جامعہ کراچی سے لگ بھگ200کالجز اور دیگر تعلیمی ادارے الحاق شدہ ہیں۔ جامعہ نہ صرف ان اداروں کا نصاب منظور کرتی ہے، بلکہ ان میں تعلیم حاصل کرنے والے کم و بیش 1.5لاکھ طلبہ کے امتحانات بھی اسی کی رہنمائی و نگرانی میں ہوتے ہیں۔

نیز، یونی ورسٹی ہی ان کے نتائج تیار اور اسناد تفویض کرتی ہے۔ یہاں اپنی نوعیت ایک کا منفرد بوٹینیکل گارڈن بھی موجود ہے۔ اس باغ سے جہاں جامعہ کی خُوب صُورتی میں اضافہ ہوتا ہے، وہیں یہ ماہرِ نباتیات کے لیے ایک کُھلی تجربہ گاہ بھی ہے۔ محدود وسائل کے باوجود بھی اس وقت جامعہ میں ڈاکٹر اِن فزیو تھراپی اور شعبۂ قانون کی عمارت کے علاوہ ایک اسکول بھی تعمیر کیا جا رہا ہے۔

کراچی یونی ورسٹی میں صبح کی شفٹ میں تقریباً 24,000اور شام کی شفٹ میں 12,000ہزار طلبہ زیرِ تعلیم ہیں، جب کہ ایم فِل اور پی ایچ ڈی کرنے والے 5,000طلبہ اس کے علاوہ ہیں۔ ملازمت پیشہ افراد کو اپنے شعبوں میں ترقّی کی خاطر اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے لیے 1995-96ء میں جامعہ نے اپنے چند ڈیپارٹمنٹس میں ایوننگ پروگرام کا آغاز کیا اور اس پروگرام کی مقبولیت کے بعد ڈگری کی پیش کش کرنے والے شعبہ جات کی تعداد میں بہ تدریج اضافہ کیا گیا،جن میں کراچی یونی ورسٹی بزنس اسکول، پبلک ایڈمنسٹریشن، کامرس، ڈی فارمیسی، ابلاغِ عامّہ، انگلش، سائیکولوجی، کرمنالوجی، انٹرنیشنل ریلیشنز، اکنامکس، مائکرو بیالوجی، کیمسٹری، زوآلوجی اور بوٹنی شامل ہیں۔

نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے

ایوننگ پروگرام میں، صبح کی شفٹ میں فرائض انجام دینے والے اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ ہی خدمات انجام دیتا ہے،مگر اس کااُنہیں الگ سے معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔ البتہ بعض اساتذہ کی خدمات وزیٹنگ فیکلٹی کے طور پر حاصل کی جاتی ہیں۔ یہ پروگرام سہ پہر ساڑھے تین بجے سے رات 9بجے تک جاری رہتا ہے۔ایوننگ پروگرام میں کسی بھی شعبے کے فعال ہونے کی شرط یہ ہے کہ اس میں کم از کم 35طلبہ داخلہ لیں ۔ شام کی کلاسز سے، مارننگ پروگرام میں داخلہ لینے میں ناکام ہونے والے امیدوار بھی مستفید ہوتے ہیں۔

اس وقت جامعہ کراچی جنرل یونی ورسٹیز میںطلبہ کی اوّلین ترجیح ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس مرتبہ صبح کی شفٹ میں بیچلرز پروگرام کے لیے تقریباً 10ہزار درخواستیں موصول ہوئیں، جب کہ نشستوں کی تعداد ساڑھے تین ہزار تھی۔ بچ جانے والے 6,500طلبہ میں سے بعض کو ایوننگ پروگرام میں داخلہ دیا جائے گا، تو بقیہ دوسری جامعات میں داخلہ لیں گے۔

انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیو لوجیکل سائنسز کی ایک عمارت کا بیرونی منظر

علاوہ ازیں، کراچی میں قائم کالجز، جامعہ کراچی سے الحاق شدہ ہیں، تو پرائیویٹ اسٹوڈینٹس بھی یہاں اپنی رجسٹریشن کرواتے ہیں۔ یوںہر سال بی کام کے تقریباً 22,000، بی اے کے 5,500اور بی ایس سی کے 1,500 سے 2,000طلبہ رجسٹر ہوتے ہیں اور سالانہ 20سے 22ہزار ریگولر اسٹوڈینٹس جامعہ کراچی سے گریجویشن کرتے ہیں۔

اگر جامعہ کراچی کی جانب سے فراہم کر دہ سہولتوں پر نظر ڈالی جائے، تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ نسبتاً خاصی کم فیس کے عوض طلبہ کو معیاری تعلیم فراہم کر رہی ہے۔ محدود بجٹ کے باوجود یہاں شٹل سروس فعال ہے اور 27پوائنٹس شہر بھر کے طلبہ کو گھر سے جامعہ اور جامعہ سے گھر تک پہنچانے کی سہولت فراہم کر رہے ہیں۔

