منزل کے نشان ڈھونڈتے رہے

December 14, 2019

ایک شخص جاگتی آنکھوں سے کتنے خواب دیکھ سکتا ہے۔ کوئی یہ بات جاننا چاہے تو آج کے نوجوانوں سے پوچھ لے، جن کا گزرتا سال )2019ء) خواب دیکھتے دیکھتے گزر گیا۔ حکومت نے اُن سے جو وعدے کیے تھے، وہ ان کو سُن کر ایسے خوش ہوگئے تھے جیسے ہر خواب کی تعبیر ان کو مل جائے گی۔ سال کے وسط میں کام یاب نوجوان پروگرام اور سال کے آخر میں ’’ڈیجیٹل پاکستان‘‘ نے ان کا مستقبل روشن ہونے کی نوید سنائی، ساتھ طلبا یونین کی بحالی نے بھی انہیں پرجوش کردیا، لیکن کتنےوعدے وفا ہوئے، کتنے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے؟ بہ ظاہر تو ایسا ہی لگا کہ 2019ء نہ تعلیم کے لیے اور نہ نوجوانوں کے لیے اچھا ثابت ہوا۔ بہرحال گزرتے سال کیا کچھ ہوا، اس کا مختصراً تجزیہ نذر قارئین ہے۔

2018میں تحریک انصاف کی حکومت برسر اقتدار آئی تو اس جماعت کو حکومت میں لانے کے لیے نوجوانوں کی بڑی تعداد نے ووٹ دیئے تھے ، انہیں امید تھی کہ 2019ان نوجوانوں کے لئے تبدیلی کا سال ہو گا۔لیکن 2019کے خاتمے تک سوائے وعدوں کے کچھ نہ ملا تو نوجوانوں کی بڑی تعداد طلبا یکجہتی مارچ کیلئے باہر نکل آئی۔ آیئے ہم مالی سال 2019 کے اختتام پر گفتگو کا آغاز اسی سے کرتے ہیں کہ تعلیم اور نوجوانوں کے حوالے سے غالباً سال کا سب سے بڑا واقعہ یہی تھا۔

نومبر کے آخری دنوں میں پورے پاکستان کے تیس سے زیادہ شہروں میں نوجوان اپنے یکجہتی مارچ کی بھرپور تیاریاں کر رہے تھے۔ ان شہروں میں کراچی،لاہور، اسلام آباد ،پشاور اور کوئٹہ کے علاوہ درجنوں دیگرعلاقوں کے شہری شامل تھے۔ 29 نومبر کو طالب علم اور نوجوان اپنے مطالبات کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے اور نہ صرف نعرے بازی کی بلکہ بینرز اور پلے کارڈز کے ذریعے تعلیم اور روزگار کی فراہمی کے مطالبے کئے۔

ان مطالبوں میں سب سے بڑا مطالبہ ایک سوال کی صورت میں تھا جس میں پوچھا گیا تھا کہ ملک بھر میں ’’ڈھائی کروڑ اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعلیم کا قاتل کون؟۔‘‘ اس سوال کے ذریعے نوجوانوں نےواضح کیا کہ ان کے مطالبات صرف اپنے حقوق کے لئے نہیں بلکہ بچوں کے لئے بھی ہیں۔ یہی سوال ہمیں اس سماج کے بنیادی تضادات کی طرف بھی توجہ دلارہاتھا جس میں مخصو ص طبقات کے بچے تو تعلیم حاصل کرتے ہیں،غریبوں کے نہیں کرسکتے۔

نوجوانوں کا اگلا مطالبہ تھا ’’روزگار دو یا بیس ہزار روپے بے روزگار الائونس ‘‘ اس مطالبے کے ذریعے نوجوانوں نے روزگار بنیادی حق کی طرف توجہ کیوں دلائی ،کیونکہ تحریک، انصاف کی حکومت کم از کم ملین یا ایک کروڑ ملازمتوں کے وعدے پر انتخاب جیتی تھی اور اس کے کئی رہنمامسلسل ایسے وعدے کر رہے تھے کہ عمران خان برسر اقتدار آتے ہی لاکھوں نوکریوں کے دروازے نوجوانوں پر کھول دیں گے۔ لیکن افسوس سا کے اختتام تک چند ہزار نوکریاں بھی نوجوانوں کو فراہم نہ ہو سکیں بلکہ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری تو صاف مکر گئے کہ نوجوانوں کو نوکریاں دینا حکومت کا کام ہی نہیں ، اس کے لئے نوجوان حکومت کی طرف نہ دیکھیں۔ ان قلابازیوں سے نوجوانوں کی مایوسی میں شدید اضافہ ہوتا رہا۔

