کرنل سلیمان کو ’دی میگنیفیشنٹ‘ کیوں کہا جاتا ہے؟

December 10, 2019

Your browser doesnt support HTML5 video.

71ء کی جنگ کے عظیم ہیرو کرنل سلیمان

گزشتہ روز دنیا کو خیرباد کہنے والے 71ء کی جنگ کے ہیرو کرنل سلیمان ناصرف ایک عظیم کمانڈو تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگی میں جرات و شجاعت کی بے شمار داستانیں بھی رقم کیں۔

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے کورس میٹ کرنل سلیمان نے 1971کی جنگ کے دوران گولہ بارود ختم ہو جانے کے باوجود دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا تھا جبکہ مشکل ترین حالات میں اپنے زخمی ساتھی ’میجر پی ڈی خان‘ کو محفوظ مقام پر پہنچایا تھا۔

لیفٹیننٹ کرنل محمدسلیمان کو’دی میگنیفیشنٹ‘کےلقب سے پکاراجاتا تھا۔ جنرل مشرف ہمیشہ اپنے کورس میٹ محمد سلیمان کو ’دی میگنیفیشنٹ‘ کےحوالے سے ہی یاد کیا کرتے تھے۔

واضح رہے کہ سلطنت عثمانیہ کے سب سے بڑے حکمران سلیمان اعظم کی شان و شوکت اور جرات و بہادری کی وجہ سے انہیں سلیمان دی میگنیفیسنٹ یعنی سلیمان عالیشان کہا جاتا ہے۔

1971کی جنگ میں لیفٹیننٹ کرنل محمد سلیمان نے بہادری کی ایک ایسی داستان رقم کی جس نے ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند کردیا۔

1971 کی جنگ کے دنوں کی بات ہے کہ ایک رات ایک بنکر میں دو کمانڈوز ایک دوسرے کے ساتھ مذاق کر رہے تھے تاکہ اپنا حوصلہ بلند رکھ سکیں۔

ایس ایس جی بلال رانا اپنے دوست اور ساتھی محمد سلیمان کی طرف متوجہ ہوا اورکہا کہ ’یار ، میرا بلاوا آگیا ہے لیکن مجھ سے اس بات کا وعدہ کرو اور میرا یہ دستی بم لے لو، اگر دشمن قریب آجائے تو دستی بم استعمال کرلینا لیکن کبھی مجھے ان کے قبضہ میں نہ جانے دینا اور ایک آخری بات اگر آپ کے گھر بیٹا پیدا ہو تو اسکانام ’بلال ‘ رکھنا۔‘

بات ختم ہوئی تو دونوں ہی قہقہے لگانے لگے۔ 10دسمبر 1971 کوایک مشن کے دوران میجر رانا بلال نے بہادری سے لڑائی کی اور شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوئے۔

پاکستان کی تاریخ کے اس سیاہ دن یعنی 16 دسمبر 1971 کو جنرل نیازی نے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا اور’سقوط ڈھاکا‘ کی خبریں پھیل گئیں۔

کرنل محمد سلیمان کو جب ان خبروں کا پتہ چلا تو انہیں اپنے دوست محمد بلال سے کیا وعدہ یاد آگیا۔ وہ ڈھاکا کینٹ میں اپنی بھری ہوئی کلاشنکوف رائفل کو لے کر غصے سے باہر آئے۔ کرنل سلیمان کی آنکھوں میں ہتھیار ڈالنے کے احکامات کو قبول کرنے سے صاف انکار نظر آرہا تھا۔

17دسمبر1971کی رات کو کرنل محمد سلیمان اندھیرے میں غائب ہو گئے اور دشمن کو دوبارہ نظر نہیں آئے۔ لیکن جب سلیمان نے ہیڈکوارٹر ایسٹرن کمانڈ چھوڑا تو وہ اکیلے نہیں تھے بلکہ میجر پی ڈی خان بھی ان کے ہمراہ تھے ۔ میجر پی ڈی خان کے گھٹنے میں گولی لگی ہوئی تھی اور وہ سی ایم ایچ میں موجود تھے۔

کرنل سلیمان سی ایم ایچ پہنچے اور پی ڈی خان سے کہا کہ وہ بھی اُن کے ساتھ چلیں۔ پی ڈی خان نے اس کی وضاحت کی وہ بری طرح سے زخمی ہیں اور وہ انکے فرار ہونے میں مشکل بن سکتے ہیں۔

اس وضاحت پر کرنل سلیمان نے پی ڈی خان کے سر میں ایک ضرب لگائی جس سے وہ بے ہوش ہو گئے اور انہوں نے پی ڈی خان کو اپنے کندھوں پر اٹھایا اور وہاں سے فرار ہو گئے اور اپنے گھر لے آئے جو کہ ایک محفوظ مقام تھا۔ اس کے بعد وہ لیفٹیننٹ جنرل پی ڈی خان بنے اور مشہور 10 کور چکلالہ کی کمانڈ کی۔

کرنل سلیمان نے دشمن کو اپنی خاکی وردی پر داغ نہیں لگانے دیا۔ انہوں نے اپنے دوست میجر بلال رانا سے کیے وعدے کو نبھایا اور غازی بن کر وطن لوٹے۔

میجر بلال رانا سے کئے وعدے کے مطابق جنرل مشرف اور کرنل سلیمان نےاپنے بیٹوں کا نام شہید رانا بلا ل کے نام پر ’بلال ‘ رکھا۔

ان کی بہادری اور عظمت کے پیش نظر جنرل مشرف اور پاک آرمی میں بہت سے لوگ آج تک انہیں محمد سلیمان’ دی میگنیفیشنٹ‘ کہتے ہیں۔