پھرماضی کے برعکس اس وقت یونی ورسٹی کی فضا بھی خاصی پُر امن ہے۔ نتیجتاً، اکیڈیمک کیلنڈر پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے اور طلبہ بر وقت ڈگری حاصل کرنے میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔ جامعہ میں مساجد، ریسٹورینٹس اور فوڈ اسٹالز بھی قائم ہیں۔ اساتذہ کو مُفت علاج معالجے کے علاوہ یونی ورسٹی کے اندر رہائش اور ریسرچ کی سہولت بھی دی گئی ہے۔

شیوخ الجامعہ کےنام اور دورانیہ

نیز، پی ایچ ڈی ہولڈرز اساتذہ کو ماہانہ 25ہزار روپے الاؤنس بھی دیا جاتا ہے۔ اس میں سے 10,000ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور 15,000روپےسندھ حکومت ادا کرتی ہے۔ اس وقت جامعات کی عالمی رینکنگ میں کراچی یونی ورسٹی 700ویں نمبر پر ہے، جب کہ ایچ ای سی کے آخری سروے کے مطابق پاکستان بھر کی عمومی جامعات کی درجہ بندی میں جامعہ کراچی چوتھے نمبر پر ہے۔جامعہ کو دیگر سرکاری و نجی جامعات سے مسابقت کا بھی سامنا ہے ،تو نمایاں مقام حاصل کرنے کے لیےیہ بتدریج اپنے معیار میں بھی بہتری لا رہی ہے۔

اس وقت بزنس اسکول آف کراچی یونی ورسٹی کا مقابلہ آئی بی اے اور لَمز جیسے منہگے نجی تعلیمی اداروں سے ہے، جب کہ فارمیسی میں جامعہ کراچی کا پہلا نمبر ہے، جس کا اعتراف پاکستان فارمیسی کائونسل نے بھی کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یونی ورسٹی میں پانچ سالہ ڈاکٹر آف فارمیسی پروگرام شروع کیا گیا ہے اور اس مقصد کے لیے الگ عمارت بھی تعمیر کی جا رہی ہے۔ یہاں کمپیوٹر سائنس کا شعبہ بھی موجود ہے، جس میں داخلے کے لیےہر برس کم و بیش 4ہزارامیدوار سامنے آتے ہیں، لیکن نشستوں کی کمی کے سبب صرف 200طلبہ ہی ایڈمیشن لینے میں کام یاب ہوتے ہیں۔ جامعہ کراچی کی فیکلٹی آف انجینئرنگ میں گزشتہ ایک عشرے سے کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم دی جا رہی ہے ۔

چوں کہ یہ شعبہ پاکستان انجینئرنگ کائونسل سے تسلیم شدہ ہے، چناں چہ این ای ڈی یونی ورسٹی کے بعد طلبہ اسی ڈیپارٹمنٹ کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر برس کم و بیش 2ہزار امیدوار سامنے آتے ہیں، جن میں سے محض 40کو داخلہ دیا جاتا ہے، جو پاکستان انجینئرنگ کائونسل کی شرط ہے۔ سرمائے کی قلّت کے باوصف نجی جامعات کا مقابلہ کرنے کے لیے یونی ورسٹی کو جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں ہر دو سے تین برس بعد کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ کو نئے کمپیوٹرز سمیت دیگر جدید آلات فراہم کیے جاتے ہیں۔ عصرِ حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق جامعہ کراچی کی انتظامیہ آئی ٹی کے شعبے پر بھی بھرپور توجّہ دے رہی ہے۔

اس سلسلے میں آئرلینڈ کی السٹر یونی ورسٹی کے ساتھ ایم او یو پر دست خط کیے گئے ہیں۔ اس معاہدے کی رُو سے یہ یونی ورسٹی کمپیوٹر سائنس میں ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے لیے طلبہ کو اسکالر شپس دے گی۔اس کے علاوہ ایران کی شیراز یونی ورسٹی سے مشترکہ تحقیق اور فیکلٹی اینڈ اسٹوڈینٹس ایکسچینج کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں طلبہ و اساتذہ مذکورہ یونی ورسٹی کے تعلیمی و تدریسی معیارات، تجربات سے ہم آہنگ ہوں گے۔

نیز، حال ہی میں برطانیہ کی نارتھمپٹن یونی ورسٹی نے اس بات کی منظوری دی ہے کہ وہ جامعہ کے بزنس ایڈمنسٹریشن اور قانون کے طلبہ کو اُن کے آخری تعلیمی سال میں داخلہ دینے کے علاوہ اپنی اسناد بھی دے گی۔ عام طور پر یہ یونی ورسٹی ایک سیمسٹر کے عوض 12ہزار پائونڈز وصول کرتی ہے، لیکن اس پروگرام کے تحت کراچی یونی ورسٹی کے طلبہ کو صرف ایک ہزار پائونڈز ادا کرنا ہوں گے۔