اچھی بات یہ تھی کہ طلبا یکجہتی مارچ میں طلبا کے ساتھ طلبا تنظیموں کے عہدیدار ،انسانی حقوق کے کارکن ، علم بردار اور مزدور رہنما بھی شریک ہوئے، غرض یہ کہ گلگت بلتستان سے لےکر گوادر اور کراچی تک طلبا و طالبات اپنے مطالبات کے لئے آوازیں اٹھاتے رہے۔ بلوچستان کے شہروں میں جو طلبا یکجہتی مارچ ہوئے ان میں نمایاں مطالبات یہ تھے نوجوانوں کو دہشت گرد نہ سمجھا جائے اور نہ ان سے ایسا سلوک کیا جائے، خاص طور پر بلوچستان یونیورسٹی میں جنسی ہراسگی کے واقعات پر شدید احتجاج ہو ا اور انصاف کے مطالبے کئے گئے۔

یہ ہم جانتے ہیں کہ طلبا کے اہم ترین مطالبوں میں ایک بڑا مطالبہ یہ رہا ہے کہ طلباء تنظیموں کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کے معاملات میں فیصلہ سازی کے دوران طلباءکے منتخب نمائندوں کو شامل کیا جائے۔ ہمیں یاد رہے کہ طلباء نے نہ صرف تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لیا تھا بلکہ آزادی کیلئے لڑنے اور اپنی جان قربان کرنے والوں میں بھگت سنگھ جیسے نوجوان بھی شامل تھے۔ پھر قیام پاکستان کے بعد طلباء تحریک مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں میں خاص سرگرم رہی۔

مشرقی پاکستان میںبنگالی نوجوان نے بنگلہ زبان کی ترویج اور اہمیت کو منوانے کیلئے تحریک چلائی تھی۔ جب کہ کراچی میں طلبا ء کے مطالبات منوانے کے لئے 1950کے عشرے میں اوائل میں ڈاکٹر محمد سرور، ڈاکٹر ادیب رضوی، اور دیگر کئی طلبا رہنما جو اس وقت زیر تعلیم تھے بھرپور تحریک چلا رہے تھے۔1960کے عشرے میں جنرل ایوب خان اور مغربی پاکستان کے جاگیردار گورنر نواب کالا باغ نے مہینوں کالج اور جامعات کو نشانہ بنائے رکھا تھا کیونکہ وہاں جمہوریت کے مطالبے کئے جاتے تھے۔

بھٹو صاحب کے دور میں طلباء تنظیمیں کھل کر کام کرتی رہیںاور ان کے انتخابات تبھی ہوتے رہے، مگر طلبا تنظیموں پر 1979میں جنرل ضیا ء الحق نے سندھ میں اور پھر 1984میں پورے پاکستان میں پابندی لگا دی جس سے طلبا کی زبان بندی کی کوشش کی گئی اور ہم جانتے ہیں کہ زبان بندی کا نتیجہ تشدد کی شکل میں نکلتا ہے۔

اس کے بعد گزشتہ پینتیس سال سے طلباء تنظیموں پر پابندی ہے، گو کہ پیپلز پارٹی کے دور میں طلباء تنظیموں کی بحالی کے اعلان کئے گئے لیکن عملی طور پران پر پابندی برقرار رہی، کیوںکہ جہاں بھی طلبا ء نے تنظیمی سرگرمیاں شروع کرنے کی کوشش کی وہاں کی جامعات کی انتظامیہ کے علاوہ طلبا ء رہنمائوں کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں۔ جن سے طلباء میں سیاست سے دور رہنے کا رجحان پیدا ہوا۔