جامعہ کراچی میں طالبات کا تناسب 70فی صد ہے۔ فارمیسی، انگلش اور سائیکولوجی جیسے ڈیپارٹمنٹس میں طلبہ کی نسبت طالبات کی تعداد کافی زیادہ ہے، جب کہ بزنس اسکول میں طلبا و طالبات کی شرح مساوی ہے۔ یہاں ایک سو کے لگ بھگ غیر مُلکی طلبہ بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جن میں سے بیش تر کا تعلق صومالیہ، کینیا، سوڈان، لیبیا، اُردن اور برما سے ہے۔

ان طلبہ کو ان ممالک کی وزارتِ تعلیم نے یہاں بھیجا ہے اور وہی ان کے اخراجات اُٹھاتی ہے۔ جامعہ میں پاکستان کے دوسرے شہروں سے تعلق رکھنے والے طلبہ بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں،جن کا تناسب 20فی صد بنتا ہے۔ یونی ورسٹی کے اندر طلبا کے لیے رہائش کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ان کی تعداد میں اضافہ نہیں ہو رہا، جب کہ غیر مُلکی طلبا و طالبات دونوں کے لیے ہاسٹل کی سہولت موجود ہے۔ بیرونِ شہر سے آنے والے طلبہ میں سے زیادہ تر کا تعلق سندھ کے مختلف شہروں، بلوچستان ، خیبر پختون خوا اور گلگت بلتستان سے ہے۔

بوٹینیکل گارڈن کا ایک منظر

اندرونِ سندھ کے طلبہ قانون کی تعلیم کی طرف زیادہ رجحان رکھتے ہیں، گلگت بلتستان سے آنے والی طالبات سوشل سائنسز میں زیادہ دِل چسپی لیتی ہیں، جب کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ ایگری کلچر، بوٹنی اور سوشل سائنسز میں رغبت رکھتے ہیں۔ طلبہ کی صلاحیتوں اور استعداد میں اضافے کے لیے جامعہ میں کو کریکیولر ایکٹویٹیز پر بھی خصوصی توجّہ دی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں مختلف سوسائٹیز قائم ہیں اور ان کی کارکردگی میں بتدریج اضافہ کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں جامعہ کی ڈرامیٹک سوسائٹی نے اسلام آباد میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلا انعام حاصل کیا۔

اسی طرح حال ہی میں میوزیکل سوسائٹی نے جامعہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ملّی نغمہ تیار کیا۔ اس کے علاوہ آرٹ اینڈ کلچر اور اسپورٹس سوسائٹی بھی قائم ہے۔ نیز، یونی ورسٹی میں اسٹوڈنٹس وِیک اور کلچرل ڈیز بھی باقاعدگی سےمنائے جاتے ہیں، جن میں طلبہ بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں۔ نیز، جامعہ میں وقتاً فوقتاً کھیلوں کے مقابلے بھی منعقد ہوتے رہتے ہیں اور گزشتہ دنوں کراچی یونی ورسٹی کی کرکٹ ٹیم نے دُبئی میں ہونے والے ایونٹ میں حصّہ لیا۔ یہاں ڈیجیٹل لائبریریز بھی قائم ہیں۔ مثال کے طور پرایل ای جے (لطیف ابراہیم جمال) ڈیجیٹل لائبریری سے اساتذہ اور طلبہ کی بڑی تعداد استفادہ کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ مرکزی لائبریری میں بھی ایک ڈیجیٹل لائبریری موجود ہے۔

ان لائبریریز سے ایک وقت میں 150سے زاید افراد مستفید ہو سکتے ہیں۔ گرچہ جامعہ کی لائبریریز میں کُتب کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے، لیکن روپے کی قدر میں کمی کےباعث کُتب منہگی ہونے کی وجہ سے اب نئی کتابیں خریدنے کا سلسلہ خاصا کم ہو گیا ہے۔ تاہم، اس کی کمی ڈیجیٹل لائبریریز پوری کر رہی ہیں۔ جامعہ کراچی کو مزید سرسبز بنانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔

اس ضمن میں چند ماہ قبل مون سون کے سیزن میں شجر کاری مُہم شروع کی گئی تھی اور اس دوران جامعہ میں ایک لاکھ نئے پودے لگائے گئے۔جامعہ کی خُوب صُورتی میں اضافےکے لیے ایک لینڈ اسکیپنگ ڈیپارٹمنٹ بھی قائم کیا گیا ہے،جس نے پہلے مرحلے میں گیٹ نمبر ایک سے آزادی چوک تک ایک گرین بیلٹ بنایا ہے۔

18ویں آئینی ترمیم کے بعد کراچی یونی ورسٹی کے انتظامی امور سندھ حکومت چلاتی ہے، جب کہ وفاقی حکومت ہائیر ایجوکیشن کمیشن، اسلام آباد کے توسّط سے اس کے اخراجات پورے کرتی ہے۔ تاہم، سندھ حکومت بھی جامعہ کی مالی معاونت کر رہی ہے اور اس کی فنڈنگ میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔

جامعہ کراچی کا سالانہ بجٹ 5.5ارب روپے ہے۔ گرچہ یہاں پورے مُلک کی نمایندگی موجود ہے، لیکن اس برس ہائیر ایجوکیشن کمیشن، اسلام آباد کی جانب سے یونی ورسٹی کو 1.8ارب روپے کی گرانٹ ملی ہے، جب کہ پہلے 2ارب روپے ملا کرتے تھے۔ البتہ سندھ حکومت سے گزشتہ برس کے 47کروڑ 70لاکھ کی بجائے 61کروڑ 50لاکھ روپے ملنے کی توقّع ہے۔

یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ جامعہ کراچی اپنے بجٹ کا 44فی صد حصّہ اپنے ذرایع سے پورا کر رہی ہے اور جامعہ نے کبھی کسی بینک سے قرضہ نہیں لیا، جب کہ سندھ کی چار جامعات بینکوں سے قرضے لے چُکی ہیں۔ دوسری جانب جامعہ کراچی سے الحاق شدہ سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کی تعداد تقریباً 200ہے۔ دراصل، جامعہ سے الحاق کی چند شرائط ہیں، جن میں ذاتی عمارت، مطلوبہ فیکلٹی اور لائبریری کی موجودگی شامل ہیں۔ اگر کوئی ادارہ ان شرائط پر پورا اُترتا ہے، تو اس کا جامعہ سے الحاق ہو جاتا ہے۔

غیر ملکی جامعات سے مواز نے میں فنڈنگ کو بھی پیشِ نظر رکھیں، قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر خالد عراقی

ڈاکٹر پروفیسر خالد عراقی جامعہ کراچی کے قائم مقام وائس چانسلر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ شعبۂ نظمیاتِ عامّہ (پبلک ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ) کے پروفیسر ہیں۔ شیخ الجامعہ کے منصب پر فائز ہونے سے قبل ڈِین مینجمنٹ ایڈمنسٹریٹو سائنسز، چیئرمین پبلک ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ، ڈائریکٹر ایڈمیشن اور وائس چانسلر کے مُشیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

انہوں نے 1979ء میں کراچی کے ایک سرکاری اسکول سے میٹرک کے بعد شِپ اونرز کالج سے انٹر کیا۔ 1979ء میں جامعہ کراچی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز اورپھرپبلک ایڈمنسٹریشن میں پی ایچ ڈی کی۔ جامعہ کی رینکنگ کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ ’’دراصل، جامعات کی رینکنگ کا دارومدار تحقیق اور اُسے دستاویزی شکل دینے پر ہوتا ہے۔

ہمارے بہت سے ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ ریسرچ تو کرتے ہیں، لیکن تحقیقی کام کی باقاعدہ ڈاکیو مینٹیشن نہیں کی جاتی۔ اس خامی کا ادراک ہونے کے بعد ہماراQuality Enhancement Cellاس جانب توجّہ دے رہا ہے۔نیز، اس سلسلے میں مختلف شعبہ جات کے چیئرمین اور چیئر پرسنزکو ہدایات و رہنمائی بھی فراہم کی گئی ہے، تاکہ وہ بہتر انداز میں ریسرچ کو دستاویزی شکل دے سکیں۔ تاہم، مَیں یہاں یہ بھی واضح کردینا چاہتا ہوں کہ یونی ورسٹیز کی رینکنگ کا تعیّن آئوٹ پُٹ اور اِن پُٹ کی بنیاد پر بھی کیا جاتا ہے۔

آؤٹ پُٹ سے مُراد یہ ہے کہ کسی جامعہ سے فارغ التّحصیل ہونے کے بعد طلبہ کو ملازمت ملنے کے کتنے امکانات ہوتے ہیں، تن خواہ کتنی ملتی ہے اور آجر اُن سے کتنا مطمئن ہوتا ہے، جب کہ اِن پُٹ میں جامعہ میں طلبہ اور پی ایچ ڈی ہولڈرز کی تعداد کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔ یعنی درجہ بندی کا کوئی ایک معیار متعیّن نہیں۔ پھر رینکنگ میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لیے وسائل کی بھی ضرورت ہوتی ہے، کیوں کہ اس کے بغیر معیاری تحقیق نہیں ہو سکتی، جب کہ ایچ ای سی نے کراچی یونی ورسٹی سمیت تمام جامعات کے فنڈز میں کٹوتی کر دی ہے۔

اگر ہم کراچی یونی ورسٹی کا موازنہ غیر مُلکی جامعات سے کرتے ہیں، تو پھر ہمیں فنڈنگ کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہو گا۔ ہمارا سارا بجٹ تو تن خواہ اور پینشن کی ادائیگی ہی میں خرچ ہو جاتا ہے۔‘‘اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’شعبۂ تعلیم میں سرکار کی عدم دل چسپی کے باعث والدین اپنی کمائی کا بڑا حصّہ بچّوں کی ابتدائی تعلیم پر صَرف کر دیتے ہیں۔ غریب سے غریب تر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کے بچّے کسی معیاری نجی اسکول میں تعلیم حاصل کریں، کیوں کہ سرکاری اسکولز کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔

یاد رہے کہ اعلیٰ تعلیم وہی طالب علم حاصل کر سکتا ہے کہ جس کی بنیاد اچھی ہو۔ چوں کہ کراچی سمیت پورے سندھ کے سرکاری کالجز میں تعلیم و تربیت پر کوئی توجّہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی وہاں باقاعدہ کلاسز ہوتی ہیں، لہٰذا بچّے غیر ضروری سرگرمیوں کاحصّہ بن جاتے ہیں۔ پھر جب یہی بگڑے ہوئے طلبہ یونی ورسٹی آتے ہیں، تو ان کی وجہ سے پوری جامعہ کا ماحول متاثر ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ انٹرمیڈیٹ کے دو برس ہی بچّے کے مستقبل کا تعیّن کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دُنیا بھر میں کالج کی تعلیم پر خصوصی توجّہ دی جاتی ہے اور طلبہ گریجویشن سے پہلے ہی ملازمت حاصل کرنے میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے تعلیم ہماری ریاست کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔

ہم اپنے مجموعی بجٹ کا صرف 2فی صد ایجوکیشن کے لیے مختص کرتے ہیں اور یہ رقم بھی پوری طرح استعمال نہیں ہو پاتی۔ کسی وزیر کے بچّے کے سرکاری اسکول میں داخلہ لینے سے گورنمنٹ اسکولز میں تعلیم کا معیار بہتر نہیں ہو سکتا۔ اس مقصد کے لیے حقیقی معنوں میں کوششیں کرنا ہوں گی۔ سرکاری درس گاہوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے علاوہ وہاں مانیٹرنگ کا باقاعدہ نظام بھی قائم ہونا چاہیے۔ سندھ کے مقابلے میں پنجاب اور خیبر پختون خوا کے سرکاری تعلیمی اداروں کی صورتِ حال نسبتاً بہتر ہے اور وہاں نقل پر بھی قابو پالیا گیا ہے، مگر اس کے لیے بورڈز کی سطح پر بھی اصلاحات کرنا ہوں گی۔‘‘

جامعہ کراچی میں طلبہ کی کُل تعداد کا 70فی صد طالبات پر مشتمل ہے، جب کہ ملازمتوں میں تناسب اس کے برعکس ہے۔ جب ڈاکٹر پروفیسر خالد عراقی سے اس کی وجوہ دریافت کی گئیں، تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’ مُلک بھر کی جامعات کا یہی حال ہے۔دراصل، لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق تو ہوتا ہے، لیکن سماجی بندشوں اور دیگر اسباب کی بنا پر پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز نہیں کر پاتیں۔ پھر والدین بھی تعلیم مکمل ہونے کے بعد بیٹیوں کی شادی کو ترجیح دیتے ہیں اور بیٹے ہی کو کمائو پوت سمجھا جاتا ہے۔

تاہم، اگر والدین اور معاشرہ لڑکیوں کو اعتماد، حوصلہ فراہم کرے، تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنی قابلیت کی بنیاد پر مُلک کی ترقّی میں اپنا حصّہ نہ ڈال سکیں۔‘‘جامعہ میں سیاسی بنیادوں پر داخلے، تقرّریوں اور ترقّی سے متعلق کیے گئے سوال کے جواب میں وائس چانسلرنے بتایا کہ ’’مَیں گزشتہ تین دہائیوں سے اس ادارے سے وابستہ ہوں۔ یہاں سیاسی بنیادوں پر داخلے ملتے ہیں ، نہ ملازمت اور نہ ہی ترقّی۔ اخبارات میں خالی اسامیوں کا باقاعدہ اشتہار دیا جاتا ہے ، جس کے نتیجے میں امیدوار اپلائی کرتے ہیں۔ پھر ہائی کورٹ، سندھ پبلک سروس کمیشن، ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے نمایندوں اور ماہرین پر مشتمل ایک سلیکشن بورڈ تقرّری کی منظوری دیتا ہے۔

نیز، ہمارا داخلے کا طریقۂ کار بھی بالکل صاف و شفّاف اور میرٹ پر مبنی ہے۔‘‘ اس سوال کے جواب میں کہ ’’ غیر مُلکی جامعات کے اساتذہ کی جانب سے تحقیق اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے، جب کہ کراچی یونی ورسٹی کے اساتذہ کی تصانیف شاذو نادر ہی منظرِ عام پر آتی ہیں؟‘‘، انہوں نے کہا کہ ’’ہر چند کہ اساتذہ کا بنیادی کام درس و تدریس ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں تحقیق بھی کرنی چاہیے، کیوں کہ دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے جامعہ کے اساتذہ ریسرچ پر توجّہ دے رہے ہیں۔

اس وقت ہمارے نصف سے زاید اساتذہ پی ایچ ڈی ہولڈرز ہیں۔ بہت سے بین الاقوامی سائنسی جرائد میں ہمارے اساتذہ کے مضامین شایع ہو رہے ہیں۔ نیز، جامعہ سے بھی تحقیقی جرنلز شایع ہوتے ہیں۔ البتہ ہماری کوتاہی یہ ہے کہ ہم اپنی ریسرچ کو دستاویزی شکل نہیں دے رہے۔ اگر ہم یہ کام کرلیں، تو بڑی تیزی سے بہتری آئے گی۔‘‘