اب 2019میں طلبا ء نے اپنی تنظیموں کی بحالی اور یونین کے انتخابات کے مطالبے کو بھرپور طریقے پر اٹھایا ہے اور خود حکومت نے بھی اس جانب رضا مندی کا اظہار کیا ہے مگر موجودہ حکومت کے مطابق اس سلسلے میں ضابطہ اخلاق کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اب بھی طلبا ء تنظیموں کے سلسلے میں سنجیدہ نہیں ہے۔

اس سلسلے میں2019کا ایک اور اہم واقعہ یہ تھا جس میں نہ صرف بعض طلباء رہنمائوں کے خلاف یکجہتی مارچ کے سلسلے میں بلکہ مشعال خان کے والد اقبال خان کے خلاف بھی مقدمات درج کئے گئے۔ یاد رہے کہ مشعال خان مردان میں ولی خان یونیورسٹی کے طالب علم تھے جنہیں بعض جنونی طلبا ء نے جھوٹے الزامات لگا کر قتل کر دیا تھا۔ اب ان کے والد اقبال خان تعلیمی اداروں میں رواداری اور تحمل کی تعلیم کے علم بردار ہیں۔

اس طرح دو دسمبر 2019کو عالم گیر وزیر کو بھی گرفتار کیا گیا جن پر طلبا ء یکجہتی ما رچ منظم کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ ریاست کی مدعیت میں درج کئے جانے والے مقدمے، عمار علی جان، فاروق طارق، اقبال لالہ، عالم گیر (جو وزیر رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے بھتیجے ہیں) اور دیگر تین سو افراد کے خلاف غداری کے مقدمات درج کئے گئے ہیں۔اس مقدمے کی تفصیلات کے مطابق طلبا ءنے سڑکیں بند کر کے تقریریں کی تھیں جن میں طلبا ء طالبات کو اکسایا اور بھڑکایا گیا تھا۔

ان اقدامات سے ایسا لگتا ہے کہ 2019کے خاتمے پر بھی طلبا ء تنظیموں کی بحالی کے امکانات نظر نہیں آ رہے اور حکومت اس طرح طلبا و طالبات کو ڈرا دھمکا کر سیاست سے الگ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے، جبکہ حکومت کو سمجھنا چاہئے کہ سیاست ملکی معاملات میں دل چسپی لینے کا نام ہے، جس کی ہر نوجوان کو اجازت ہونی چاہئے۔ کیونکہ طلباء تنظیمیں ہی نوجوانوں کو بہتر سیاست کی تربیت فراہم کرتی ہیں۔

دسمبر 2019میں درج کئے جانے والے مقدمات اور گرفتاریوں سے قبل طلباء رہنمائوں نے پنجاب کے گورنر محمد سرور سے بھی ملاقات کی تھی جس میں گورنر نے طلباء تنظیموں کی بحالی کا وعدہ کیا تھا مگر ان وعدوں کے صرف چند دن بعد ہی طلباء کےخلاف کارروائیوں کا آغاز کر دیا گیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رہنمائوں کو خود نہیں معلوم کہ وہ کیا کہنا اور کرنا چاہتے ہیں۔ ایک دن طلباء کو دلاسے دیئے جاتے ہیں اور دوسرے دن ان کے خلاف مقدمات بنا کر ان کے رہنمائوں کو پکڑ لیا جاتا ہے۔

2019میں طلبا ءاور نوجوانوں کے اہم مطالبات میں ایک مطالبہ یہ بھی رہا کہ تعلیمی اداروں میں سہولتوں کے فقدان کو ختم کیا جائے۔ اب یہ کیا سہولتیں ہیںجو طلبا اور نوجوان مانگ رہے ہیں، سب سے پہلے تو تعلیمی اداروں کو فیسوں کا مسئلہ ہے جنہیں موجودہ حکومت کے دور میں بڑھا دیا گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کوحکومت سے ملنے والی رقوم میں کمی کے باعث تمام سرکاری جامعات شدید معاشی بحران کا شکار ہیں۔ حکومت ان سے اپنی ذرائع آمدنی بڑھانے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔

اب جامعات کے پاس وسائل نہ ہونے کے باعث وہ طلبا سے وصولی میں اضافہ چاہتی ہیں ایک طرف تو فیسوں میں اضافے کئے گئے دوسری طرف ہاسٹل کی سہولتیں یا تو ختم کر دی گئیں یاان کی بھی فیسیں بڑھا دی گئیں۔ اکثر ہاسٹل صاف ستھرے نہیں ہوتے ،کیوں کہ ان میں عملہ ناکافی ہوتا ہے اور پھر جن ہاسٹلوں میں کھانے کی سہولتیں تھیں وہ بھی کم یا پھر بالکل ختم کر دی گئی ہیں۔ وہی کھانے جو طلبا ء کم قیمت میں حاصل کر سکتے تھے اب 2019میں ان کے نرخ کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔اس کی ایک جزوی وجہ اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں ا ضافے بھی ہیں لیکن پہلے جامعات اپنے باورچی خانوں کو زر تلافی یا رعایتی قیمت پر چلاتی تھیں مگر اب خود جامعات کے پاس وسائل نہ ہونے کے باعث قیمتیں بڑھ گئیں۔

دوسری لازمی سہولت جو آمدورفت کے لئے ٹرانسپورٹ کی فراہمی تھی وہ بھی تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ مثال کے طو پر کراچی اور لاہور جیسے شہروں میں پہلے سیکڑوں گاڑیاں یونیورسٹی کی پوائنٹ بسوں کے طور پر چلا کرتی تھیں مگر اب ان شہروں میں بھی خال خال ہی ایسی بسیں نظر آتی ہیں ا ور وہ بھی کھچا کھچ بھری ہوئی جن سے طلبا خاص طور پر طالبات جامعات آنے جانے میں شدید دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر حکومت اس سے بے حس ہے۔پھر نوجوان اس کی بھی شکایت کرتے ہیں کہ 2019میں جب کہ دنیا تیز ترین انٹرنیٹ کو نوجوانوں کے قابل حصول بنا رہی ہے پاکستان میں یہ سہولت اب بھی خاصی مہنگی اور غریب طلبا ء و طالبات کے لئے تو بالکل ان کے وسائل سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ کتب خانوں میں نشستوں کی کمی ہے اور ہر کتب خانہ پورا بھرا رہتا ہے۔

جہاں زیادہ طلبا ء کے بیٹھنے یا پڑھنے کی گنجائش نہیں رہتی حتیٰ کہ بڑے شہروں میں بھی عوامی کتب خانے نہ ہونے کے باعث نوجوانوں کے لیے پڑھنے کی جگہ ناپید ہے۔ مثلاً کراچی کا حال دیکھئے جس کی آبا دی دو سے ڈھائی کروڑ ہے اور جس میں کم از کم ایک کروڑ نوجوان رہتے ہیں مگر ان کے لئے نہ تو کوئی تفریح کے مقامات ہیں نہ کھیل کود کی سہولتیں ہیں اور نہ ہی سینما یا تھیٹر وغیرہ ہیں۔پہلے سیکڑوں سینما گھر ہوتے تھے مگر اب چندگنتی کے سینما ہیں اور بھی مہنگے اور اونچے طبقے کے علاقوں میں،یہی حال کتب خانوں کا ہے۔

کراچی کے اٹھارہ ٹائون جو جنرل مشرف کے دور میں بنے تھے ان میں ہر ٹائون کی آبادی ایک سے ڈیڑھ ملین یا دس سے پندرہ لاکھ ہےمگر ایک دو کو چھوڑ کر کسی بھی ٹائون میں کوئی بڑا اور اچھا کتب خانہ موجود نہیں، جہاں نوجوان بیٹھ کر مطالعہ کر سکیں۔ اس طرح نوجوانوں کے مطالبات صرف کالجوں اور جامعات تک محدود نہیں بلکہ جامعات سے باہر بھی صحت مند سرگرمیوں کے لئے سہولتیں دینا ضروری ہیں۔