جامعہ کراچی کی شان و شوکت اور عظمتِ رفتہ کی بحالی سے متعلق کیے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر پروفیسر خالد عراقی کا کہنا تھا کہ ’’بد قسمتی سے ہمارا پورا معاشرہ ہی نشیب کی طرف گام زن ہے، مگر میں نا امید اور مایوس نہیں ہوں۔

اگر ہم اپنے نظامِ تعلیم، تدریس اور تحقیق پر توجّہ دیں، تو کراچی یونی ورسٹی کی شان و شوکت بحال ہو سکتی ہے۔‘‘ دیگر جامعات کی نسبت جامعہ کراچی میں طلبہ تنظیموں کی تعدادزیادہ ہونے سے متعلق سوال پرانہوں نے جواب دیا کہ ’’ یہ ایک خوش کن اَمر ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہاں مُلک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے اور مختلف الخیال طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔ پھر اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جامعہ کراچی ایک جمہوریت پسند ادارہ ہے، جہاں کوئی جبر نہیں۔‘‘ ماضی میں جامعہ کی اراضی پر قبضے کی خبروں پر اُن کا کہنا تھا کہ ’’ کافی عرصے سے ایسا کوئی واقعہ رُونما نہیں ہوا۔

البتہ اس حوالے سے چند ایک مقدّمات ابھی عدالت میں ہیں۔ 2012ء میں جامعہ کراچی نے پاکستان جیوگرافیکل سوسائٹی سے اپنی اراضی کا سروے کروایا، جو ایک مستحسن اقدام تھا۔ اب جامعہ کراچی کے پاس اپنی اراضی کا نقشہ موجود ہے اور اس کا کوئی بھی حصّہ متنازع نہیں۔‘‘ ماضی کے برعکس آج جامعہ کی حدود میں رکشے اور دیگر پبلک ٹرانسپورٹ بھی دکھائی دیتی ہے۔ اس کا سبب بتاتے ہوئے قائم مقام وائس چانسلر نے بتایا کہ ’’کراچی یونی ورسٹی کی بسوں کی تعداد میں بہ تدریج کمی واقع ہوئی ہے۔ ماضی میں یہاں کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی تقریباً 60بسیں چلا کرتی تھیں، لیکن اب پورے کراچی میں ایسا کوئی ریجنل ٹرانسپورٹ سسٹم موجود نہیں۔

اسی طرح ماضی میں لوکل گورنمنٹ ہر برس جامعہ کو دو بسیں دیا کرتی تھی، مگر گزشتہ تقریباً 10برس سے یہ سلسلہ بھی منقطع ہو چکا ہے۔ لہٰذا،بسوں کی تعداد میں بتدریج کمی واقع ہوتی گئی۔ البتہ اب جلد ہی یونی ورسٹی پی سی ون منصوبے کے تحت 8نئی بسیں خریدے گی۔ میری آمد سے قبل جامعہ میں شٹل سروس بند تھی ، صرف پوائنٹس چل رہے تھے، چناں چہ یہاں رکشے چلنے لگے، مگر مَیں نے دوبارہ شٹل سروس شروع کروائی، جس کے نتیجے میں جامعہ کی حدود میں رکشوں کی تعداد میں 50فی صد کمی واقع ہوئی۔

ہم جامعہ کی حدود میں رکشوں کی آمد و رفت ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن جب تک شٹل سروس میں بہتری واقع نہیں ہوتی، ان پر پابندی لگانا دُرست نہیں۔ تاہم، اس کے ساتھ ہی پبلک ٹرانسپورٹ کی کڑی نگرانی بھی کی جاتی ہے۔‘‘ جامعہ کراچی کو درپیش مسائل پر بات کرتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ ’’اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ فنڈز کی کمی کا ہے، پھر روپے کی قدر کم ہونے کی وجہ سے غیر مُلکی آلات اور کیمیکلز بھی منہگے ہو گئے ہیں۔ اسی طرح ایچ ای سی نے جامعات کے لیے فنڈز میں بھی کٹوتی کر دی ہے ۔ ہمیں پچھلے سال کے مقابلے میں رواں برس 20کروڑ روپے کم ملے ہیں۔

جامعہ کے اخراجات کا بڑا حصّہ پینشن کی ادائیگی پر مشتمل ہے، کیوں کہ ہمارے پنشنرز کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ اس مَد میں سالانہ کم و بیش ایک ارب روپے خرچ ہوتے ہیں، جب کہ بجلی کے بِلز کی مَد میں ماہانہ 3.5سے 4کروڑ روپے خرچ ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے کوئی ترقّیاتی کام نہیں ہو سکتا۔ ہمیں اپنے ذرایع سے آمدنی میں اضافے کا مشورہ دیا جاتا ہے، جب کہ ایک تعلیمی ادارہ کوئی تجارتی سرگرمی نہیں کر سکتا۔ البتہ ہم طلبہ کی تعداد اور فیس میں سالانہ 10سے15فی صد اضافہ کر کے اپنا ریونیو بڑھا سکتے ہیں۔ اگر ہمارے پالیسی میکرز یہ چاہتے ہیں کہ جامعات میں تحقیقی کام ہو، تو انہیں اس پر سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔

بجلی کی لاگت کم کرنے کے لیے اپلائیڈ کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کو سولر انرجی پر منتقل کیا جا چکا ہے ، جب کہ اگلے مرحلے میں سوشل سائنسز بلاک کو بھی شمسی توانائی پر منتقل کیا جا ئے گا اور ہم بجلی کی مَد میں ہونے اس بچت ہی کو طلبہ کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں گے۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’المنائی وقتاً فوقتاً ہماری مالی معاونت کرتی رہتی ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ المنائی کے بھی مختلف چیپٹرز ہیں۔ اگر کوئی ایک مرکزی چیپٹر ہوتا ، تو ہمیں اس سے رابطے میں آسانی رہتی۔ نیز، کراچی میں ایک یونی کیرین نامی ادارہ بھی قائم ہے، جو وقتاً فوقتاً ہماری مدد کرتا رہتا ہے۔ اس ادارے ہی نے کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کا ایک بلاک تعمیر کروایا ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر پروفیسر خالد عراقی سے جب یہ سوال کیا گیا کہ ’’جامعہ کراچی کے تین وائس چانسلرز، ڈاکٹر محمود حسین، ڈاکٹر ظفر زیدی اور ڈاکٹر اجمل خان کا انتقال دورانِ ملازمت ہوا اور کہا جاتا ہے کہ یہ تینوں وی سیز مختلف اقسام کے دبائو کا شکار تھے، تو کیا آپ بھی کسی قسم کا دبائو محسوس کرتے ہیں؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’ مَیں صرف ڈاکٹر اجمل خان کے بارے میں جانتا ہوں کہ انہیں کچھ طبّی پیچیدگیاں لاحق تھیں، مگر مجھے آج تک کبھی ایسا کوئی دبائو محسوس نہیں ہوا۔

جب آپ تمام فیصلے منطقی اور میرٹ کی بنیاد پر کریں گے، تو آپ کو پریشانی کی بجائے طمانیت ملے گی، لیکن اگر سیاسی بنیادوں یا اقربا پروری کی بنیاد پر فیصلے کیے جائیں، تو پھر دبائو آتا ہے۔ سابق وائس چانسلر زکے بارے میں تو مَیں کچھ نہیں کہہ سکتا، البتہ مجھ پر کسی قسم کا دبائو نہیں۔

مجھے تمام اختیارات حاصل ہیں اور مَیں انہیں اپنی اسٹیچوری باڈی کے ذریعے استعمال کرتا ہوں۔ اس منصب پر فائز ہونے کے بعد تین ماہ کے دوران مَیں نے اکیڈیمک کائونسلز کے دو اجلاس منعقد کروائے۔ نیز، سینڈیکیٹ کی ایک میٹنگ بھی ہو چُکی ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ایک وائس چانسلر کی حیثیت سے صوابدیدی اختیارات استعمال نہیں کرنے چاہئیں اور تمام فیصلے مشاورت سے ہونے چاہئیں۔ البتہ بعض افراد زیادہ حسّاس ہوتے ہیں اور مشکلات سے جلد خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔‘‘ بعض طبقات کی جانب سے وائس چانسلر کی تلاش کے لیے ریسرچ کمیٹی کے طریقۂ کار پر تحفّظات کا اظہار کیا جا تا ہے، اس بارے میں ڈاکٹر پروفیسرخالد عراقی کا کہنا ہے کہ ’’سرچ کمیٹی قانون کے تحت ہی تشکیل دی گئی ہے۔

یہ ایک احسن فیصلہ ہے اور مُجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ملازمتوں کے مواقع ناپید ہونے کی وجہ سے دُنیا بھر میں فِری لانسنگ عام ہوتی جا رہی ہے اوراس حوالے سے طلبہ کو ذہنی طور پر تیار کرنا ضروری ہے۔ اس بارے میں کیے گئے سوال کے جواب میں قائم مقام شیخ الجامعہ کا کہنا تھا کہ ’’ اب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے زیادہ ڈیجیٹل میڈیا کی مانگ ہے ۔ ہم اپنے متعلقہ شعبہ جات کو نئے رجحانات کے اعتبار سے ڈیزائن کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ پھر اس وقت میڈیا سائنسز کا الگ شعبہ بنانے کا منصوبہ بھی زیرِ غور ہے اور یہ ایک برس میں تعمیر ہو جائے گا۔‘‘