2019میں ہونے والے نوجوانوں اور طلبا کے حوالے سے دیگر واقعات میں لاہور کی انجینئرنگ یونی ورسٹی کے طلبا نے فیسوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کئے۔ یونی ورسٹی نے پہلے تو فیسوں میں بیس فی صد اضافے کا اعلان کیا اور پھر کالا شاکاکو اور نارووال کیمپسوں پر موجود سہولتوں کے نرخ میں سو فی صد اضافہ کردیا۔ اس طرح فی سمسٹر فی طالب علم بیس ہزار روپے سے زیادہ کا اضافہ لاگو کیا ، جس سے طلبا نے مظاہرے شروع کردیئے۔ تعلیم کے حوالے سے ایک اچھی خبر یہ تھی کہ سندھ یونی ورسٹی نے سوک یا شہریت کے حوالے سے تربیت کا اہتمام کیا۔

اس کے علاوہ سندھ یونی ورسٹی کے ٹھٹھہ کیمپس کے لئے معروف ماہر تعلیم اور انسٹی ٹیوٹ آف لینگویج اینڈ لٹریچر کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر رفیق میمن کو پرو وائس چانسلر تعینات کیا گیا۔ ڈاکٹر رفیق میمن سندھ کی تعلیمی سرگرمیوں میں بڑا نام رکھتے ہیں ، انہوں نے سندھ یونی ورسٹی میں بیس سال سے زیادہ خدمات انجام دی ہیں۔ امید کی جانی چاہئے کہ ان کی سربراہی میں ٹھٹھہ میں جامعہ سندھ کا کیمپس بہت جلد ایک اہم تعلیمی مرکز کی شکل اختیار کرلے گا۔

پنجاب سے ایک اچھی خبر تعلیم کے بارے میں یہ تھی کہ 2019میں پنجاب کی سطح پر لائف اسکلز بیسڈ ایجوکیشن یا زندگی کی مہارتوں پر مبنی تعلیم کو متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا ،گو کہ ایسا صرف باتوں تک ہوا یعنی اس سلسلے میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہ ہوسکی مگر یہ ضرور ہے کہ اس طرح کی تعلیم کو نوجوانوں کے لئے اب ضروری سمجھا جارہا ہے کہ نوجوانوں کو بتایا جائے کہ خودکو کیسے محفوظ رکھنا ہے۔ حفظان صحت کا کیسے خیال رکھنا ہے اور اپنے اعتماد میں کیسے اضافہ کرنا ہے اس کے علاوہ انسانی حقوق و فرائض کی پاس داری اور احترام کو کیسے زندگی کا حصہ بنانا ہے امید کی جانی چاہئے کہ دیگر صوبے بھی اس سلسلے میں آگے بڑھیں گے۔

بلوچستان یونی ورسٹی 2019میں اس حوالے سے خبروں میں رہی کہ اس کے طالب علم جامعہ میں نصب کیمروں کے خلاف احتجاج کرتے رہے۔ طلبا کا کہنا ہے کہ جامعہ بلوچستان میں جگہ جگہ خفیہ کیمرے نصب کردیئے گئے ہیں جس سے طلبا و طالبات پر مسلسل نظر رکھی جاتی ہے،کچھ طالبات نے بلیک میل کئے جانے کے الزامات بھی لگائے۔ اس کے بعد جامعہ بلوچستان نے دو کام کئے ایک تو ایک بار پھر طلبا و طالبات کے بیٹھنے یا کسی قسم کی میٹنگ یا اجلاس کرنے پر پابندی لگادی۔ سیاسی سرگرمیوں پر تو پہلے ہی پابندی ہے اس کے علاوہ جامعہ نے بیچلرز اور ماسٹر کے طلبا و طالبات کے لئے بھی یونی فارم متعارف کرانے کا اعلان کیا۔

گو کہ جامعہ بلوچستان کے رجسٹرار کے سرکلر کے مطابق یہ یونی فارم مارچ 2020سے لاگو کیا جائے گا لیکن اس کا اعلان 2019میں کردیا گیا۔ یاد رہے کہ 2019میں نوجوانوں اور طلبا و طالبات کے شدید احتجاج کے بعد جامعہ بلوچستان کے وائس چانسلر کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔ اب یہ نیا یونی فارم جس کی تصویریں جاری کی گئی ہیں بالکل اسکول کے یونی فارم جیسا معلوم ہوتا ہے اور اگر یہ 2020میں واقعی نافذ کردیا جاتا ہے تو جامعہ کو اسکول کی سطح پر لانے میں کوئی کسر نہیں رہ جائے گی۔

ویسے بھی وہاں کے طلبا و طالبات حد سے بڑھے ہوئے نظم و ضبط اور جامعہ کو اظہار رائے سے محروم رکھنے پر کیا طلبا اور کیا اساتذہ سب مضطرب ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب حکومت نے نوجوانوں کے لئے تعلیمی اداروں یعنی اسکولوں اور کالجوں میں موبائل فون کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے اس کا اطلاق پبلک اور پرائیویٹ اداروں پر ہوگا۔ یہ حکم ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشن کی طرف سے جاری کیا گیا جس میں تمام اسکولوں اور کالجوں کے سربراہوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ نوجوانوں کو موبائل فون کے استعمال سے روکیں۔ اب دیکھنا یہ ہے ، پنجاب حکومت اس میں کسی حد تک کام یاب ہوتی ہے۔

2019میں سرکاری سطح پر وفاقی وزیر تعلیم نوجوانوں کو یہ خوش خبری بار بار سناتے رہے کہ ملک میں یکساں نظام تعلیم جلد نافذ کردیا جائے گا۔اس سلسلے میں نوجوانوں کو 2019میں بھی یہی بتایا جاتا رہا کہ طرح طرح کے تعلیمی اداروں سے نجات دلاکر ایک طرح کی تعلیم نافذ کردی جائے گی، مگر حیرت ہے کہ تحریک انصاف جو پچھلے بائیس سال سے سیاست میں ہے اس سلسلے میں کوئی جامعہ دستاویز تیار نہیں کرسکی ہے۔ اور نہ ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ کیا اب سب نوجوان اور طالب علم مدرسوں میں پڑھیں گے یا سرکاری اسکولوں میں یا پھر سب کو نجی تعلیم اداروں میں پڑھایا جائے گا۔ اس سلسلے میں 2019بھی ابہام کا سال رہا اور کوئی نوجوانوں کو واضح جواب نہ دے سکا۔

قارئین کے لئے یہ بات ضرور ایک صدمے کا باعث ہوگی کہ 2019میں بھی اگر تعلیم کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو یونیسکو کے مطابق ایران اور سری لنکا میں دس سال کی عمر تک کے بچوں کے اسکول جانے کا تناسب ننانوے فی صد ہے۔ بھارت اور نیپال میں یہ تناسب اٹھانوے فی صد ہے اور پاکستان میں صرف پچھتر فی صد ہے یعنی کروڑوں بچے ابھی بھی تعلیم سے محروم ہیں۔

نوجوانوں میں اعلیٰ تعلیم تک پہنچنے کا تناسب بہ مشکل پانچ سے دس فی صد ہے یعنی اگر دس کروڑ نوجوان ہیں تو ان میں سے بہ مشکل ایک کروڑ نوجوان اعلیٰ تعلیم تک پہنچے پاتے ہیں اور پھر اس تعلیم کی بین الاقوامی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بائیس کروڑ کی آبادی والا یہ ملک جس میں دو سو کے قریب جامعات ہیں ایک بھی جامعہ ایسی نہیں ہے جو دنیا کی اعلیٰ ترین دو چار سو جامعات میں شمار ہوتی ہو۔

اس طرح اگر تعلیم پر اخراجات کو دیکھا جائے تو گھانا اور برونڈی جیسے ملک بھی اپنی مجموعی قومی پیداوار کا پانچ چھ فی صد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں، حتیٰ کہ مالدیپ، بھارت اور نیپال تک ساڑھے تین سے پانچ فی صد خرچ کرتے ہیں، جب کہ پاکستان جو ساتویں بڑی ایٹمی طاقت ہونے کا دعوے دار اور چھٹی بڑی افواج رکھتا ہے اپنی قومی پیداوار کا صرف دو ڈھائی فی صد تعلیم پر خرچ کرتا ہے اس طرح 2019میں نوجوانوں کی تعلیم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