مُلک کا سب سے بڑا سائنسی مرکز

سائنس کے 23شعبہ جات اورتحقیقی مراکز کے اعتبار سے جامعہ کراچی کو مُلک کا سب سے بڑا سائنسی مرکز کہا جا سکتا ہے۔ ان ریسرچ انسٹی ٹیوٹس میں ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری جیسا ادارہ بھی شامل ہے، جس کی خدمات کا اعتراف ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز بھی کر چُکی ہے، جب کہ دیگر اداروں میں ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسنز اینڈ ڈرگ ریسرچ، خان انسٹی ٹیوٹ آف بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ، ڈاکٹر افضل حسین قادری بائیو لوجیکل ریسرچ سینٹر، میرین ریسورسز کلیکشن اینڈ ریسرچ سینٹر، نیشنل نیماٹو لوجیکل ریسرچ سینٹر، سینٹر آف ایکسی لینس اِن میرین بائیو لوجی، دی انسٹی ٹیوٹ آف انوائرمینٹل اسٹڈیز، انسٹی ٹیوٹ آف مالیکیولر جینیٹکس اور عُمر باشا انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی قابلِ ذکر ہیں۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جامعہ کراچی سے سائنس میں ایم فِل اور پی ایچ ڈی کرنے والوں کی تعداد دوسری جامعات سے کہیں زیادہ ہے ۔ اس وقت تک تقریباً 600ایم فِل، 300پی ایچ ڈی، 7ڈی ایس سی اور اتنی ہی ڈی لٹ کی ڈگریاں ایوارڈ کی جا چُکی ہیں۔ علاوہ ازیں، جامعہ کےمتعدد اساتذہ بھی مختلف ریسرچ پروگرامز میں مصروف رہتے ہیں اور مُلکی و غیر مُلکی سائنسی مطبوعات میں باقاعدگی سے اپنا حصّہ ڈالتے رہتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف 2006ء میں یونی ورسٹی کی سائنس فیکلٹی کی جانب سے 506ریسرچ پیپرز شایع کیے گئے۔

ڈاکٹرمحمود حسین لائبریری

جامعہ کا مرکزی کُتب خانہ،ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کا شمار مُلک کے بڑے کُتب خانوں میں ہوتا ہے۔ ایک وسیع و کُشادہ عمارت میں قائم اس لائبریری میں 3لاکھ60ہزار سے زاید کُتب اور مُلکی و غیر مُلکی جرنلز اور مجلاّت کی ایک لاکھ 10ہزار سے زاید نقول موجود ہیں۔ لائبریری میں ایک مائکرو فلم سیکشن بھی ہے، جہاں برٹش میوزیم، دی انڈیا آفس لائبریری، بوڈلین لائبریری اور کیمبرج یونی ورسٹی لائبریری کے نادر مخطوطات اور قلمی نسخوں کی نقول محفوظ ہیں۔

اس لائبریری میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کی ذاتی کُتب کا مجموعہ بھی موجود ہے، جن میں سے زیادہ تر پر بانیٔ پاکستان کے دست خط ہیں۔ علاوہ ازیں، یہاں آل انڈیا پاکستان مسلم لیگ کی دستاویزات کی نقول بھی دست یاب ہیں۔ مرکزی کُتب خانے کے علاوہ جامعہ کے ہر شعبے میں ایک سیمینار لائبریری بھی ہے، جب کہ ایل ای جے نیشنل سائنس سینٹر میں ایک ڈیجیٹل لائبریری بھی قائم ہے۔

رینجرز کو صرف مزاحمت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے

بعض طبقات جامعہ میں رینجرز کی تعیناتی پرمعترض ہیں کہ ان کی وجہ سے طلبہ، اساتذہ میں خوف و ہراس پیدا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے کیے گئے سوال کے جواب میں قائم مقام وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ ’’تعلیمی اداروں کو فوجی چھائونی میں نہیں بدلنا چاہیے۔ گرچہ کراچی یونی ورسٹی میں رینجرز تعینات ہے، لیکن وہ اپنے وِنگز تک محدود ہے۔

رینجرز صرف امن و امان کی صورتِ حال خراب ہونے ہی پر مداخلت کرتی ہے، وگرنہ طلبہ پُر سکون ماحول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور رینجرز اہل کار بھی اس بات سے بہ خوبی واقف ہیں کہ ایک تعلیمی ادارے میں انہیں کس قسم کا طرزِ عمل اختیار کرنا ہے۔ بد قسمتی سے جب طلبہ قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں، تو رینجرز کو مزاحمت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے جامعہ میں امن و امان کی فضا قائم ہے اور بہتر تعلیمی ماحول کی وجہ سے طلبہ بر وقت ڈگریز حاصل کر رہے ہیں۔ ماضی میں طلبہ تنظیموں میں تصادم کی وجہ سے اکثر جامعہ بند ہو جاتی تھی، امتحانات تعطّل کا شکار ہو جاتے تھے۔ خود مَیں نے بھی اپنی 4سالہ ڈگری 6برس میں حاصل کی۔البتہ شام کے وقت رینجرز اہل کار ضرور گشت کرتے ہیں، تاکہ یونی ورسٹی کی حدود میں موبائل فون چھیننے سمیت لُوٹ مار کے دیگر واقعات نہ ہوں۔‘‘