2019کی ایک اور مایوس کن خبر یہ تھی کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے اپنے وسائل میں کمی کے باعث جامعات کی رقوم میں کٹوتی تو کی لیکن نوجوانوں کو کوئی خوش خبری دینے کے بجائے جامعات کو مجبور کیا کہ وہ اپنے وسائل میں خود اضافہ کرلیں۔ ظاہر ہے اس کے لئے وہ نوجوان طلبا و طالبات پر ہی بوجھ ڈالیں گی۔ اس سلسلے میں نومبر 2019 میں سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے سائنس اور ٹیکنالوجی کے سربراہ مشتاق احمد خان نے بتایا کہ حکومت جامعات کے لئے کمرشل یا تجارتی پالیسی بنا رہی ہے، تاکہ انہیں خود انحصار بنایا جاسکے۔اس کا مطلب ہے کہ حکومت مستقبل قریب میں نوجوانوں کی تعلیم پر مزید وسائل لگانے کے بجائے ان ہی سے رقوم بٹورنے کی کوششیں جاری رکھے گی ، کیوں کہ تعلیم کو تجارتی بنیادوں پر چلانے کا مقصد یہ ہوگا کہ حکومت سے توقع نہ رکھی جائے۔

2019میں طبی تعلیم یا میڈیکل ایجوکیشن کو ایک جھٹکا اس وقت لگا جب حکومت نے اچانک پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے خاتمے اور ایک آرڈی ننس کے ذریعے ایک نئے ادارے پاکستان میڈیکل کمیشن کے قیام کا اعلان کردیا۔ اس پر حزب اختلاف نے احتجاج کیا کہ آرڈی ننسوں کے ذریعے حکومت چلائی جارہی ہے تو حکومت نے ایک دن میں پندرہ آرڈی ننس اسمبلی میں اپنی سادہ اکثریت سے منظور کرائے۔

مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ 2019کا سال نہ تو تعلیم کے لئے اور نہ ہی نوجوانوں کے لئے سود مند ثابت ہوا۔ تعلیم کا حال بد سے بدتر ہوتا گیا، جب کہ نوجوان بالآخر باہر نکلنے پر مجبور ہوگئے۔ اب اس مسئلے سے نکلا کیسے جائے اور 2020میں کیا جائے۔ پہلے تو حکومت کو یہ سوچنا ہوگا کہ وہ تعلیم اور نوجوانوں کے بارے میں کیوں وسائل خرچ نہیں کرسکتی۔ اس کے لئے ملکی وسائل غیرپیداواری اخراجات سے بچنا ہوگا، جس کے لئے پڑوسی ممالک سے تعلق بہتر کرنے ہوں گے۔

جب تک وسائل تعلیم اور نوجوانوں پر خرچ نہیں ہوں گے حالات میں بہتری نہیں آسکتی۔ 2020میںحکومت کو کم از کم دو کام کرنے چاہئیں ایک تو بجٹ بناتے وقت قومی پیداوار کا چار سے پانچ فی صد تعلیم اور نوجوانوں کے لئے مختص کرے۔

اب تک حکومت صرف باتوں اور وعدوں سے کام لیتی رہی ہے اب کچھ عملی اقدامات کیے جائیں، ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ نوجوانوں کے مسائل حل کرنے انہیں روزگار فراہم کرنے کے لئے اب تک کچھ نہیں کیا گیا، جن پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ ہم تو اس سال کے ڈوبتے سورج کے ساتھ صرف امید ہی کرسکتے ہیں کہ کاش سال 2020نوجوانوں کے لئے اچھا ثابت ہو۔

طلبا یونین کی بحالی کا بل ، سندھ کابینہ میں منظور

طلبا تنظیموں کے حوالے سے دو دسمبر کو ایک اچھی خبر یہ آئی کہ سندھ میں طلبا تنظیموں پر پابندی ختم کردی گئی اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس کی منظوری دے دی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ان کی بحالی کے لئے متعلقہ قانون سازی کابینہ اور پھر سندھ اسمبلی کے ذریعے بہت جلد کرلی جائے گی۔ امید کی جانی چاہئے کہ 2019کے خاتمے تک نہیں تو 2020 کے آغاز میں یہ قانون منظور ہوکر لاگو ہوجائے تو یہ نوجوانوں اور طلبا کے لئے ایک بڑی خوش خبری ہوگی۔ واضح رہے کہ اس سلسلے میں ایک قرارداد سندھ اسمبلی پہلے ہی منظور کرچکی ہے۔ اس سے دو سال قبل اگست 2017 میں پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ نے اتفاق رائے سے ایک قرارداد منظور کرکے کہا تھا کہ ملک کی جامعات میں طلبا تنظیموں کو پوری طرح بحال کیا جائے۔

سال کے آخری ماہ ، 9 نومبر کو سندھ کابینہ نے سندھاسٹوڈنٹ یونین بل 2019ء منظور کرلیا۔ بل کے مطابق صوبے کے سرکاری یا نجی تعلیمی اداروں میں طلبا یونین بنائی جاسکیں گی۔ طلبا یونین کا تعلیمی سرگرمیوں کو روکنا، اسٹوڈنٹ گروپس میں نفرت پھیلانا، اسلحہ رکھنا، اسلحے کا استعمال یا تعلیمیاداروں میں لانا خلاف قانون ہوگا۔ غیر نصابی سرگرمیں کو فروغ دینا ہوگا۔ یونین سات سے گیارہ ممبران پر مشتمل ہوگی۔

کامیاب جوان پروگرام

2019 میں وزیر اعظم عمران خان نے معیشت کے استحکام کے لیے ایک نیا دروازہ کھولا اور اکتوبر 2019 میں کامیاب جوان پروگرام کا افتتاح کیا جس مں وعدہ کیا گیا کہ نوجوانواں کو تیکنیکی اور مالیاتی امداد فراہم کی جائے گی۔ سو ارب روپے سے زیادہ کے قرضے اس پروگرام کے تحت نوجوانوں کو فراہم کیے جائیں گے جس میں سے ایک چوتھائی یعنی پچس ارب روپے خواتین کے لیے ہوں گے۔اسکیم کے مطابق ہر نوجوان کو ایک لاکھ روپے کا قرضہ فراہم کیا جائے گا جو منافع یا سود سے پاک ہوگا۔ ان کے علاوہ دو اور طرح کے قرضے بھی فراہم کیے جائیں گے جن کو رعایتی رضوں کا نام دیا گیا ہے۔عمران خان کے اعلان کے مطابق ایک ملین یا دس لاکھ سے جوانوں نوجوانوں کو قرضے دئے جائیں گے ۔

یہ بھی وعدہ کیا گیا کہ دس ارب روپے سے زیادہ رقم سے نوجوانوں کو مختلف مہارتیں سکھائی جائیں گی جس سے ملک بھر میں سو سے زیادہ لیبارٹریاں قائم کی جائیں گی، ان کے علاوہ 25 ہزار نوجوانوں کو صنعتوں کے ساتھ رابطے میں بھی لایا جائے گا۔ 100 ارب روپے کا کامیاب نوجوان پروگرام‘‘، خوش آئند اور حیران کن نتائج اسی وقت دے سکے گا جب اس منصوبے میں نوجوان پوری کمٹمنٹ، اخلاص نیت سے اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں اور حکومت نے ان پر ایک خطیر رقم خرچ کرنے کا جو ذمہ لیا ہے وہ صد فی صد کامیاب ہو۔ وزیر اعظم کے مطابق اس پروگرام میں سب سے اہم چیز ’’میرٹ‘‘ ہے۔ بہرحل کامیاب جوان پروگرام کے آواخر تک تو کچھ اندازہ نہ ہوسکا ، ممکن ہے کہ 2020 میں س کے اثرات ظاہر ہوں۔